سوشل میڈیا پر سائبر دہشتگردی
(عابد محمود عزام, Karachi)
آج انٹرنیٹ سے تعلق رکھنے والا تقریباً ہر شخص سوشل میڈیا سے
جڑی دنیا کا باشندہ بن چکا ہے اور سوشل سائٹس نوجوانوں کی دلچسپی کا محور و
مرکز ہیں، جن میں فیس بک سرفہرست ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت پوری دنیا
گلوبل گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے، اب ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ کسی بھی
معاملے میں اپنے خیالات کا تبادلہ اور پیغام کی ترسیل باآسانی کرتے ہیں۔
فیس بک متعدد خوبیوں کی حامل سائٹ ہے، جو سوشل نیٹ ورک کی دنیا پر راج کرنے
کی اہلیت رکھتی ہے، لیکن یہاں ہر یوزر کو ملنے والی مکمل آزادی اور اس کا
منفی استعمال بہت سے مفاسد کا سبب بنا رہا ہے۔ 1996ء میں امریکی مضمون نگار،
جان پیری مارلو نے انٹرنیٹ کی آزادی کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ
وہ انٹرنیٹ پر ایک ایسی آزاد دنیا قائم کرنے جارہے ہیں، جہاں ہر شخص کو
مکمل اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو گی۔ انٹرنیٹ کے اس ابتدائی دور میں کسی
کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بعد ازاں لوگ دوسروں کی عزت و ناموس کی
دھجیاں اڑانے اور اس کے منفی استعمال کو مکمل آزادی سمجھنے لگیں گے۔ فیس بک
کے استعمال سے اسٹوڈنٹس کے تعلیمی معیار میں کمی، حقیقی تعلقات میں کمزوری
اور محبت کے رشتوں میں نفرتوں اور دوریوں کا جنم لینا تو رہا ایک طرف، اس
کے ساتھ یہ ممکنہ طور پر سائبر غنڈہ گردی اور سماجی رقابت کا ایک ذریعہ بن
چکی ہے اور آزادی کا مطلب شاید من گھڑت معلومات پھیلانے، شرفاء کی پگڑیاں
اچھالنے، مخالفین کی عزتوں کو تار تار کرنے اور اپنے نظریات و خیالات کے
فروغ کے نام پر انتشار و تصادم برپا کرنے کو سمجھ لیا گیا ہے اور شرپسند
عناصر سیاست ،معاشرت اور دین و مذہب سمیت کسی بھی معاملے میں انتہاپسندانہ
اور نیچ سوچ کا اظہار کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ مختلف جماعتوں، فرقوں اور
گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی اپنی لابیاں بنائی ہوئی ہیں، جن کا کام صرف
مخالفین پر طعن و تشنیع کے نشتر چلانا ہوتا ہے۔ یہ لوگ مخالفین کے لیے
ناقابل برداشت زبان اورکلمات استعمال کرکے ان کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں،
جبکہ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ورکرز سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک
کو عام طور پر پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ متعدد معروف شخصیات،
حکومتی عہدیداران، سیاستدان اور ججز کے نام سے آئی ڈیز سماجی رابطے کی
سائٹس پر موجود ہیں، لیکن وہ شخصیات بار بار اس کی تردید کرچکی ہیں، مگر ان
آئی ڈیز سے ایسی پوسٹس کی جاتی ہیں، جو ان کی بدنامی کا سبب بنیں۔ سوشل
میڈیا پر ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں، جو معاشرے کے مختلف طبقات اور
مکاتب فکر میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار
اور خلفشار کا سبب بنتی ہیں۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاسے اگرچہ لوگوں کوبہت سی شکایات ہوں گی، لیکن وہاں
تدارک کا امکان موجود ہے، کیونکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر لکھنے اور
کلام کر نے والوں کو لوگوں کی اکثریت جانتی ہے، لیکن سوشل میڈیا پر حتمی
طور پر شاید ہی کوئی کسی کو جانتا ہو اور اگر روک تھام کا کوئی موثر قانون
بھی موجود نہ ہو تو اس صورتحال کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ کوئی
بھی شخص مذہب و ملک کے خلاف کچھ بھی لکھ سکتا ہے اور بلاروک ٹوک کسی بھی
محترم شخصیت اور نظریات پر کیچڑ اچھا ل سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پہلے معاملہ
صرف مخالف جماعت اور مخالف فرقے کے لوگوں کی توہین تک محدود تھا، لیکن اب
بات کائنات کی سب سے محترم و معزز ہستی سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی
اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس بارے توہین تک پہنچ چکی ہے۔ کچھ روز قبل دشمنان
اسلام نے فیس بک پر معروف اسلامسٹ بلاگر اسکندر حیات بابا سمیت متعدد
بلاگرز کے جعلی اکاؤنٹ اور پیجز بنا کر نعوذباﷲ نبوت کا جھوٹا دعویٰ، شعائر
اسلام اور اہانت رسول کا ارتکاب کیا، جس سے ایک طرف ان بلاگرز کی جان کو
خطرات لاحق ہوگئے ہیں، کیونکہ اس سے پہلے بھی سوشل میڈیا کی وجہ سے کئی
لوگوں کی زندگیاں خطرات سے دوچار ہوئی ہیں، جبکہ متعدد ایسے واقعات ریکارڈ
پر موجود ہیں کہ سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے لوگ قتل ہوئے یا
پھر انہیں دھمکیوں کے باعث روپوش ہونا پڑا، جبکہ دوسری جانب نبی آخر الزمان
صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخانہ مواد دیکھ کر فیس بک پر موجود
ہر مسلمان انتہائی کرب و تکلیف کا شکار ہے، کیونکہ مسلمان چاہے جتنا بھی
گناہ گار ہو، خدا کے بعد اس کے پاس سب سے مضبوط سہارا شفیع المذنبین کی ذات
اطہر ہی ہوتا ہے اور حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہر مسلمان کے نزدیک اپنی
جان، مال، دولت اور تمام رشتہ داروں سے بھی عزیز ہیں۔
ایسے حالات میں سوشل میڈیا کے منفی استعمال کی روک تھام ضروری ہوگئی ہے،
ورنہ کوئی بھی شخص کسی کے بھی نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا کر اس سے مذہب، ملک
اور کسی کے خلاف جو چاہے پوسٹ کرسکتا ہے، جو یقینا تشویش ناک بات ہے۔ سائبر
وار فیئر، سائبرکرائم اور سائبر ٹیررازم جیسی اصطلاحات دنیا میں رائج ہیں،
لیکن سوشل میڈیا کے منفی استعمال کو روکنے کے لیے ہمارے یہاں کوئی جامع بات
دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان میں قومی اسمبلی سے اگرچہ سائبر کرائم کی روک
تھام کے لیے بل منظور کیا جاچکا ہے، جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن
اتھارٹی (پی ٹی اے) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکورٹی اور دفاع کے
خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی اور اس کے تحت تین ماہ سے 14سال قید اور
پچاس ہزار سے لیکر پانچ کروڑ تک جرمانے کی سزا کا تعین بھی کیا گیا ہے۔
مذہبی منافرت اورملکی مفاد کے خلاف کوئی مواد شایع کرنے اورخوف و ہراس
پھیلانے والے کوپانچ کروڑتک جرمانہ اور 14سال کیلئے سلاخوں کے پیچھے بھیجا
جا سکتا ہے۔ اس قانون سازی کے اجرا سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں
سائبر کرائم میں خاطر خواہ کمی آتی، لیکن یہان معاملہ اس کے برعکس دکھائی
دیتا ہے، کیونکہ ہمارے یہاں قوانین بن تو جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد
نہیں کیا جاتا۔
موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات مل جل کر سوشل میڈیا کے
منفی استعمال کی روک تھام کے لیے کوشش کریں۔ حکومت موثر قانون سازی کر کے
اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے، جبکہ معاشرے کا ہر ذمہ دار فرد سوشل میڈیا
کے منفی استعمال کی روک تھام کے لیے اپنے طور پر کوشش کرے۔ سوشل میڈیا
چونکہ سماجی نوعیت کا معاملہ ہے، اس لیے منفی استعمال کی روک تھام کے لیے
بھی قوانین پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ جب تک طلبہ سے لے کر اساتذہ تک، کلاس
روم سے لے دفاتر تک، پارلیمنٹ سے لے کر عدالتوں تک اور ہر سطح پر سوشل
میڈیا کے مسائل کو اٹھایا نہیں جاتا اور اس کی روک تھام نہیں ہوتی، اس وقت
تک سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے نقصانات سے بچنا مشکل ہے۔ اس معاملے میں
رجحان ساز افراد اور اداروں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ سیاسی و مذہبی
قیادت، علمی و فکری رہنما، میڈیا، منبر و محراب اور اساتذہ، سب کو اپنے
اپنے دائرے میں لوگوں کی تربیت کر نی چاہیے، جبکہ مذہبی معاملات میں توہین
آمیز کیسز میں حکومت کو از خود ایکشن لے کر ذمہ داران کو کیفرکردار تک
پہنچانا چاہیے، بصورت دیگر ایسے واقعات معاشرے میں انتشار کا سبب بن سکتے
ہیں۔ |
|