غلامی سے نکل کر قید آزادی میں عورت ہے

ہاتھی کے دانت کی مانندانسانی مسائل بھی دوطرح کے ہوتے ہیں ایک حقیقی جو اکثر عوام کی نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں یا رکھے جاتے ہیں اور دوسرے نمائشی جو نظر تو آتے ہیں لیکن کسی کام کے نہیں ہوتے۔ ان کے تعلق سے رویہ بھی دوطرح کا ہوتا ہے بہت سارے لوگ خود اپنے ذاتی مسائل کے اندر اس قدر الجھے ہوئے ہوتے ہیں کہ انہیں سماجی مسائل میں کوئی سرے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہوتی لیکن سارے لوگ ایسے نہیں ہوتے کچھ لوگ انسانیت کادرد محسوس کرتے ہیں اور ان کی جانب توجہ فرماتے ہیں ۔ ان دلچسپی لینے والوں کی دو قسمیں بادلوں کی مانند ہوتی ہیں ایک تو گرجنے والے اور دوسرے برسنے والے۔یعنی ایک طبقہ صرف ان مسائل کو اچھالنے پر اکتفاء کرتا ہے لیکن دوسرا انہیں حل کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنے میں یقین رکھتا ہے ۔ خواتین چونکہ انسانی سماج کا نصف بہتر ہیں اس لئے حقوق نسواں کےحوالے سے بھی یہی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

خواتین کے مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کرنے والوں کی بھی دو اقسام ہوتی ہیں ایک اس کا استیصال کرنے والے اور دوسرے استحصال کرنے والے۔ ان دونوں طبقات میں بہت نازک سا فرق اخلاص نیت کا ہوتا ہے۔ اول الذکر بے لوث انداز میں مظلوم و مقہور طبقات کے مسائل حل کرنا چاہتا ہے اور موخرالذکرمسائل کی آگ میں اپنی روٹیاں سینکنے کا نادر موقع مل جاتا ہے۔ بظاہر دونوں طرح کے لوگوں کا دعویٰ اور عمل یکساں ہوتا ہےوہ مسائل میں گھرے لوگوں کے شریک کار بن کر ان کو ظلم و جبر سے نجات دلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مطمح نظر مختلف ہوتا ہے ۔نیتوں کا حال تو صرف خدا جانتا ہے مگر ان گروہوں کے دیگر اقدامات سے اندازہ کیا جاسکتا ہےکہ کون مخلص اور کون منافق؟

اخلاص کے مزاج میں خاموشی کا عنصر پنہاں ہوتا ہے وہ جس قدر کرتا ہے اس سے بہت کم بولتا ہے اس کے برعکس نفاق شور شرابے کا محتاج ہوتا ہے۔ مثال کے طور پرمحترمہ ماروی سرمد اورسنیٹر حمداللہ کا قضیہ دیکھ لیجئے۔ ماروی سرمد کے مطابق حمداللہ نے ان کو گالیاں دیں اور کہا کہ وہ ان کی اور ان کی ماں کی شلوار پھاڑ دیں گے۔ یہ ایک یکطرفہ الزام ہے جس کی تصدیق ویڈیو سے نہیں ہوتی لیکن ماروی کے مطابق وہ ویڈیوکے اندر فلمبند ہے جو نشر نہیں کی گئی۔ اگر یہ درست ہے تو قابلِ مذمت ہے اس لئے کہ کسی خاتون سے اس طرح کے لب و لہجے میں بات کرنے کی اجازت امریکہ کا لبرل سماج اپنےصدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کوتو دیتا ہے مگر اسلام اپنے ہمنواوں کو ہر گز نہیں دیتا۔ حمداللہ اگرجمیعتہ العمائے پاکستان کے سنیٹر نہیں بلکہ پی پی پی یاایم کیوایم کے ہوتے تو ان کیلئے یہ جائز تھالیکن جمیعت میں ہوتے یہ ہرگز مناسب نہیں ۔اگر حمداللہ نے ایسی زبان استعمال کی ہے توانہیں جمیعت اور عدالت دونوں کی جانب سے قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ خیر ماروی سرمد کی شکایت پولس درج کرلی ہے اور خفیہ شواہد بہت جلد عدالت میں پیش ہو جائیں گے۔ عدالت کے فیصلے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائیگا ۔ حمداللہ قصوروار ہے تو انہیں سزا ہوگی اور ماروی سے زیادہ خوشی ہمیں ہوگی۔

اس ویڈیو میں جو کچھ موجود نہیں ہے اس پر تو خوب ہنگامہ ہوچکا لیکن ان شور مچانے والے لوگوں اور حمداللہ کےساتھ سارے اسلام پسندوں کو کٹھہرے میں کھڑے کرنے والوں سے ایک مؤدبانہ گزارش یہ بھی ہے کہ وہ ٹھنڈے دماغ سے ویڈیو میں جو شواہد موجود ہیں انکوبھی دیکھنے کی زحمت گوارہ فرمائیں ۔ ویڈیو کے اندر دیکھا جاسکتا ہے کہ بیرسٹر مسرور نے اسلامی نظریاتی کونسل کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد مولانا شیرانی کو چرسی کے خطاب سے نواز دیا ۔ بیرسٹر مسرور چونکہ ایک روشن خیال خاتون ہیں اس لئے ان کی یہ اہانت آمیز بہتان طرازی ایک نامعلوم شلوار کی آڑ میں چھپ گئی۔ کسی لبرل دانشور نے اس پر گرفت کرنے کی زحمت نہیں کی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرسنیٹر حمداللہ کی بدزبانی قابل مذمت ہے تو کیا بیرسٹر مسرورکا اپنے مخالف کو چرسی کہہ کر پکارنا قابلِ ستائش ہے؟

اس پروگرام میں پہلے خواجہ آصف کے ذریعہ شیریں مزاری کے خلاف نازیبا الفاظ کی مذمت کی جاچکی تھی اسی اصول کے مطابق حمداللہ نے مولانا شیرانی کیلئے استعمال کئے جانے والے تضحیک آمیز لہجے کے مذمت کا بھی مطالبہ کیا۔ کیا یہ کوئی ناجائز مطالبہ تھا کہ جس پر ماروی نےطیش میں آکر تین بار اصرار کے ساتھ کہا کہ میں مسرور کی حمایت کرتی ہوں ، کرتی ہوں کرتی ہوں۔ ماروی سرمد کے بہتان طرازی کے برسرِ عام حمایت پر بھی کوئی تنقید نہیں ہوئی اس لئے کہ وہ خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ روشن خیال ہیں ۔ اس پرحمداللہ نے کہا اگر یہی بات میں آپ کو اپنے خیالات کے اظہار کی اجازت نہیں دوں گا۔ اور ہنگامہ ہوگیا اور بقول ماروی کےحمداللہ گالی گلوچ کی پراترآئےنیز شلوار والی دھمکی دے کر پروگرام سے چلے گئے۔جسے نشر نہیں کیا گیا۔

حمداللہ کی دھمکی اورگالی گلوچ یقیناً قابلِ مذمت ہے لیکن اسی الزام میں ماروی اعتراف کرتی ہیں کہ انہوں نے بھی حمداللہ کی گالیوں کا ترکی بہ ترکی جواب دیا گویا گالیوں کا حساب تو بے باق ہوگیا۔ جہاں تک شلوار والی دھمکی کا سوال ہے وہ تو ویڈیو پر موجود نہیں ہے لیکن ماروی سرمد کے یہ چیلنج ضرور موجود ہے کہ’’تو اکھاڑ لے جو اکھاڑنا ہے‘‘۔ اگر ایک سنیٹر کیلئے شلوار کا ذکر نامناسب ہے تو کیا ایک معزز دانشور کو اکھاڑنے پچھاڑنے کے لہجے میںللکارنا چاہئے جبکہ یہ الفاظ بھی گالی کے طور پر معروف ہیں ۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ ماروی سرمد کا یہ ردعمل حمداللہ کی بدتمیزی کے خلاف تھا اور ابتداء حمداللہ کی جانب سے ہوئی تھی تو یہ دعویٰ بھی غلط ہے ۔چنگاری تو بیرسٹر مسرور کے چرسی والے فقرے نے لگائی۔ اس کو ہوا دینے کا کام ماروی نے کیا اس لئے ردعمل کا اظہار حمداللہ کی جانب سے ہوالیکن اسلام کے خلاف آگ پھیلانے والوں کو چنگاری دکھانے والی اور ہوا دینے والی کیسے نظر آسکتی ہیں؟

اس تنازعہ سے ہٹ کر محترمہ ماروی سرمد کے خیالات اور لب و لہجے کا بھی تجزیہ ہونا چاہئے۔ ایک انٹرویو میں وہ فرماتی ہیں کہ قائداعظم دوقومی نظریہ کے حامل نہیں تھے۔یہ آدھا سچ ہے ایک زمانے تک جب وہ کانگریس میں تھےایسا تھا لیکن آگے چل انہوں نے مسلم لیگ بنا کر قیام پاکستان کی تحریک چلائی ۔ان کے اس کارنامہ کی لال کرشن اڈوانی تک نے پذیرائی کی اور اس کی بہت بڑی قیمت چکائی لیکن ماروی اس کو تسلیم نہیں کرتیں بلکہ نصف سچ پر اصرار کرتی ہیں۔ دوقومی نظریات کی مخالف ماروی بلوچستان کی آزادی کی درپردہ حمایت کرتی ہیں اور مشرقی اور مغربی پنجاب کےتہذیبی اشتراک میں انضمام کا پہلو تلاش کرتی ہیں ۔ اگر بلوچستان اور پنجاب پاکستان کے نقشے سے غائب ہوجائیں تو صوبہ پختون خواہ کوافغانستان اور صوبہ سندھ کو گجرات و راجستھان میں شامل ہونے سے کون روک پائے گا؟ دونوں علاقوں سرحدی گاندھی کے وارث اور جیو سندھ کے اسلام دشمن حامی پاکستان سے بیزار بیٹھے ہیں ۔ اس طرح پاکستان نام کا ملک دنیا کے نقشے سے اپنے آپ غائب ہوجائیگا۔

سیکولر حضرات جمہوریت اور دستور کی بالادستی کا بہت بڑے وکیل بنتے ہیں ایک ٹی وی مذاکرے میں جب ماروی صاحبہ سے پاکستانی دستور کی دفعات ۶۱ سے ۶۵ کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ دلیل یا منطق کی بنیاد پر ان کی خامیاں بیان کرکے اصلاح کی تجاویز پیش کرنے کے بجائے انہیں خرافات قرار دے کر مستردفرمادیتی ہیں ۔ کیا یہ رویہ درست ہے؟ اور اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ دلائل کی عدم موجودگی رعونت کا بھیس بدل لیتی ہے؟ اس صورتحال میں روشن خیالی کی کسوٹی یہ ہے کہ معزز خاتون کی خرافاتکامدلل جواب دینے کے بجائےاس کی دلیری پر تالیاں پیٹی جائیں۔ان خیالات کا بے باکانہ اظہار پاکستان جیسے بنیاد پرست مذہبی ملک میں ہی ہوسکتا ہے ورنہ اگرکوئی ہندوستان جیسی عظیم جمہوریت میں ان اظہار کرے تو پتہ چلے گا کہ اس پر بغاوت کے کتنے الزامات لگتے ہیں ؟جے این یو کا معاملہ بہت پرانا نہیں ہوا ہے اور مقدمات کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

مملکت پاکستان کے ان روشن خیال دانشوروں کوملالہ یوسف زئی کا تو بہت ملال ہے لیکن انہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی یاد شاذو نادر ہی آتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کسی مدرسے کی طالبہ نہیں تھیں کہ انہیں کٹھ ملا کہہ کر نظر انداز کردیا جائے۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم امریکہ کے ہوسٹن یونیورسٹی سے حاصل کی تھی۔ ان کے والد بھی برطانیہ سے طب کی تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ عافیہ کے امریکہ میں آرکیٹیکٹ ہیں اور بہن فوزیہ دماغی امراض (نیورولوجی) کی ماہر ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ کے عالمی شہرت یافتہ میساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(MIT ) میں اپنی زندگی کے دس بہترین برس گزارنے کے بعد برینڈیز میں نیورو لوجیکل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور سائنس دان کے طور پر معذور بچوں پر تحقیق کا کام انجام دیا۔

ان زبردست کامیابیوں کے باوجود ڈاکٹر عافیہ صدیقی روشن خیال طبقہ کی نظر سے اوجھل ہیں کیونکہ انہوں نے اعلی سائنسی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین اور فقہ کا علم حاصل کیا۔ اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کے موضوع پر تقابلی جائزہ اورتحقیق کی ۔امریکہ میں قیام کے دوران عافیہ نے اسلام کی دعوت کا کام کیا۔MITمیں دورانِ تعلیم وہ اپنے ہم جماعت طلباء بلکہ جیل کے قیدیوں تک میں قرآن مجید کے تراجم اور اسلامی کتب تقسیم کئے ۔ عافیہ نے مقامی مسلم بچوں کے درجنوں گروپ ترتیب د ے کر اختتام ِہفتہ قرآنی قاعدہ پڑھانے کا اہتمام کیا ۔عافیہ نے بوسنین یتیم بچوں اور بیواؤں کے لیے فنڈریزنگ بھی کی۔قیام امریکہ کے دوران ایک مرتبہاسٹڈی سرکل میں پرامید عافیہ نے کہا تھا ’’ہم خلوص اور تحمل سے اللہ کے دین کا کام کریں تو کیا عجب یہی امریکہ کل کوایک اسلامی ریاست بن جائے‘‘۔

حریت اور آزادی کا علمبردار امریکہ عافیہ کے حق تبلیغ کا احترام نہیں کرسکا۔ ان کے خاوند کو اور انہیں حراساں کیا جانے لگا بالآخر وہ مادر وطن لوٹ آئیں۔ ۳۰ جون۳ ۲۰۰؁ کو کراچی سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغواء کیا گیا اور ۳اگست۲۰۰۸؁کو بی بی سی نے رپورٹ دی کہ وہ زخمی حالت میںافغانستان کی جیل میں ہے۔ مگر ان کےزخمی ہونےیا افغانستان پہنچنے کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ اس کے بعد یہ کہانی سنائی گئی کہ جب ایف بی آئی کے دو سپیشل ایجنٹ‘ ایک آرمی وارنٹ آفیسر‘ ایک آرمی کیپٹن اورایک بلیک واٹر کاملٹری کمانڈو ڈاکٹرعافیہ سے تفتیش کرنے کیلئے غزنی محل میں پہنچے تو نہتی عافیہ موقع غنیمت جان کر امریکی وارنٹ افسر کی گن اٹھا کر ان پر فائر کرنے لگی۔ اس پرامریکی بلیک واٹر اہل کار نے عافیہ کو فوراً دھکا دے کر نیچے گرا دیا اور وارنٹ آفیسر نے سروس پستول سے عافیہ کو زخمی کردیا۔ سیکولر جمہوریت کے سرخیل امریکہ کی عدالت نے یہ دریافت نہیں کیا کہ عافیہ کی گولی باری سے کون زخمی ہوا؟ عافیہ کو کواچی سے اغواء کس نے اور کیوں کیا؟ امریکہ نے پانچ سالوں تک انہیں اپنی غیر قانونی حراست میں کیوںرکھا؟ بلکہ ان سوالات کو پس پشت ڈالتے ہوئےڈاکٹرعافیہ کو ۸۶ سال کی سزا سنا دی ۔اس پر عافیہ نے کمال صبر وتحمل اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا اس عدالت کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے اورآسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے خود کلامی کے عالم میں کہا اے اللہ میں آپ کی رضا پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کر لیامگر؎
کتاب سادہ رہے گی کب تک کبھی تو آغاز باب ہو گا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی کبھی تو ان کا حساب ہو گا
سحر کی خوشیاں منانے والو سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا محال ہوگا

ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی اس اسلام پسندی نے امریکہ کے چہرے سےحقوق انسانی کی نقاب نوچ کر پھینک دی اوریہی اسلام نوازی حقوق نسواں کے سیکولر حواریوں کے راہ کی رکاوٹ بن گئی۔ عافیہ صدیقی کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کرنے والا معتدل اسلام کا حامل پرویز مشرف تھا اور ان پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں سزا دینی والی حکومت دنیا کی سب سے عظیم جمہوریت امریکہ تھی اس لئے ان دونوں کے خلاف آواز اٹھا کر اسلام کی بلاواسطہ حمایت کرنے کی غلطی یہ لوگ کیسے کرسکتے تھے؟ ان کو ڈاکٹر عافیہ اس لئے اچھی نہیں لگتیں کیونکہ ان کا آئیڈیل حضرت محمدﷺ ہیں مگر ملالہ اس لئے پسند آتی ہیں کیونکہ اس کا آئیڈیل اوبامہ ہے باوجوداس کے اسی کے اشارے پرچلنے والے ڈرون سے معصوم لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔ملالہ حجاب اور داڑھی کی مخالفت کرتی ہیں انہیں برقعہ دیکھ کر پتھر کا زمانہ یاد آتا ہےاس لئے وہ امن کی فاختہ بنی ہوئی ہیں ۔ مملکت خداداکی دونوں بیٹیاں فی الحال امریکہ میں ہیں۔ ایک اپنی اسلام پسندی کے باعث قید میں ہے اور دوسری اقوام متحدہ کے فورم تاکہ اسلامی شعائر کی خلاف اسے استعمال کیا جاسکے۔ اسلام کے خلاف زہر افشانی کیلئے مغرب اور اہل مغرب کے پاس سب سے بڑا مسلم ہتھیار مسلم خواتین کی حالتِ زار ہے بقول شاعر؎
غلامی سے نکل کر قید آزادی میں عورت ہے
نئی تہذیب کے ہاتھوں میں تیغِ بے ملامت ہے

ملالہ یوسف زئی کے ان خود پسند ہمدردوں کو اسماء خطیب بھی نظر نہیں آتیں جن کو مصر کی عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی۔ ایسا اس لئے ہے کہ ان روشن خیال دانشوروں کو ملالہ کی آڑ میں اسلام کو بدنام کرنے کا جو نادر موقع حاصل ہوتا ہے وہ عافیہ یا اسماء کے ساتھ یکجہتی میں نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف اسماء اور عافیہ کےمعاملے میں سیکولر طبقہ ظالم بن کر سامنے آتا ہے اور اسلام پسند مظلوم نظر آتے ہیں ۔ اس حقیقت کی عکاسی چونکہ گوں ناگوں مقاصد کے خلاف پڑتی ہے اس لئے اس بابت خاموشی اختیا ر کرلی جاتی ہے ۔ اس کی ایک اوروجہ مغرب کی فکری غلامی ہے ۔ ہمارے مغرب نواز صحافی یوروپ اور امریکہ سے آنے والی ہوا کے رخ پر بہنے کے عادی ہوگئے ہیں اس لئے جن افراد ومسائل کو مغرب اپنے مفاد کے پیش نظر اہمیت دیتا ہے وہ ان حضرات کیلئے بھی اہم ہوجاتے ہیں اور جن سے وہ صرف نظر کرتا ہے وہ یہاں بھی نظر انداز کردئیے جاتے ہیں ۔ اہل مغرب سے مرعوبیت آزادیٔ نسواں کے نام پر چلنے والی تحریک کے منافقانہ دعووں کا پول کھولتی ہے۔ ورنہ بقول فضا اعظمی صورتحال تو یہ ہے کہ ؎
اب اس دورِ ترقی میں زبوں ہے حال عورت کا
نہ وہ رسمِ کہن بدلی ، نہ وہ طرزِ سخن بدلا
نئی تہذیب لائی ہے نئے انداز سطوت کے
وہی دکھ ہیں وہی ہے دورِ استحصال جو کل تھا
حقوقِ بنتِ حواؑ کا نیا عنوان نکلا ہے
حکومت کی ہوس ہے اور آزادی کا دھوکا ہے
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2062 Articles with 1253293 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.