آپ اس وقت رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی
برکتوں سے مالا مال ہو رہے ہوں گے۔ سچ مچ یہ بڑی برکتوں اور رحمتوں کا
مہینہ ہے۔ جو اب ہم سے الودع ہونے کو ہے اس ماہ مبارک کو ماہ صیام بھی کہتے
ہیں۔صیام جمع ہے صوم کی اور صوم عربی زبان کا لفظ ہے جسے اردو میں روزہ
ترجمہ کیا گیا ہے ۔ روزوں کے اس مقدس مہینے میں قرآن مجید فرقان حمید ہمارے
پیارے رسول حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا۔اور اسی بابرکت مہینے میں وہ رات بھی
اتری جسے شب قدر کہتے ہیں۔ اور اس متبرک مہینے کے اختتام پر عید آتی ہے۔
عید کے پر مسرت موقع پر آپ اچھے اچھے کپڑے پہنتے ہیں۔ عید گاہ نماز عید
پڑھنے جاتے ہیں اور سویاں بھی جی بھر کے کھاتے ہیں۔بعض گھروں میں شیر خورمہ
پکایا جاتاہے۔سویوں اور شیر خورمہ کے ذکر سے یقینا منہ میں پانی آگیا ہو
گااور آپ سوچ رہے ہوں گے کاش کل ہی عید آ جائے ۔ اسلام کا کوئی حکم بھی
حکمت سے خالی نہیں اور پھر اسی مبارک مہینے میں زکٰو ۃ نکالی جاتی ہے یعنی
امیر لوگ غریبوں کو دینے کے لئے ضرورت مندوں کی مددکرنے کے لیے اپنی جمع
پونجی (آمدنی)میں سے اسلامی قوانین کے مطابق کچھ رقم نکالتے ہیں اور غریبوں
میں اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ بہت سے غریب گھرانوں اور حاجت مندوں میں
کھانے پینے کی چیزیں اور پہننے کے لئے کپڑے خرید لئے جاتے ہیں اور یوں سب
عید کی خوشیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی ماہ صدقہ فطر دیا جاتا ہے جو ہر
امیر،غریب،غلام پر واجب ہے ۔عید کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
عید ایک چھوٹا ساتین حرفی لفظ ہے جو عربی لفظ عود سے نکلا ہے، اس کے معنی
لوٹ آنے اور بار بار آنے کے ہیں۔ عید کیونکہ ہر سال لوٹ آتی ہے اس لئے اس
کا نام عید پڑگیا عید کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ۔تاریخ کا
کوئی دور ایسا نہیں جو عید کے تصور سے آشنا نہ ہو،قدیم تاریخی کتب کے
مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمدن دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی عید کا بھی آغاز
ہو گیا تھا۔
چنانچہ ایک روایت ہے کہ جس روز حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی، اس روز دنیا
میں پہلی بار عید منائی گئی تھی۔ دوسری بار عید اس وقت منائی گئی تھی جس
روز ہابیل اور قابیل کی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم نے اس
روز عید منائی تھی، جس روز آپ یعنی حضرت ابراہیم ؑ پر نمرود کی آگ گلزار
ہوئی تھی۔ حضرت یونس ؑکی امت اس روز عید مناتی ہے، جس روز حضرت یونسؑ کو
مچھلی کی قید سے رہائی ملی تھی۔ حضرت موسیٰؑ کی قوم اس روز عید مناتی ہے،
جس روز حضرت موسیٰؑ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی امت آج تک اس یوم سعیدکوعید مناتی ہے۔ جس روز حضرت عیسیٰؑ
کی ولادت ہوئی۔
دنیا کی تقریباً سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے اور مذہب کے لوگ
اپنی روایت کے مطابق تہوار مناتے ہیں، اسلامی تہوار دوسرے مذہب کے لوگوں کے
تہواروں سے بالکل مختلف اور جداگانہ نوعیت کے ہیں،اور ہمارے نبی کریمﷺ جب
مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تو وہاں کے لوگ چھوٹے چھوٹے تہواروں کے
علاوہ نو روز کا جشن اور کچھ بڑے بڑے بتوں کی پوجا کا تہوار بھی مناتے تھے
حضور ﷺ نے ان باتوں کو سخت نا پسند فرمایا اور اﷲ تبارک وتعالیٰ سے اپنی
امت کے لئے دعا فرمائی اور دوعیدیں مسلمانوں کے لیے مقرر کر وا لیں، جب
پہلی بار مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو تاریخ اسلام کے اس پہلے رمضان
المبارک میں حضور ﷺ نے مدینہ کے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہر قوم کے
لئے عید ہوتی ہے تم بھی عیدیں مناتے تھے، اﷲ تعالیٰ نے تمہاری عیدوں کو ان
دو عیدوں سے بدل دیا ہے۔ اب تم ہر سال شان سے عیدالفطر اور عیدالا لضحیٰ
منایا کرو۔
چنانچہ مسلمانوں نے اپنے پیارے رسول ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں یکم شوال
دو ہجری کو پہلی بار عید منائی، عید الفطر حقیقت میں مسلمانوں کی خوشی اور
مسرت کا وہ محبوب دن ہے، جو سال بھر میں صرف ایک مرتبہ انہیں نصیب ہوتا
ہے۔ایک ماہ مسلسل اﷲ کی عبادت کا فریضہ ادا کر کے مسلمان اپنے دل میں مسرت
اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے قلب میں ایمان کی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ اور
ان کے دل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ روزے رکھ کر انہوں نے اﷲ تبارک
وتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر لی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ہر سال مسلمان چھوٹا
بڑا امیر غریب مرد عورت غرض ہر شخص رمضان المبارک کے اختتام پر بڑے تزک
واحتشام سے عید الفطر مناتے ہیں،جب رمضان کا با برکت مہینہ ختم ہوتا ہے اور
چاند کی 29شام ہوتی ہے تو غروب آفتاب کا وقت قابل دید ہوتا ہے۔مکان کی
چھتوں پر بچے اور بڑے بھی چڑھ جاتے ہیں مغرب کی طرف نظر جمائے دیکھتے ہیں
کہ ہلال عید نظر آجائے۔
اس روز ہلال اس قدر باریک ہوتا ہے کہ اس کا نظر آنا آسمان صاف ہونے پر ہوتا
ہے۔ اور کسی کی نگاہ ہلال کی چمک سے منور ہو جائے تو کیا کہتے ایک گونج
پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ رہا چاند،درخت کی چھوٹی ٹہنی کے ساتھ پتوں کی اوٹ میں
ادھر چاند ہوا۔ادھر نوبت نقارے بجنے لگے۔ ڈھول پٹنے لگے۔اس قدر چہل پہل اور
گہما گہمی ہوئی۔ جیسے شام کی خاموشی جاگ اٹھی ہو بچوں کے لیے اجلے اور
خوبصورت کپڑے دیکھے گئے لڑکیوں اور عورتوں نے مہندی لگائی رات اسی ذوق و
شوق میں گزر گئی۔ صبح ہوئی تو گھروں میں سویاں پک گئیں اور نماز کے لیے عید
گاہ پہنچے۔ مقررہ وقت پر نماز کی ادائیگی ہوئی۔ لوگ آپس میں بغل گیر ہونے
لگے۔ گھر پہنچے بچے عیدی کا تقاضا کرنے لگے اس طرح یہ سلسلہ سارا دن جاری
وساری رہتا ہے۔
عیدالفطر کے پر مسرت موقع پر جو آپس میں کسی وجہ سے ناراض ہیں ان کو ایک
دوسرے سے صلح کر لینی چاہیے اور بروز عید ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا چاہیے۔
خوشیاں لائی اس عید کے دن دل میں کوئی رنجش نہ رکھیں کیونکہ عید آتی ہے اور
خوشیاں دے کر چلی جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
اور جب انسان اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت سے سرفراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ
خوب خوشیاں منائے عید کے دن مسلمانوں کی مسر ت اور خوشی کی وجہ صرف یہ ہے
کہ انہوں نے اپنے خدا کے احکامات کی ایک ماہ تک سختی سے تعمیل کی اور اس
تعمیل کے بعد خوش و مسرور رہتے ہیں، حضرت ابوہریرہؓ ایک مشہور صحابی تھے آپ
سے روایت کرتے ہیں، کہ عیدالفطر کے دن حضور میدان میں نماز ادا فرماتے نماز
کی ادائیگی کے بعد لوگوں سے ملاقات کرتے گلے ملتے پھر واپس گھر آجاتے۔
آپ بھی خوب خوشیاں منائیں نئے کپڑے نئے جوتے خریدیں اور بڑوں سے عیدی بھی
لیں اور چھوٹوں کو عیدی بھی دیں لیکن،لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری ذمہ داری یہ
بھی ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بھی نہ بھولیں،
حسب توفیق انہیں بھی اپنی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں۔عید اصل میں ہے
ہی دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں
شریک ہونے کا نام ہے۔
اگر ہمارے پڑوس میں خاندان میں کوئی عید کی خوشیاں میں شامل نہیں ہو سکتا
غربت کی وجہ سے تو اس کی مدد کرنے سے ہی عید کی دلی خوشیاں ملیں گئیں ،
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل
کر دی ہے ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل
کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تا کہ وہ غریب مسلمان بھی
مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب
مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی
حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔ اور ایسی مدد کرنے پر خدا اور رسول ﷺ بھی
خوش ہوتے ہیں اور اگر ہو سکے تو ابھی سے ان کی مدد کر دیں تاکہ وہ اپنے
بچوں کے لیے کپڑے خرید سکے ،یہ ہمارا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اﷲ کی
طرف سے ہم پر فرض ہے ۔ اﷲ نے ہم کو دیا ہے تو ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے۔
|