زکوٰۃ و عشر اسلام کے اہم رکن ہیں ، کسی
بالغ مسلمان پر ایک سال سے اس کی ضروریات سے زیادہ مال ایک سال سے زیادہ
رہے تو اس پرزکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے و ہ تعداد جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے اسے
نصاب کہتے ہیں
سونے چاندی کا نصاب: سونے کا کا نصاب ساڑھے سات تولہ کے برابر بنتا ہے
اورچاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہے ۔
کرنسی کا نصاب: زکوٰۃ کے معاملہ میں ہم پیپر کرنسی نوٹ کو چاندی کے ساتھ
رکھیں گے کیونکہ زکوٰۃ کا مقصد غرباء و مساکین کا تعاون کرنا ہے ، لہٰذا
ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر رقم پرزکوٰۃ ہو گی۔ بالفرض اگر یہ
قیمت پچیس ہزار ہے تو ضروریات سے زائد پچیس ہزار یا اس سے زائد رقم اگر سال
بھر ہمارے پاس رہے تو اس پرزکوٰۃ فرض ہو گی۔زکوٰۃ اپنی ملکیت پر فرض ہوتی
ہے جب زکوٰۃ کا حساب کریں گے تو اپنے لین دین ملکیت کی بنیاد پر دیکھیں گے
جو پیسے ہم نے کسی سے لینے ہیں اگر ملنے کا یقین و امید ہے تو انہیں شامل
کریں گے۔ یعنی اگر ایک لاکھ ہمارے پاس ہے اور ایک لاکھ کسی نے بطور قرض ہم
سے لیا ہوا ہے تو ہماری ملکیت دو لاکھ ہے۔ ہم دو لاکھ کے حساب سے زکوٰۃ دیں
گے اور اگر اس کے ملنے کے امکانات نہیں ہیں تو پھر انہیں اپنے حساب سے وقتی
طور پر خارج کر دیں گے۔ جب مل جائیں تو اس وقت زکوٰۃ دے دیں گے نہ ملے تو
اگر وہ واقعی مستحق ہو غریب ہو گیا ہو تو اسے ہیزکوٰۃ میں چھوڑ سکتے ہیں۔
اگر وہ دینے سے ہی انکارکرتا ہے تو سمجھ لیں ہماری ملکیت ختم ہے۔ جو مالک
ہے اس پرزکوٰۃ فرض ہے۔ مثلاً زیورات عورت کے پاس ہیں اور وہی اس کی مالکہ
ہے توزکوٰۃ بھی اسی پر ہو گی۔ وہ اپنے پاس سے ادا کرے یا زیور سے دے۔ خاوند
یا کوئی اور اگر اپنی طرف سے اس کیزکوٰۃ ادا کریں تو یہ ان کا احسان ہو گا
کہ تمہاریزکوٰۃ ہم ادا کر دیتے ہیں۔ ورنہ عورت کی زکوٰۃ خاوند کے سر نہیں
ہوتی۔ اسی طرح والد، بیٹی، بہن جو بھی مالکہ ہے اس پرزکوٰۃ ہے۔
زمینی پیداوارکا نصاب:یہ پانچ وسق ہے ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک
صاع بحساب گندم دو کلو کاہوتا ہے ، اس لحاظ سے یہ پندرہ من بنتا ہے
لہذاپندرہ من آمدنی ہو تو زمین کی پیداوار پرزکوٰۃ فرض ہو گی زمینی پیداوار
کی زکوٰۃ کو عُشر یا نصف العشر کہتے ہیں اگر زمین بارانی ہے جس پر اخراجات
نہیں آتے جیسے ریگستان میں چنے وغیرہ جن کا انحصار صرف آسمانی بارش پر ہے
تو اس کی زکوٰۃ عُشر کی شکل میں دسواں حصہ ہو گی اگر زمین ایسی ہے جس پر
اخراجات آتے ہیں تو ان اخراجات کی وجہ سے آدھی زکوٰۃ اﷲ تعالیٰ نے معاف
فرما دی اور باقی آدھی نصف العشر بیسواں حصہ ادا کرنا ہو گی زمین پر
اخراجات چاہے کسی بھی شکل میں ہوں کھاد، ادویات،حصہ، ٹھیکہ سب ایک ہی قسم
شمار ہوں گے چونکہ اخراجات کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے ویسے ہی آدھی زکوٰۃ معاف
فرما دی ہے لہٰذا ہم مزید کم نہیں کر سکتے بلکہ ساری آمدنی میں سے زکوٰۃ
ادا کریں گے بعد میں اپنے اخراجات نکالیں گے۔
قرض کی زکوٰۃ:یہ دو طرح سے ہو گی ایک شخصی قرضہ پر ہوتی ہے جو کسی شخص سے
ہم نے لیا اور اسے وقت مقررہ پر ادا کرنا لازم ہے ایسی شکل میں پہلے قرض
ادا کیا جائے گا اور قرضے کی رقم کو اپنی ملکیت نہیں سمجھا جائے گا اور
دوسری کاروباری قرضہ پر ہوتی ہے، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کاروباری لین
دین چلتا رہتا ہے پانچ لاکھ روپیہ لگاکر اپنا کاروباری سرکل چلایا ہے اسی
سے کاروبار بھی چلاتے ہیں، خرچ، اخراجات نکالتے ہیں، ضروریات پوری کرتے
ہیں،شادی بیاہ، دکان، گاڑی سب معاملات کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ لین دین
بھی سیدھا کرتے رہتے ہیں ایسی صورت میں زکوٰۃ بھی ادا کی جائے گی
اورکاروباری سرکولیشن کو اپنی ملکیت سمجھا جائے گا۔
بھیڑ بکریوں کی زکوٰۃ:اسکانصاب چالیس تعداد مقرر کیا گیا ہے یعنی چالیس سے
لے کر ایک سو بیس تک ایک بکری،ایک سو بیس سے دو سو تک دو،پھر تین سو تک تین
اسی طرح ہر سو پر ایک بکری کا اضافہ ہو گااگردو آدمیوں کا مشترکہ مال ہو
توزکوٰۃ برابر تقسیم کر لی جائے گی زکوٰۃ سے بچنے کے لئے اکٹھے مال کو جدا
جدا نہیں کیا جا سکتا، جیسے ساٹھ بکریاں ہوں تو انہیں تیس تیس کر کے کہنا
کہ ہماری بکریاں نصاب سے کم ہیں لہٰذازکوٰۃ کوئی نہیں اسی طرح الگ الگ مال
کو اکٹھا نہیں کیا جا سکتا جیسے دو آدمیوں کی چالیس ،چالیس بکریاں ہوں تو
دو بکریاں زکوٰۃ ہوگی تو وہ دونوں اکٹھا کر کے کہیں کہ اسّی بکریاں ہیں اور
ان میں زکوٰۃ ایک بکری ہے۔
گائے بھینس کا نصاب :اسکا نصاب تیس ہے ، چھوٹے بڑے سب جانور شمار کئے جائیں
گے ،پورے تیس ہوں تو 39 تک ایک ایک بچھڑا،40 ہو جائیں تو ایک دودانتہ مونث
جانورزکوٰۃ ہو گی اور اس سے اورتیس چالیس کے گروپ بنائیں گے اور ہر تیس سے
ایک بچھڑا اور چالیس سے دو دانتہ مونث بھینس یا گائے ہو گی۔یعنی 60 ہوں تو
دو گروپ بنا لیں گے 70 ہوں تو ایک تیس کا اور ایک چالیس کا اور اس سے اوپر
بھی اسی طرح ہو گی۔
اونٹوں کی زکوٰۃ :اس کی دو صورتیں بکریوں اوراونٹوں کی شکل میں ہیں ، اس
کیلئے کم از کم 5اونٹ بطور نصاب متعین کیے گئے ہیں یعنی 4تک زکوٰۃ نہیں اور
اگر 5ہو جائیں تو 9 تک ایک بکری، 10سے 14 تک دو بکریاں، 15 سے 19 تک تین
بکریاں اور 20 سے 24تک چار بکریاں زکوٰۃ ہوتی ہے جب 25ہو جائیں تو پھر
بکریوں کی شکل میں نہیں بلکہ اونٹوں کی شکل میں زکوٰۃ ہو گی،25 تا 35 ہوں
توبنت مخاض ایک سال کی اونٹنی زکوٰۃ ہے ، 36 تا 45ہوں توایک بنت لبون (دو
سالہ اونٹنی )ہو گی، 46 تا 60کیلئے حِقّہ (تین سال کی اونٹنی) ہے، 61 تا
75ایک جذعہ (چار سالہ اونٹنی)ہے ،76 تا 90دو بنت لبون ہیں،91 تا 120
دوحِقّہ ہیں، 120 سے جب زیادہ ہو جائیں تو 40 کے گروپ بنائیں گے ہر40 میں
ایک بنت لبون اور ہر 50میں ایک حِقّہ کی زکوٰۃ ہو گی۔
باغات اور فصلوں کی زکوٰۃ :کھڑی فصلوں کو دیکھ کر اور درختوں کے اوپر لگے
پھلوں کو دیکھ کر اندازہ لگائیں گے کہ کتنا پھل ہو گا۔ اس اندازہ لگانے کو
خرص کہا جاتا ہے اسی اندازے کی بنیاد پرزکوٰۃ کا فیصلہ اور وصولی ہو گی، وہ
پھل جو تازہ خراب ہو جاتے ہیں ان کی زکوٰۃ خشک میوہ کی شکل میں وصول کی
جائے گی مثلاً انگور کی زکوٰۃ کشمش کی شکل میں لی جائے گی۔
تاجرپیشہ کی زکوٰۃ:زکوۃ ملکیت سرمایہ پر ہوتی ہے اور یہ کبھی نقدی کی شکل
میں ہوتا ہے اور کبھی کسی اور مال کی شکل میں ہوتا ہے، تو
دکاندار،تاجر،کارخانے، فیکٹریوں والے اپنے سارے مال، خام مال، تیار مال،
مشینری سب کی موجودہ قیمت کے حساب سے زکوٰۃ ا دا کریں گے۔ مشینری بھی
سرمایہ ہوتا ہے اس کی بھی زکوٰۃ ہوگی اور یہ سب سرسری اندازے سے حساب ہو گا
یعنی کپڑے والا اندازہ لگائے گا کہ میری دکان میں کتنا کپڑا ہو گا؟ دو لاکھ
کامثلاً، کریانے والا اندازہ لگائے گا، برتنوں والا اندازہ لگائے گا اور
باقی مال پر بھی اسی طرح زکوٰۃ متعین کی جا سکتی ہے۔ |