دھوکہ دیا یا دھوکہ برداشت کیا؟

ایک وبا ،ایک مرض ،ایک اخلاقی سے قدر گری ہوئی حرکت ،ایک معیوب عمل ،حسن معاشرت کے لیے زہر قاتل ،معاشرے کو تعفن زدہ کرنے والی حرکت ۔ہم سب اس بات کا ااقرار کرتے ہیں یہ برا فعل ہے ۔کسی طور پر بھی ہمیں قبول نہیں ۔لیکن اس کے باوجود وہ قابل مذمت فعل کہیں ہم خود کررہے ہوتے ہیں ۔کہیں ا س عمل کو برداشت کررہے ہوتے ہیں۔سمجھے میں کس کی بات کررہاہوں۔

میں بات کررہاہوں !!’’دھوکہ ‘‘کے متعلق !!

ایک ایسا فعل کے جس کے متعلق سننے یا جس کے ساتھ یہ ہوتا ہے بہر صورت ایک ہیجانی کیفیت بن جاتی ہے ۔کوفت ہونے لگتی ہے ۔آج یہ وبامعاشرے میں بہت پھیل چکی ہے ۔ریڑھی والے سے لیکر فیکٹری کے مالک تک ،ایک عام ٹیوشن پڑھانے والے سے لیکر یونیورسٹی کے ڈین تک ،ایک عام کلرک سے لیکر باس تک ،گھر کے چھوٹے بچے سے لیکر گھر کے سربراہ تک سبھی اس تعفن زدہ مرض کا شکار ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ معاشرے اس آلودگی میں اس قدر اَٹ چکے ہیں کہ انھیں محسوس ہی نہیں ہورہا۔بلکہ اسی دھوکہ کو کوئی اپنی جرأت سے تعبیر کرتا ہے تو کوئی اسے مدبرانہ پالیسی سے تعبیر کرتاہے ۔کوئی اسے کامیابی کا زینہ سمجھتاہے ۔آپ تحریر پڑھ رہے ہیں اس دوران ذرا اپنے معاشرے کا خاکہ بھی خیال کے تختی پر بنتے ہوئے دیکھئے گا۔آپ اقرار کریں گے کہ ڈاکٹر ظہوراحمد دانش کا ادراک درست ہے ۔

ماہرین سر جوڑ کر اس بات کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ لوگ دھوکہ کیوں دیتے ہیں ۔کیا کوئی نفسیاتی عارضہ ہے ۔صحبت کا اثر ہے یا پھر کوئی اور محرک ہے کہ ایک معاشرے کا متحرک شخص دھوکہ دینے میں عار محسوس نہیں کرتا۔

یہ بات باعث اطمنان ہوتی ہے کہ کسی بھی معاشرے میں، عمومی طور پر، زیادہ تر لوگ اصول و قوانین کے پابند یا اُنھیں ترجیح دینے والے ہوتے ہیں۔ لیکن، پھر بھی، اپنے فائدے کے لئے بے ایمانی کرنا دراصل حیرت انگیز طور پر عام سی بات ہے۔

ماہرین کے تجزیات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات آشکارہ ہوئی کہ دھوکہ فریب، صرف انسانوں میں ہی نہیں، بلکہ جانداروں میں ہر اس جگہ سامنے آتا ہے جہاں وسائل کم اور ان کے حصول کے لئے مقابلہ سخت ہو۔ اور اس طویل فہرست میں جراثیم سے لے کر جانور تک سب شامل ہیں، جو دوسرو ں کی محنت سے خود فائدہ اٹھانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ لیکن، انسان جو کہ مخلوقات میں بہتر دماغی صلاحیت کا حامل ہے، افضل ہے۔ اُن کی اس صلاحیت میں بہتری دوسروں کو دھوکہ دینے کی صلاحیت اور امکانات میں اضافے کا سبب ہوتی ہے۔

محترم قارئین !!معاشرتی علوم و نفسیات کے علم کے ماہرین کی آراء کی روشنی میں چند عناصر سامنے آتے ہیں جن کی بنیاد پر انسان دھوکہ اور فریب سے کام لیتاہے ۔(1)انسان زندگی کو عزیز اور زندہ رہنے کو محبوب جانتا ہے ۔اب ایسے میں جب اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ وہ اس کی قیمتی ترین شئے زندگی کی بقاء دوسروں سے فریب سے کام لینے میں ہے ۔وہ یہ سوچ بیٹھتا ہے کہ ان نامساعد حالات میں کوئی بھی اس کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا۔اس خوف کی پاداش میں وہ دھوکہ سے کام لیکر اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے جتن کررہاہوتا ہے ۔

(2)دوسری بڑی وجہ جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کو ان کا حق نہیں مل رہا انکی حق تلفی ہورہی ہے ۔انھیں ان کی محنت کا ثمر نہیں مل رہا لہذا وہ اپنی تسکین کے لیے اور اپنے زعم کامیابی کی تعریف جانتے ہوئے ۔ دوسروں کو لوٹنے کی کوئی توجیہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔

(3) تحقیق و مطالعہ کے بعد فریب و دھوکہ دینے تیسری بڑی وجہ جو سامنے آتی ہے انسان بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو اپنا حق سمجھنے لگتاہے ۔وہ خود ساختہ ایک سوچ بنالیتا ہے کہ اتنے لوگ دھوکہ و فریب سے کام لے رہے تو میں اس جنگل کے قانون والے معاشرے میں دھوکہ کیوں نہ کروں ؟یا پھر یہ سوچ و فکر ذہن پر تانے بانے بُن رہی ہوتی ہے کہ دھوکہ دینے ونہ دینے میں کچھ فرق نہیں تھوڑا ہم بھی آزما لیتے ہیں ۔

(4)مطالعہ اور مشاہد کہ بعد چھوتھی بڑی وجہ لوگوں کے دلوں سے قانوں کا خوف اور انجام سے بے خبری ہے ۔لوگوں کے دلوں سے احساس ختم ہوگیاہے ۔بے حس ہونے کی وجہ وہ اچھے اور برے کے امتیاز سے آزاد زندگی بسر کررہے ہیں ۔ انھیں کسی ضابطہ کار و اصول سے کوئی سرو کار نہیں۔بس، یہی وجہ ہے کہ آج ان کے بچے بھی یہی کچھ سیکھ رہے ہیں!!

محترم قارئین ۔۔۔اگر اپنی عزت کو، رتبے کو اور کردار کو کچلنا ہو تو ’’دھوکہ ‘‘کا استعمال ایک آسان کام ہے، یہ ایک ایسا کام ہے جس میں آدمی بہت سی اخلاقی برائیاں ایک ساتھ ملا کر اس میں استعمال کرتا ہے۔جھوٹ سے شروع ہونے والا یہ کام نہ صرف جھوٹ پر ہی ختم ہوتا ہے بلکہ اپنے ساتھ اور بہت سے چیزیں بھی ختم کر دیتا ہے جس میں سر فہرست عزت نفس اوراعتمادہے۔

قابل غوربات : دھوکہ دینا وقتی لذت و فائدہ تو دے سکتا ہے۔ مگر زندگی میں بہت پریشانیاں لا کر بے اطمیانی کو جنم دیگا۔یقین مانیں کہ دوسرے انسان کو نظر نہ آنے والا دھوکہ ، آپکے کندھے پر موجود لکھنے والے فرشتوں سے کبھی نہیں چھپ سکتا. ہم کسی شریف انسان کو تو دھوکہ دے سکتے مگر رب کو کبھی نہیں دے سکتے۔یہ بات خود کو سمجھا کر ارد گرد کے لوگوں کو بھی بتا دیں کہ دھوکہ کھانے والا شریف و مجبور تو اکثر خاموشی سے آپکادھوکہ برداشت کر جاتا مگر رب تو نہیں بھولتا نا اور پھر نہ ہی چھوڑتا ہے..یہ دنیا کی کھلی حقیقت ہے کہ دھوکہ دینا تو آسان ہے، مگر خود سہنا بہت ہی مشکل۔تو پھر آج ہی سے یہ نیت کرلیں کے اگر کسی کبھی دھوکہ دیا تو نادم ہوں اور نہ کرنے کا عزم کرلیں اور اگر دھوکہ نہیں دیا تو اس عظیم عادت پر قائم رہنے کی نیت کرلیجئے ۔ان شاء اﷲ عزوجل !!آپ اس کے بیش بہا انعامات و ثمرات پائیں گے ۔۔۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542249 views i am scholar.serve the humainbeing... View More