دنیائے سچ
(Muhammad Rizwan Khan, Islamabad)
یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے کہ سب دانتوں
میں انگلیاں دبائے حیرت سے ادھر ادھر دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں ۔کوئی جگہ
ایسی نہیں کہ جہاں میں نے بد قسمت مولانا صاحب کا مذاق اڑا کر لوگوں کو
قہقہے مار کر لوٹ پوٹ ہوتے نہ دیکھا ہو۔معمول کے مطابق ایک دوست کے پاس
پہنچا تو انہوں نے موبائل فون میرے ہاتھ میں تھما دیا موبائل پر ایک تصویر
تھی جس میں ایک موٹے نقوش والی چست لباس زیب تن کئے اور سر پر مردانہ ٹوپی
سجائے حسینہ تھی اور حسینہ کے پہلو میں ایک بے چاری صورت والے مولانا صاحب
تھے۔دوسری تصویر میں عورت کمینی مسکراہٹ سجائے ہوئے تھی اور بیک گراونڈ میں
بکھرے بالوں والے بے بس مولانا صاحب تھے۔دوست نے تعارف کروایا کہ یہ عیاش
قسم کے مفتی صاحب ملتان کے رہائشی ہیں آپ ذرا ان کے کرتوت ملاحظہ کریں یہ
رویت ہلال کمیٹی کے ممبر بھی ہیں۔یہ میرا مفتی قوی صاحب کے ساتھ پہلا تعارف
تھا ۔رات کو مجھے لاہور جانا تھا تو ویٹنگ روم میں ٹی وی سکرین پر بھی
مولانا صاحب اور ٹوپی والی حسینہ کا میڈیا ٹرائل زور و شور سے جاری
تھا۔ساری دنیا مولانا کے کردار پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف نظر آرہی
تھی۔اگلے دن شام کو ایک ٹی وی چینل پر مولانا صاحب کا پھر سے ٹرایل ہو رہا
تھا اسٹوری دھڑا دھڑ بک رہی تھی۔تب میں نے غور سے دیکھا تو پتا چلا کہ
مچہور زمانہ ویڈیو میں جو محترمی نے بنائی اس میں تو مفتی صاحب ڈرے سہمے
محترمہ کے شر سے بچنے کے کوشش کر رہے ہیں مگر محترمہ کے ہاتھ شہرت والا بلا
آّچکا تھا اور وہ اسے ہر طرح نوچنے پر تلی ہوئی تھیں ۔سادگی مولانا کی کہ
وہ اس میڈیا ٹرائل میں بھی معصوم دو شیزہ سے گلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے
کہ یہ ذاتی تصویریں تھیں انہیں یوں پبلک نہیں کرنا چاہئے تھا میں اب بھی
محترمہ کے لئے بھلائی اور دعا کا طالب ہوں کہ وہ سیدھی راہ پر چلیں یہ تو
تھا اسٹوری کا بیک گراؤنڈ یہ سوالات فضول ہیں کہ دعوت کس نے دی دعوت کس نے
کیوں قبول کی کس نے بے وفائی کی کون پاک باز ہے کون دامن داغدار ہے۔یہ نہ
ختم ہونے والی بحث ہے کوگوں کو ایک موضوع مل گیا محترمہ قندیل کو خبروں میں
چھا جانے کا موقعہ ہاتھ آگیا۔غلطی مولانا صاحب کی بھی نہیں کہ ان کے پیچھے
ایک شیطان مستقل طور پر لھا ہوا ہے غلطی بی بی قندیل کی بھی نہیں کہ ان کا
تو پروفیشن ہے کہ جس میں شہرت کی خاطر کچھ بھی کر گزرنا جائز ہے۔محترمہ
میرا کی ویڈیو تو کچھ عرصہ پہلے سب ملاحظہ کر چکے ہیں ایان علی کی صورت میں
اخبارات کو چسکا چاٹ ایسی میسر ہے کہ جسے ہر روز بیچا جا رہا ہے اور نہ
جانے کب تک بیچا جاتا رہے گا۔رہ گیا یہ ملک جس کا نام اسلامک ری پبلک آف
پاکستان ہے بہتر یہی لگتا ہے کہ اسلامک کا لفظ اب حذف کر دیا جائے۔جہاں
کنجروں کو سفیروں کا درجہ مل چکا ہو جہاں انہیں ملک کی آن بان شان قرار دیا
جاتا ہو وہاں ملک کا نام بدل دینا ہی آخری آپشن بچ جاتا ہے۔سب نقصان تو بے
چارے مولانا صاحب کا ہو گیا محترمہ تو ہر طرح فائدے میں رہیں۔وہ سب کالک
مفتی صاحب کے دامن پر مل کر بھی باعزت اور ملکی سفیر کی حیثیت سے غل غپاڑہ
کرتی رہیں گی۔سچ بہت سے زیادہ کڑوا ہوتا کوئی یہ کہنے والا نہیں مل رہا کہ
بے شارے معصوم مولانا ایک طرح دار حرافہ کے چنگل میں پھنس گئے تھے۔کسی کی
زبان پر یہ کیوں نہیں آرہا ایک نوسر باز حسینہ نے مولانا کی عزت لوٹ کر
اسٹوری اور چند تصاویر بیچ کر کروڑوں کما لئے۔کہاں ہیں وہ سب دھرنے باز جو
اپنے پیٹی بھائی کی اس مشکل وقت میں مدد کریں ۔سب ڈر کر دبک کر چسکے لے رہے
ہیں ۔تالی ایک ہاتھ سے کبھی نہیں بجتی کون کہتا ہے کہ یہ مردوں کا معاشرہ
ہے۔مردوں کا معاشرہ ہوتا توکیا یوں ایک مرد ذلیل و رسوا ہو رہا ہوتا ۔ کوئی
آپ کو اپنے گھر بلا کر بدمستیوں پر اتر آئے تو قصور کس کا ہے۔کوئی یہ کیوں
ماننے پر تیار نہیں کہ ہو سکتا ہے مفتی صاحب کی باتیں بھی سچ ہوں ۔خدا
معلوم وہ خیر و برکت تقسیم کرنے اور راہ راست پر لانے کی ترغیب دینے ہی گئے
ہوں ۔جن تصویروں کا شور مچا ہے ان میں کیا برائی ہے نہ تو کوئی کسی سے بوس
و کنار کر رہا ہے نہ کوئی کسی کی گود کے مزے لے رہا ہے ۔صرف ایک ٹوپی کی
جگہ تبدیل ہے تو کوں جانے کہ مفتی صاھب کی بات سچ ہی ہو کہ ان کی ٹوپی
زبردستی محترمہ نے اپنے قبضے میں لے کر استعمال کرنا شروع کر دی ہو۔اگر
تمام مرد حضرات ٹھنڈے دل سے خود کو مفتی صاھب کی جگہ رکھ کر سوچیں تو انہیں
اعلی حضرت کی ایک بات مچکوک لگے گی اور وہ یہ کہ خیر و برکت بانٹنے کے لئے
وہ اکیلے تن تنہا ہی کیوں تشریف لے گئے۔کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ ذرا سی
زیادہ خیر و برکت لے کر تین چار دوستوں کے ہمراہ تشریف لے جاتے ایسا کرنے
کی صورت میں وہ عزت پر ہو جانے والے ممکنہ حملے سے بھی محفوظ رہتے۔اگر
تصویرں قابل اعتراز ہوتیں پھر قصور مفتی صاحب کا بنتا تھا۔ایک ٹوپی مفتی
صاحب کے سر کی بجائے محترمہ کے سر پر دیکھ کر لوگوں نے نجانے سوچوں میں کیا
کچھ سوچ سوچ کر لطف لیا ہے وہ سب لطف اور مزہ ان مزوں سے کہی گنا زیادہ ہے
جو ان کے خیال میں موصوف لینے گئے تھے۔منٹو ٹھیک ہی تو لکھتا تھا کہ معاشرہ
گندا ہے اس کے افسانے بھلا کہاں گندے ہیں ۔وہ تو جو گند معاشرے میں دیکھتا
تھا پوری ایمانداری سے صفحہ قرطاس پر انڈیل دیتا تھا تب بھی لوگوں نے اس کے
سچ کو ماننے سے انکار کر دیا تھا سب نے یک زبان ہو کر یہی کہا تھا منٹو
صاحب معاشرہ گندا ہے مگر آپ کے افسانے گند سے بھر پور ہیں۔آپ کے افسانے بے
راہ روی کو فروغ دے رہے ہیں۔آج بھی فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ قندیل نے عریانی
زیادہ پھیلائی ہے کہ مولانا صاحب کی ٹوپی نے ان کی معصوم ٹوپی محترمہ کے
عریاں لباس کے سامنے کسی قسم کی عریانی پھیلانے سے قاصر ہے۔پوری قوم جذباتی
ہیجان سے باہر نکل کر ٹھنڈا پانی پی کر سوچے کہ قسور کس کا ہے۔عورت کو
مجبور قرار دینے اور اس کی عریانی اور بے راہ روی کو مجبوری سے تعبیر دینے
والے اتنے بھی معصوم نہیں جتنا ہم انہیں سمجھ بیٹھے ہیں ۔عقل اوپر والے نے
سب کو دی ہے کوئی بھلے ہی میری آواز کو ایک مرد کے ھق میں آواز قرار دے
لیکن میرا کام حقائق لکھنا ہے یہ اگر میٹھے ہوں تو جانبدار ہوتے ہیں اگر
کڑوے ہوں تو سچ ہوتے ہیں۔کسی کو بغیر جرم کے ذلیل کرنا بھی نا انصافی ہوتی
ہے۔ خالی چند تصویروں کی بنیاد پر جن میں کوئی اخلاقی گراوٹ نظر نہیں آتی
اگر کچھ نظر آتا بھی ہے تو وہ ایک حرافہ کی شیطانی مسکراہٹاور ماڈرن
لباس۔سو میری درخواست ہے کہ فیصلہ میرٹ پر کریں ریٹنگ کے چکر میں پڑے چینلز
اور چسکوٹ قسم کے ایکرز کی باتوں میں سے چسکے کشید کرنے کی بجائے سچ تلاش
کر کے اصطلاح کا پہلو دیکھیں۔ |
|