آج کا دن ہمارے لئے مسرت وشادمانی کا دن ہے جیسا کہ
ارشاد نبوی ہے (ترجمہ) حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگ دودن خوشیاںمنایا کرتے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دو دن کیا ہے (یعنی ان دودنوں میں
تم کیوں خوشیاںمناتے ہو ) انہوں نے کہا کہ ہم زمانہ جاہلیت سے ہی ان دو
دنوں میں خوشیاں مناتے آئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان
دودنوں کواللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سے بہتر دنوں سے بدل دیا ہے اور وہ بہتر
دن یوم الاضحی اور یوم الفطر ہے۔
آپ صلی اللہ نے فرمایا کہ ہر قوم کیلئے خوشی کا دن ہے اور یہ ہماری خوشی
کا دن ہے۔
عید کا انعام اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان لوگوں کیلئے مقرر فرمایاہے جو خوف
خدا رکھتے ہیں، اس کی خوشنودی ومعرفت حاصل کرنے کیلئے رات کو قیام کرتے ہیں
اور دن میں روزہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’الصوم لیکہ روزہ
میرے لئے ہے وانااجزیٰ بہ اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا
ہے کہ روزے صرف اور صرف اللہ رب العزت کوخوش کرنے کیلئے اور اپنے لئے
روحانی خوشی حال کرنا ہے۔ رمضان المبارک کے گزرنے کے بعد ان روزہ داروں کو
ان کی محنت کا صلہ ملتا ہے، انعام ملتا ہے، اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت
ان کے سروں پر سایہ فگن ہوتی ہے۔ اس دن روزہ رکھناحرام ہے کیونکہ یہ اللہ
کی طرف سے جزا ہے ، اللہ اس دن کامیزبان ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب مسلمانوںکی عید یعنی
عیدالفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر
فخرفرماتا ہے، اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزاء ہے جو اپنا کام مکمل
کردے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو پورا پورا اجردیا جائے،
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’اے فرشتو! میرے بندوں نے اپنا فرض ادا کردیا پھر
وہ (نماز عید کی صورت میں) دعاکیلئے نکل آئے مجھے میری عزت وجلال کی قسم،
میرے کرم اور میرے بلند رتبے کی قسم، میں ان کی دعائوں کو ضرور قبول کروں
گا۔ پھراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ بندو! تم گھر وں کو لوٹ جائو میں نے
تمہیں بخش دیا اور تمہارے گناہوںکونیکیوںمیں بدل دیا‘‘۔ نبی پاک صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) لوٹتے ہیں یہاں تک کہ
ان کے گناہ معاف ہوچکے ہوتے ہیں‘‘۔
بے شک عید ہمارے لئے خوشی کا دن ہے لیکن اس دن خوشی شرعی حدود میںرہ کر
منانی چاہئے۔ یہاں دیکھنے میں آتا ہے کہ عورتیںبے پردہ اور نیم عریاں لباس
میں اپنے گھر وںسے باہر نکلتی ہیں، خوب سج دھج کر اپنے جسم کی نمائش کرتی
ہیں۔ عورتوں کا اس طرح بے پردہ باہر نکلنا ہمیشہ ممنوع ہے۔ چنانچہ ارشاد
باری ہے : اے نبی آپ اپنی بیویوں کو اور اپنی لڑکیوں کو اور مومنین کی
عورتوں کو کہہ دیں کہ وہ اپنی چادر کا حصہ اپنے چہرے پر ڈالیں رکھیں:(چادر
کی ایک کناری سے منہ کو ڈھانپ لیں) (سورۃ الاحزاب: آیت 59)اور حدیث پاک
میں آتا ہے کہ جو عورت اپنے شوہر کے سوا کسی اور کو اپنا حسن دکھانے کیلئے
سنگار کرے گی اسکے چہرے کو اللہ تعالیٰ بروز قیامت سیاہ کردیں گے اور اس کی
قبر کو جہنم کا گڑھا بنادیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وعیدسے بچنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ بہرحال! عیدالفطر اللہ کی رحمتوں اور انعام کا دن ہے اس دن
شریعت کی خلاف ورزی کرنا اور کفار کے طریقے کے مطابق خوشی منانا، ناچنا،
کودنا، فلمیں دیکھنا، مسلمان عورتوں، لڑکیوں کا گلی کوچوں میں بے ولاوجہ
گھومنا، بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ اس انعام والے دن اللہ کی
عبادت کریں، صدقہ وخیرات کریں، آپسی رنجش کو بھلاکر گلے سے گلے لگ جائیں
کیونکہ یہ عمل اللہ واس کے رسول کو بہت ہی پسند ہے حدیث میں آتا ہے کہ تین
دن سے زیادہ قطع تعلق کرنے والا شخص جنت میں نہیںجاسکے گا۔ لہذا اس دن تمام
گلے شکوے کو دور کرکے آپسی مصالحت کرتے ہوئے ایک ہوجائیں۔ آج یہود
ونصاریٰ ہماری اسی آپسی رنجش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ہمیں قسطوں میں بانٹ
چکے ہیں۔ لہذا ہمیں اس موقع سے چاہئے کہ ہم اتحاد کا ثبوت پیش کریں کیونکہ
المسلم اخ المسلممسلمان مسلمان کا بھائی ہے لہذا بھائی چارگی کو فروغ دیں
جب نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت ہے اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر تو پھر
یہاںیہ رنگ ونسل میں امتیاز کیوں؟
بہرحال عید ہماری لئے خوشی مسرت کا سامان لے کر آئی ہے لیکن ذرا ہم غور
کریں عالم اسلام پر کہ ہر طرف مسلمان پریشان حال ہیں ، جہاں اور جس طرف
دیکھتے ہیں مسلمانوں کا لہو ارزاں نظر آتا ہے، ہر طرف مسلمانوں کو مشق ستم
بنایاجارہا ہے، خواہ وہ فلسطین، افغانستان، چین، شام، چیچنیا، بوسنیا،
برما،، مصر ہرجگہ انہیں کوپریشان کیا جارہا ہے ۔ کہیں ان کی مسجدوں کو
مسمار کیا جارہا ہے تو کہیں ان پر روزہ نہ رکھنے اور وتراویح نہ پڑھنے کی
پابندی عائد کی جارہی ہے، اکثر غیر مسلم ممالک میں مذہبی معاملات میں
مداخلت کی جارہی ہے۔ لہذا اس موقع پر ہمیں ان کو دعائوں میں یاد رکھنے کی
ضرورت ہے ان کی پریشانیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ان کیلئے امداد واعانت
کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ ملتجی نگاہوں سے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں ۔
گویا وہ یہ کہہ رہے ہیں
تم اپنی عید مناکر ہمیں بھول نہ جانا دعائوں میں
وہ ہم سے بہت ساری امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں، کیونکہ ہم توخوشحالی کی
زندگی بسر کررہے ہیں، اور وہ بے چارے ناکردہ گناہوں کی سزابھگت رہے ہیں ،
ہم تو امن وامان والے شہر میں رہ رہے ہیں، اور وہ بے چارے کرفیو زدہ علاقے
میں محصور ہیں، ریلیف کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔
مقدس ماہ رمضان گزرگیا لیکن ان کی آزمائشوں میں کمی نہیں آئی۔ذرا ہم تصور
کریں کہ اس عید کے موقع پر ہماراکوئی عزیز جیل میں ہو یادشمنوں کی قیدمیں
ہو تو یاہم خود ہی ایسی جگہ پر ہوں جہاں ہمیں بھی مشق ستم بنایا جائے تو
کیا ہماری عید کی خوشی خوشی رہ جائے گی، نہیں ہرگز نہیں! لہذا امت مسلمہ
کجسد واحد کی طرح ہے اگر بدن کی کسی اعضا میں تکلیف ہوتی ہے تو تمام جسم اس
سے متاثر ہوتا ہے اسلئے ہمیں چاہئے کہ اس قول کے مصداق ہونے کی کوشش
کریںاور ان کی تکالیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہوئے ان کی مددواعانت کریں، ان
کیلئے دعائیں کریں تاکہ وہ بھی آئندہ عید اپنے اہل وعیال کے ساتھ مناسکیں
اور حقیقی خوشی محسوس کرسکیں۔ لہذا اللہ تبارک وتعالی سے دعا کریں کیونکہ
دعا مومن کا ہتھیار ہے، اس سے تقدیریں بدل جایا کرتی ہیں لہذا ہم ان کے لئے
دعا کریں گے تو یہ دعا ہمارے ہی حق میں قبول ہوگی کیونکہ دعا کی قبولیت میں
سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے لئے دعا کریں تاکہ وہ
ہمارے لئے قبول ہو۔ |