رمضان المبارک کامقدس مہینہ جس طرح پوری آب و تاب کے
ساتھ چند دنوں قبل ہم پر سایہ فگن ہوا تھا اب اسی شان و شوکت کے یہ مہینہ
رخصت ہونے کوتیارہے۔رمضان المبارک کی حیثیت تمام مہینوں میں سب سے اعلیٰ و
ارفع ہے ۔اس مہینہ کی بے شمار خصوصیات ہیں ، سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ
قرآن مجیداسی مہینہ میں لوح محفوظ سے نازل کیا گیا پھر حسب ضرورت 23 سال
کی مدت میں آقا نامدار صلی اللہ علیہ و سلم پر حضرت جبریل علیہ السلام کے
توسط سے نازل ہوتارہا۔ ایک قول کے مطابق رمضان المبارک کا مہینہ وہ واحد
مہینہ ہے جس کا نام خود اللہ تبارک و تعالٰی کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے
بقیہ دیگر تمام مہینوں کے نام اہل عرب کے بنائے ہوئے ہیں۔ اس مہینہ میں
نوافل کا ثواب بڑھا کر فرض کے برابر کردیا جاتا ہے اور فرض کا ثواب ستر گنا
زیادہ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کاایک بڑا طبقہ اس مہینہ میں اپنی
زکوۃ و دیگر عطیات وافر مقدار میں نکالتے ہیںاس مہینہ میں عبادت و ریاضت کا
ایک عام ماحول بن جاتا ہے۔ مساجد میں لوگوں کا جم غفیر ہر وقت ذکر الہی میں
مشغول رہتے ہیں۔ اس مہینہ میں اللہ نے ایک ایسی بابرکت اور مقدس رات رکھی
ہے جس کے متعلق قرآن مجید کا واضح ارشاد ہے کہ یہ رات ہزار مہینوں سے افضل
ہے۔ اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں اس رات کو تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشادفرمایا’’جوشخص شب
قدر میں ایمان و یقین کے ساتھ کھڑا ہوا اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف
کردیئے جاتے ہیں‘‘ ۔ یعنی اس رات میں جاگ کر بحالت ایمان خلوص دل سے خدا کے
حضور کھڑا ہوا تو اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ یہ روئے زمین کی پہلی
امت ہے جسے اللہ رب العزت نے اس عظیم الشان تحفہ سے نوازا ہے، قرآن و
احادیث میں جگہ جگہ رمضان المبارک کے فضائل و مناقب بیان کئے گئے ہیں۔
رمضان کے مہینہ کا اختتام ہمیں عید الفطر کی خوشیاں مہیا کراتا ہے، اللہ رب
العزت نے اس دن کو روزہ حرام قرار دیا ہے کیونکہ یہ مہینہ بھر کے روزہ
رکھنے کی خوشی میں عطا کیا گیا ہے۔ جس طرح ہم اپنا رمضان المبارک پوری
دیانتداری اور عبادت و ریاضت میں گزارتے ہیں اور ہمیں بدلہ میں عید کی
خوشیاں نصیب ہوتی ہے اگر ہم اپنی بقیہ زندگی کو بھی اسی طرح گزاریں تو ان
شاء اللہ ہماری پوری زندگی عید کی خوشیوں سے دوبالا ہوجائے گی۔ جس طرح ہم
رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں اہتمام سے نماز و دیگر عبادات کا خیال
رکھتے ہیں، جس طرح ہماری مساجد رمضان کے فجر میں مصلیوں سے کھچا کھچ بھری
ہوتی ہے اگر بقیہ گیارہ مہینہ بھی حالت وہی رہے تو کیا اچھا ہوتا، خدا کا
پیغام قیامت تک کیلئے ہے، قرآن و احادیث کے احکامات زندگی کے ہر لمحہ
کیلئے ہے، لیکن افسوس ہم نے اسے سمیٹ کر رمضان تک کیلئے مختص کردیا ہے جو
احتیاطی تدابیر گناہوں سے بچنے کی ہم اس مہینہ میں کرتے ہیں بقیہ تمام
مہینوں میں ہم اسے قائم نہیں رکھ پاتے ہیں۔ جتنے انہماک کے ساتھ اس مہینہ
میں عبادت ہوتی ہے دوسرے مہینے انہماک سے خالی ہوتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں
ہے کہ جس طرح ہم نے اپنی زندگی کے وسائل کو اس مہینہ میں محدود کیا ہے جس
طرح لغویات سے اجتناب کرنے کی کوشش کی ہے۔دشنام طرازی و اتہام بازی سے دور
رہے ہیں۔ اپنی زندگی کے بقیہ مہینوں میں بھی اپنے وسائل کو محدود کرلیں۔
لغویات سے بالکلیہ اجتناب کریں، یہ تمام چیزیں ممکن ہیں بشرطیکہ ہم یہ
سمجھیں کہ ہمارا اللہ ہمیں ہرحال میں ہر آن ہر لمحہ دیکھ رہا ہے۔ ابھی بھی
کچھ دن باقی ہیں اور یہ عشرہ عتق من النار ،جہنم سے آزادی کا عشرہ ہے
،ہمیں دعاء اورکوشش کرنی چاہئے کہ اللہ ہمیں اس مبارک رات کو پانے والا
بنادے اور خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم گنہ گار اپنی آخرت
کو سنوارسکیں اور جنہم سے آزاد ہوجائیں۔
اے رمضان الوداع … ہم شرمندہ ہیں کہ جس طرح تیری مقدس راتوں میں عبادت کرنے
کا حق تھا ،ہم ادا نہیں کرسکے۔ جس طرح روزے کو ادا کرنے کا حق تھا ہم اسے
بھی ادا کرنے سے قاصر رہے ۔ ہم اپنی ہی دنیا میں مصروف رہے ۔ دوسروں کے
گریبان کو ہی جھانکتے رہے اور غیبت وچغلی جیسے فعل قبیح جو رمضان سے پہلے
بھی جاری تھا اس میں بھی ملوث رہے۔ رمضان المبارک کو ایمانا واحتساباً
گزارنے کا حکم دیاگیا تھا لیکن ہم میں سے اکثرنے محض بھوکا رہنے کو ہی روزہ
سمجھ لیا اس کی اصل میں جانے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی جس طرح اور دنوں
میں ان کے کاروبار کا حال تھا وہ رمضان میں بھی برقرا ر رہا۔ جس طرح اور
دنوں میں وہ جھوٹ بولتے تھے اسی طرح رمضان میں بھی بولتے نظر آئے جس طرح
اور دنوں میں دھوکہ دہی کی رمضان میں بھی اس سے باز نہیں آئے۔ ہونا تو یہ
چاہئے تھا کہ جس طرح روزے کا حق ہے اسے پورا کرتے لیکن نہیں شیطان کی جو
پوری سال کی محنت ہے وہ ایک مہینہ میں کس طرح زائل ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ
اس ماہ مبارک میں سرکش شیاطین کو قید کردیتے ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ اشرف
المخلوقات انسان اپنے نفس سے کتنا بچ پاتا ہے ۔ اور انسان ِ محترم اس ماہ
مبارک میں بچنے کی حتی المقدور کوشش بھی کرتا ہے لیکن عید(انعام الہیٰ) کے
ہی دن رمضان المبارک کے تمام روزے ، نوافل اور ذکرواذکار پر پانی پھیردیتے
ہیں ۔ اسی دن سننے میں آتا ہے کہ فلاں نے فلاں کے پیچھے نمازپڑھنے سے
انکار کردیا۔ بریلیوں کی مسجد میں دیوبندی کے نماز پڑھنے سے ماحول کشیدہ
ہوگیا۔ کیا ہم غم خواری کے مہینے میں یہی سب سوچ رکھا تھا کہ رمضان بعداپنی
اصل پرآکرشیطان کو شرمندہ کردیں گے۔ سب سے زیادہ افسوس نوجوان طبقہ پر
ہوتا وہ اسی دن شیطان صفت انسان ’سلمان‘کی فلم دیکھنے کیلئے رمضان سے ہی
ٹکٹ بک کئے ہوتے ہیں۔ اور حیرت کی بات تویہ ہے کہ مسجدوں میں شیعہ ،سنی ،
دیوبندی ، اہل حدیث کے نام پر لڑنے والے وہاں بالکلیہ خاموش رہتے ہیں اور
شیطانی کام میں سب متحد نظر آتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو مرحوم نے لکھا ہے
’’مسجد میں دیوبندی، شیعہ، سنی، وہابی۔ سنیما میں ایک ذات ‘‘۔ سوچنے کی بات
ہے کہ نیک کام میں ہمارااختلاف ہے اور شیطانی کاموں میں ہم متحد ہیں ۔ ایسا
نہ کریں خدا کیلئے … اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات کے اعزاز سے نوازا ہے ہم
اپنی اصل کو پہچانیں اورمتحدہوکر باطل قوتوں اور اپنے نفس سے مقابلہ
کریںکیوں کہ ہم زندہ قوم ہیں، ہماری تاریخیں لازوال اور بلندیوں سے پر ہیں۔
جب تک ہم متحد تھے ، ہماری ایک امارت تھی ، ہم ترقی یافتہ تھے ۔ کوئی ہماری
طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن جیسے ہی ہمارے بیچ انتشار
وخلفشار نے جگہ لے لی ، ہم ارزل ہوگئے،ہمارے خونوں کی کوئی قیمت نہیں رہی۔
ملک کے حالات بھی انتہائی نازک ہیں،ایسے میں بنیادی مسائل پرمشترکہ اتحادہی
واحدحل ہے ۔مشرق وسطی سے لے کر وسط ایشیاء تک ہمارے ہی خونوں سے ہولی کھیلی
جانے لگی، مظلوم رہتے ہوئے ہمیں ہی ظالم سمجھا جانے لگا، لوگ ہمیں اچھی
نگاہوں سے نہیں دیکھتے اور ہم خود بھی اپنی نگاہوں میں خودکوٹھگاہوامحسوس
کرتے ہیں۔ کیا یہ ذلت وخواری خودمول لی ہوئی نہیں ہے…؟
|