بے چینی تو رہے گی

ہر دورمیں اچھائی اور برائی ساتھ ساتھ رہی ہیں،جب برائیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے تو وہ دور تاریخی لحاظ سے بد ترین ہو تا ہے اور اگر اچھائیوں کا پلڑا وزنی ہو تو دور سنہری دور کہلاتا ہے۔ ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں ،اس میں برائیوں کا پلڑاخاصا بھاری ہے،جہاں ہر جانب جھوٹ، فریب اور منافقت کا راج ہے۔حرام و حلال کی تمیز نہیں رہی اور ہر طرح کی بے انصافی کا سکّہ رائج الوقت بن چکی ہے۔یوں تو پاکستان بننے کے بعد سب سے بڑا اصول یہ ٹھہرا کہ یہ نظریاتی مملکت ہے ،اس میں نظریۂ پاکستان کو عملی جامہ پہنانا ہے اور نظریۂ پاکستان کی اصلیت یہ ہے کہ مسلمان قوم اپنی آزاد مملکت اس لئے چاہتی تھی کہ وہ اپنے مذہب کی اقدار اور قوانین کے ماتحت زندگی بسر کر سکے،باالفاظ دیگر پاکستان کی تخلیق کا مقصد نظام اسلام کا نفاذ تھا ،مگر ہم اپنے نظریے سے ہٹ کر مختلف پارٹیوں ،گروہوں اور نظریات میں بٹ چکے ہیں، حالانکہ ہمیں ایک ہونے کے لئے صرف مسلمان ہونا ہی کافی ہے، ہم مسلمان لَا اِلہٰ اِلّاﷲ مُحمَّد رسُول اﷲ پڑھ لینے کے بعد روزِ اوّل سے زندگی کے آخری دن تک کے لئے ایک ایسا ڈسپلن قبول کر لیتے ہیں ، جس میں اپنی تمام خواہشات ختم کر کے صرف خدا اور اس کے آخری رسولﷺ کے احکامات پر چلنے کا عہد کر لیتے ہیں۔قرآن بار بار توحید کا ذکر کرتا ہے، بار بار امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی یاد دلاتا ہے، تاکہ توحید اور نیکی کی نفسیات ہم میں راسخ ہو جائیں،ہمیں زکوٰۃ کی تاکید کی جاتی ہے۔کیا ہم اﷲ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں؟حالانکہ اﷲ عزوجل کے تمام تر احکامات انسان کی بھلائی کے لئے ہیں ۔اب زکوٰۃ کے معاملے کو ہی لے لیں ،یہ اسلام کا ایک اہم رکن ہے، لیکن ہم اس پر کتنا عمل کرتے ہیں؟اگر تمام لوگ اس حکم کی تعمیل کریں تو نہ کوئی مفلس رہے اور نہ ہی غریب۔اس حکم پر عمل کرنے والے کو اﷲ عزّوجل اور اُس کے رسولﷺ کی خوشنودی بھی نصیب ہو اور اس کے مال کی حفاظت کے ساتھ برکت بھی ملے،لیکن ہمیں لالچ نے اس قدر اندھا کر رکھا ہے کہ ہم جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہیں، اسی وجہ سے معاشرہ معاشی طور پر برائی کی آخری نہج تک پہنچ چکا ہے۔

اسلام ایک مکمل دین ہے، اس کے تمام احکام پر عمل کا فائدہ ہے اور عمل بھی آسان ترین ہوتا ہے۔ملک کا سالانہ بجٹ بنایا جاتا ہے، جسے کئی ماہر معاشیات ، اکاؤنٹس کے ماہر دن رات کی محنت سے ترتیب دیتے ہیں،لیکن اُس سے عوام کو کبھی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس بجٹ سے صرف بنانے والوں اور ان جیسے اشرفیہ کو فائدہ ہوتا ہے،غریب عوام پر نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر، غیر ممالک سے قرضے لے کر انہیں پیسا جا رہا ہوتا ہے۔اسلام میں معاشی استحکام کے لئے زکوٰۃ کا نظام رکھا گیا، اس کا فائدہ عام عوام تک پہنچایا گیا ہے،اس کے حساب کے لئے ماہر معاشیات یا اکاؤنٹنٹ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔اس کی ادائیگی کے لئے سادہ سا فارمولا مقرر کر دیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس سونا ،چاندی اور مال تجارت ساڑھے بارہ تولہ چاندی کے برابر ہے تو شریعت میں وہ مال دار ہے، (آج کل جس کی مالیت تقریباً 34,33ہزار بنتی ہے)اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔

اسلام میں ہر معاملے میں آسانیاں رکھی گئی ہیں،اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی کا حساب رکھنا بھی نہایت آسان ہے،آپ ایک تاریخ منتخب کر لیں،مثلاً مَیں ’’یکم رمضان کو اپنے مال یعنی سونے،چاندی ،نقدی اور مال تجارت کا حساب کروں گا ‘‘ اس دن آپ کے پاس جتنا مال ہو گا، اس کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ بنے گی،اگر آپ کے استعمال میں گھر ،گاڑیاں کتنی ہی تعداد میں ہوں،اس پر زکوٰۃ نہیں ہو گی، ہاں اگر تجارت کی غرض سے کچھ خریدا گیا ہو کہ اسے فروخت کر کے منافع کمانا ہے، تو وہ مال تجارت کے زمرے میں آئے گا اور اس پر زکوٰۃ فرض ہو گی،اس کے ساتھ جو مال کسی سے لینا ہے ،اسے بھی حساب میں شامل کرنا ہے اور جو قرض دینا ہے، اسے حساب میں سے نکال دینا ہے۔یہ غلط تاثر ہے کہ سارا سال مال کو استعمال کیا جائے تو اُس پر زکوٰۃ ہوتی ہے۔اگر آپ کے پاس مقررہ تاریخ سے ایک دن پہلے کہیں سے بھی کوئی رقم ملی ہے،اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔آپ کے ذمہ جتنی زکوٰۃ بنے ،اُسے آپ ایک بار ہی میں کسی مستحق کو دے سکتے ہیں اور سارے سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے بھی ادا کر سکتے ہیں، لیکن پہلے نیت کرنا لازمی ہے۔کوشش کی جانی چاہئے کہ یہ زکوٰۃ کی رقوم کسی حقدار تک پہنچے۔اگرہر مسلمان اسلام کے صرف اسی ایک اہم رکن کی آسان طریقے سے ادائیگی کرے تو کیا معاشی بدحالی کی صورت حال اسی قدر سنگین ہو……؟

ہمیں جھوٹ اور منافقت نے جکڑرکھا ہے،اسی لئے زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے بھی مشکلات سامنے آتی ہیں، حق دار کو حق نہیں ملتا،نام نہاد این جی اوز خاص طور پر ماہِ صیام میں متحرک ہوجا تی ہیں،جو این جی اوز خدمت خلق کا کام کر رہی ہیں،انہیں تو دوسروں کی طرح سے مدد کرنی چاہئے، لیکن دوسروں کا حق مار کر جھوٹ اور فراڈ کی بنیاد پر لوٹنے والی تنظیموں کے خلاف حکومتی سطح پر کڑا نوٹس لینا پڑے گا،تاکہ کسی حقدار کا حق نہ مارا جائے۔

حکومت یکم رمضان المبارک کو بینکوں میں موجود رقوم سے زکوٰۃ کی کٹوتی کرتی ہے،صارف کی زکوٰۃ تو ادا ہو جاتی ہے،مگر کیا حکومت زکوٰۃ سے اکٹھی کی گئی رقم کو صحیح حق دار تک پہچانے میں کامیاب ہے؟اس کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے۔یہ ایک المیہ ہے کہ حکومت نے کبھی بھی زکوٰۃ کا کوئی حساب عوام کے سامنے نہیں رکھا ۔ترقی یافتہ ممالک میں رول ماڈل وہاں کے حکمران ہوتے ہیں، کیونکہ وہ معاشرے برائیوں کی نسبت اچھائیوں کو زیادہ اپنائے ہوئے ہیں، ان کے حکمران بھی انہی میں سے ہیں،جبکہ ہم من حیث القوم ہم انسانیت ،اخلاقیات ،سچائی ،حقیقت پسندی سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔ایسی صورت حال میں انقلاب ہی واحد حل ہوتا ہے ،مگر بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی ایسا لیڈر نہیں جو خود یا اس کے ساتھی صادق اور امین ہوں ۔اس کے بر عکس جو دوسری طاقتوں پر انحصار کرتے ہوں ،انہیں اپنی خواہشات کو پورا کرنا مقصود ہو،وہ صرف طاقت میں آ کر ہی انقلابی اصلاحات کرنے کا کہیں،وہ کیا انقلاب لائیں گے……؟

یہاں فرد کی اصلاح کی ضرورت ہے، انقلاب خود آ جائے گا، غریب کی معاشی حالت کو درست کرنے کی طرف اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے، بڑھے لکھے لوگ بے روزگار ہیں، کئی کئی سال کی محنت کے بعد ڈگریاں لے کر ریڑھیاں لگانے یا رکشہ چلانے پر مجبور یہ نوجوان ایسی بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں جس کا نام ہر فرد کی زبان پر ہو، لیکن اس کی تشخیص ، علامت اور شناخت پر اتفاق نہ ہو رہا ہو۔جب تک ایسے انسان نما حیوان یہاں موجود ہوں گے جو دوسرے انسانوں کو محکوم بنانے اور حکم چلانے سے باز نہیں آئیں گے،دوسروں کا حق ماریں گے تو اس کے خلاف یقیناً مزاحمت ضرور ہو گی ،اسے بدامنی ،بغاوت ،بے چینی، عداوت یا دہشت گردی کا کوئی بھی نام دے لیں ،یہ مزاحمت جاری رہے گی ۔
 
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109725 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.