جویریہ ثنا۔ پاکستان رائٹرز ونگ
حجاب عربی اور پردہ فارسی زبان کا لفظ ہے لیکن دونوں الفاظ تقریباً ہم معنی
ہیں ۔یعنی اوٹ ،پردہ اور سترکا چھپانا ان الفاظ کے بے شمار مفہوم ہیں اپنے
آپ کو پوشیدہ رکھنا سترچھپانا، پردہ اور حجاب کہلاتا ہے یہودو نصاریٰ ،یونانی
، ایرانی اور ہندی معاشرے کے افراد اپنی اپنی تہذیبوں کے علم بردارتھے۔لیکن
بعدازاں جیسے جیسے اسلام کی تعلیمات کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اﷲ تعالیٰ نے
اپنے تمام تر احکامات اپنے نبیؐکے ذریعے نافذ کرنا شروع کردیے جن میں سے
ایک پردہ ، زمانہ جاہلیت میں بے شک پردے کے احکامات پر واضح طور پر عمل
نہیں کیا جاتا تھا لیکن پردے کا تصور اس وقت بھی موجود تھا۔ حضورپاکؐ پر
نازل کی گئی تمام تعلیمات جب تکمیل کے مراحل میں داخل ہوگئیں تب اﷲ تعالیٰ
نے مکمل طور پر پردے کے احکام نازل فرمائے ۔قرآن پاک میں ارشاد ہے ’’اے نبیؐ
اپنی بیویوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو اپنے اوپر اپنی چادروں کے
پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ
ستائی جائیں اور اﷲ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے ‘‘۔اسلام نے عورت کو
سب سے پہلے عزت بخشی ،معاشرے میں اسے فخروانبساط کا باعث بنایا گیا تاکہ وہ
فردِ شیطانی اوہام سے محفوظ رہے ۔ اس ضمن میں اوپر دی گئی آیات میں اس بات
کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ ام المومنین ام سلمہ سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت
میمونہ حضورپاکؐکے پاس بیٹھی تھیں ۔اتنے میں ابن مکتوم آئے اور حضور پاک ؐ
نے حضرت میمونہ اور حضرت سلمہ کوپردہ کرنے کے لیے کہا۔تو انہوں نے
حضورپاکؐکو فرمایا کہ وہ نابینا ہیں۔حضورپاکؐ نے فرمایا تم تونابینا نہیں
ہو ۔اسلام نے سوائے شرعی رشتوں کے تمام رشتوں پر حد مقرر کی ہے اور اس قدر
خوبصورت حدود مقرر کی ہیں کہ تمام تہذیبیں اس پر رشک کیاں ہیں اور اس پر
عمل پیرا ہیں۔جبکہ ہمارے آج کل کے معاشرہ میں اسے ترقی اورتعلیم کی راہ میں
رکاوٹ سمجھا جاتا ہے فرسودہ نظام اور جاہلیت سے منسوب کیا جاتا ہے ۔تعلیم
میں پردے کا کوئی عمل دخل نہٰں۔تعلیم کے لئے یکسوئی اور خیالات کے اجتماع
کی ضرورت ہوتی ہے ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہمارے معاشرے کے بنائے ہوئے
اُصولوں کیوجہ سے آسکی ہے لبرل ازم سے آسکتی ہے قدرت کے بنائے ہوئے اُصول
کبھی بھی ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے ۔سورۃ النور میں اﷲ
تعالیٰ کا فرمان ہے ’’اپنی اوڑھنیاں اپنے او پر ڈال لیں اور اپنی زینت کسی
کے سامنے ظاہر نہ کریں۔
عورت کا مطلب ڈھکی ہوئی چیز ہے ہمارے معاشرے میں جب کوئی عورت گھر کی چوکھٹ
کو اپنے مقاصد اور ضروریات پوری کرنے کیلئے یاد کرتی ہے تو اس کے کردار پر
انگلیاں اُٹھائی جاتی ہیں بہت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے خواہ وہ
کتنا ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو جب کہ عورت قابلیت کے جوہردکھانے کے لئے
مرد کے برابر کھڑی ہوئی ہے تو پردے کی حالت میں کام کرنا معیوب سمجھا جاتا
ہے یہ ہمارے اپنے بنائے ہوئے اُصول ہیں جنہوں نے معاشرے کی حالت دگردوں
کردی ہے اپنی تعلیمات کو بھلا کر اسے فرسودہ نظام قرار دے کر آج ہم دوسری
تہذیبوں کے بنائے ہوئے اُصولوں پر چل نکلے ہیں وہی اُصول آج ہمارے معاشرے
میں انتشار اوربدامنی کا باعث بن رہے ہیں۔اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو تمام
تہذیبوں کے اقدار اوراصولوں سے ہٹ کر الگ اور نمایاں مقام دیتا ہے ۔اسلام
کا امتیازی وصف ہی شرم وحیا ہے شرم وحیا ایمان کا حصہ ہے ۔ایمان سے مراد اﷲ
اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔ شرم وحیا کا تقاضا یہ ہے کہ ہم
اپنے اجسام اور خیالات کو ان ضروری پردوں میں رکھیں جن کا ہمیں حکم ملا ہے
۔ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو عورتوں کی عصمت کی طرف داری کرنیوالے احکامات
پر مکمل ہے اور ان احکامات پر عمل کرکے ہم معاشرے کو مثالی بناسکتے ہیں۔
مختصریہ کہ شریت کا ہر حکم حکمت و فوائد سے بھر پور ہوتاہے۔ بعینہ پردے کا
حکم بھی اگر شریعت میں موجود ہے تو اسکے بے شمار فوائد وثمرات ہیں۔ سب سے
بڑھ کر اس میں عورت کا تحفظ ، اسکی عصمت کی سا لمیت ، اس کا وقار ہے ۔
ہماری دنیا وی اخوی کامیابی کا راز بھی اسی میں پنہاں ہے کہ ہم شریعت کے
حکم بجا لاتے ہوئے حجاب سے اپنی تقدیس کو قائم اور برقرار رکھیں۔ اور سب سے
بڑھ کر یہ کہ شرعی احکام کی بجا آوری میں ہی رضاء الہی کا حصول یقینی ہے۔
بصورت دیگر شریعت سے رو گردانی کے نقصانات بھی ہمیں واضح بتا دیے گئے ہیں۔
ھجاب کے فوائد وثمرات کے پیش نظر جدید تحقیقات کے مطابق ھجاب کی مقبولیت
عالمی سظح پر بڑھ رہی ہے۔ لیکن ہمیں بحیثیت مسلمان اور امہات المومنین کے
نام لیوا ہونے کے ناطے کلمہ کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اور اپنی تقدیس
خود بر قرار رکھتے ہوئے حجاب کو اپنے لیئے لازم کرنا ہے۔ اسی میں ہماری
فلاح اور نجات ہے۔ |