قارئین ۲۲ جون بروز بدھ دوپہر کے وقت مشہور
قوال امجد صابری صاحب کسی پروگرام کے لیے باہر جا رہے تھے کہ نا معلوم
افراد موٹر سائیکل سواروں نے ان کی کار پر اندہ دھندفائرنگ شررع کر دی
اورامجد صا بری صاحب کے سر میں پانچ گولیاں لگیں جس کی وجہ سے زخموں کی تاب
نہ لا سکے اور ہسپتال جانے سے پہلے راستے میں ہی امجد صابری شہید اپنے خالق
حقیقی سے جا ملے ۔قارئین محترم یہ بہت درد ناک واقعہ ہے جس سے زندگی کا
کبھی خلا پورا نہ ہو گا۔سب سے پہلے تو میں امجد صابری شہید کے خاندان سے
تعزیت کرتا ہوں اﷲ پاک امجد صابری شہید کو اپنی جوارے رحمت میں جگہ دے اور
ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔صابری خاندان نے قوالی میں بہت شہرت
حاصل کی اور نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں ایک بلند مقام
پایا۔مشہور امجد صابری قوال ۲۳ دسمبرسن ۱۹۷۶ کو کراچی میں پیدا ہوئے بچپن
سے ہی آپ کو قوالی کا بہت شوق تھا جب آپ اپنے باپ دادا کو قوالی گاتے
دیکھتے تھے تو آپ کے اندر ایک جوش ابھرتا تھا۔امجد صابری شہید نے آٹھ کی
عمر میں قوالی کا آغاز کر دیا اور باقاعدہ ۱۲ سال کی عمر میں سٹیج پر
قوالیاں شروع کر دیں آپ اتنے خوش آواز تھے کہ دور سے ہر شخص کو اپنی طرف
متوجہ کرتے تھے اور امجد صابری شہید نے ساری زندگی حضور سرو کائنات احمد
مجتبےٰ ﷺ کی ثنا خوانی کی اور آپ کتنے خوش قسمت انسان ہیں کہ جب آپ کی
زندگی کا آخری دن تھا اس دن بھی سماء چینل پر اﷲ کے محبوب ﷺ کی ثنا خوانی
کر رہے تھے۔آپ کے آخری سانس میں بھی یہ الفا ظ تھے۔۔۔۔اے سبز گنبد والے
منظور دعا کرنا ۔جب وقت نزع آئے دیدار عطا کرنا۔۔۔۔۔۔تو قارئین اﷲ کے نیک
بندوں کی یہ نشانیاں ہو تی ہیں۔اور آج بھی بلاشبہ لوگ ان کی کلام سے جلوہ
افروز ہو رہے ہیں۔ان کی مشہور قوالیاں (۱)کرم مانگتا ہوں ۔(۲)بھرو جھولی
میری یا محمد۔(۳)تاجدار حرم،،اور میرا کوئی نہیں تیرے سوا۔شامل ہیں مگر
امجد صابری صاحب نے اپنے باپ چچا کے ا نداز میں اپنی قوالیاں پیش کیں اور
کئی ایوارڈ بھی حاصل کیے اور بین الااقوامی شہرت حاصل کی مگر اتنی استطاعت
اور عزت کے باوجود بھی سادہ زندگی بسر کی اور آپ نے ساری زندگی ایک چھوٹے
سے مکان میں گزار دی۔آپ نے کئی ٹیوی چینل میں پروگرام بھی کیے آپ ایک بہت
خدا ترس انسان تھے امجد صابری صاحب عاشق رسول تھے ۔ساری زندگی میں سرکار دو
عالم ﷺ کی مداح کرتے رہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک ہمارے ملک
میں ٹارگٹ کلنگ جارے رہے گی اور بے گناہ لوگوں کو خون کا نشانہ بناتے رہیں
گے۔ماضی میں بھی اس قسم کے بے شمار واقعات ہوتے رہے مگر ان کی آج تک کوئی
رپوٹ سامنے نہیں آئی حکیم سعید جیسے محسن پاکستان جو پاکستان کے قیمتی
سرمایہ تھے آج تک ان کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں ملاابھی چند دن پہلے امجد
صابری شہید کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ
ایسی کاروائیاں کرتے ہیں ان کا کوئی دین نہیں ہے یہ لوگ اسلام کے نام پر
دھبہ ہیں ان لوگوں کو کڑی سے کڑی سزا دینی چاہیئے اور ان کو انصاف کے کٹہرے
میں کھڑا کرنا چاہیئے۔ان درندوں نے کئی بے گناہ لوگوں کو خون کا نشانہ
بنایا اور بلاشبہ امجد صابری صاحب ایک صفت انسان تھے ان کو کھبی فراموش
نہیں کیا جا سکتا ہے۔آخر میں دعا ہے اﷲ پاک امجد صابری صاحب کے درجات بلند
کرے اور ان کے پسماندہ گان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ۲۳ جون کو جب امجد
صابری شہید کا جنازہ پڑھایا گیا تو ہر آنکھ اشکبار تھی ایسا کیوں نہ ہو جو
ساری عمر کہتے رہے ۔۔۔ بھرو جھولی میری یا محمد ۔تاجدار حرم اور میرا کوئی
نہیں تیرے سوا۔۔امجد صابری شہید کو پاپوش نگر کراچی کے قبرستان میں والد کے
قدموں میں دفن کیا گیا۔میری یہ دلی دعا ہے اﷲ پاک ان کی تربت کروڑوں رحمتیں
لائے اور ان کو اپنی جوارے رحمت میں جگہ دے۔آمین۔۔۔۔۔۔اﷲ پاک ہم سب کا حامی
و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |