ہم عوام

انسان اپنے اعمال کا خطاکار خود ہوتا ہے. کئی بار کچھ اعمال کی کارفرمائ کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کےدنیا مکافات عمل ہے .

آج نھیں تو کل ہمیں کچھ اعمال کا کفارہ دنیا میں ہی ادا کرنا پڑے گا . کئی بار معاشرے کے حالات کا مطالعھ کرتے ہوے ذہن میں ایک ہی سوال آتا ہے کھ کیا یھ صرف ہمارے حکمرانوں کے کمالات ہیں یھ اس میں ہم عوام کا بھی حصھ ہے . دراصل ہر شخص خود کو دودھ کا دھلا اور معصوم سمجھتا ہے.

حکمران چننا عوام کا کام ہے اور حکمران چنا بھی وہ جاتا جسے عوامی اکثریت پسند کرتی ہے. پھر معاشرتی حالات خراب ہونے پر حکومت پر سارا ملبہ ڈال کر عوام خود بری کیوں ہوجاتی ہے.تمام غلطی صرف حکمران کی ہی نہیں عوام کا بھی تو کچھ حصھ ہو سکتا ہے. یھ بھی تو ہوسکتا ہے کھ ہمارے اعمال کی سزا ہمیں ایسی حکومت کی صورت میں ملتی ہو .

سمگلنگ اور بلیک مارکیٹنگ میں کچھ سیاسی پارٹیوں کے نا اہل اہلکاروں کے علاوہ عوامی نمائندے بھی ہوتے ہیں . دودھ یا مختلف اشیاء کو خالص کے نام پر دل کھول کر لاوٹ کر کے بیچا جاتا ہے . اب دودھ بیچنا کسی کسی حکومتی نماءندے کا تو کام ہے نہیں ؟؟؟

ہر دوسرا شخص یہاں حق کی بات کرتا ہے . کیا کبھی کسی نے فرائض کی ادائیگی کے بارے میں سوچا ؟ اپنےفرائض جب پورے کریں تو شاید اذخود حقوق کا مطالبھ کرنے کی ضرورت نھ پڑے .

شیخ سعدی اور انکا بیٹا ایک رات تہجد کی نماز ادا کر رہے تھے . ان کے بیٹے نے دریافت کیا کھ "بابا اس وقت سب سو رہے ہیں تو ہم کیوں عبادت کر رہے ہیں " شیخ سعدی نے جواب دیا کھ " اگر دوسروں کے افعال پر نظر رکھنی تھی تو بہتر تھا کھ تو بھی سویا رہتا درحقیقت ہمیں اپنی انفرادی ذمھ داریوں کے بارے میں سوچنا چاہیے نہ کھ دوسروں کی غلطیوں کی تاک میں رہنا چاہیے.

یورپی ممالک شاید اسی وجھ سے ہم سے آگے ہیں کیوں کھ وھ اپنی ذمھ داریوں کو بخوبی نبھانا جانتے ہیں .اپنی انفرادی ذمھ داریاں ادا کریں گے تو اجتماعی خودبخود پوری ہوجایں گی نا کھ یھ سوچ کر خود کو ہی رسوا کریں کھ جب اس نے نہیں کیا تو میں کیوں کروں . اسی طرح پاکستان کو گندہ کرنے میں بھی ھمارا ہاتھ ہے . ھم یہ تو سوچ لیتے ہیں کھ اس نے اپنا کچرا یہاں پھنکا تو کیوں نھ میں بھی پھنکوں . یھ بھی تو ھوسکتا ھے کھ دوسرا ہمیں اچھا عمل کرتا دیکھ کر ہماری پیروی کرے.

شاید اپنے گریبان میں جھانک کر ہی ہمیں ہمارے حالات کا حل مل سکے اور اگر یھاں پر نھیں بھی تو کم از کم روز حشر خدا کی عدالت میں اپنے فراءض کی اداءیگی کی جوابدہی تو سر اٹھا کر کر سکیں گے.
 

Tahreem farooq
About the Author: Tahreem farooq Read More Articles by Tahreem farooq: 2 Articles with 1895 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.