نشہ آور اشیاء اور اسلامی نقطۂ نظر

آج پوری دنیا مغربی نظام کی دل دادہ، عاشق اور دیوانی ہے۔ یورپ کے طریقۂ کار تہذیب و ثقافت و کلچر کو انسانی زندگی کے لئے باعث خیر اور سب سے عمدہ گردان رہی ہے، ہر کسی کی زبان پر اسی کی ستائش، اسی کی تعریف، ہر ملک و قوم سب اسی کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں، اس کی مقناطیسی خصوصیت نے ساری دنیا کو کھینچ لیا ہے، ہمارا ملک بھی اس کی پیروی کرتا ہوا نظر آتا ہے اور دہلی حکومت سے یہ حکم نامہ جاری ہوتاہے کہ اب بار )Bar( اور پب)Pub( رات کے آخری حصہ میں بھی کھلے رہیں گے، جنس پرست بھیڑیوں کے شر اور ان کی گندی نگاہوں سے صنف نازک اپنے آپ کو اس وقت بھی محفوظ نہیں پائے گیجس وقت کائنات میں ہر کوئی پرسکون و فرحاں محسوس کرتا ہے، ذہنی سکون، قلبی سکون، جسمانی سکون اس وقت مہیا ہوتا ہے اور قرآن نے اسے لباس سے تعبیر کیا ہے۔ وہ ملک جو عورتوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کے مسائل سے دوچار ہے، اس کا یہ فرمان نادانی، بیوقوفی، پاگل پن اور دیوانگی کے سوا کیا ہے، جہاں درندگی حدیں پار کر گئی، حیوانیت کو اس سے تعبیر کیا جائے تو چیخ اٹھے اور شکوہ کناں ہوجائے، شیطانیت بھی شرم سے نگاہیں جھکا لے۔ تمہارا مطمح نظر، تمہارا آئیڈیل، اسوہ اور نمونہ اس کا عالم تو عجیب و غریب ہے، وہاں تو جنسی خواہشات کی تکمیل ہے، اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں، یہ کوئی جرم نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ اسے پورا کرلیا تو کیا حرج ہے، یہ اس ترقی یافتہ قوم کا نظریہ اور خیال ہے مگر ہم اس عقیدہ کے پرستار ہیں جہاں عزت و توقیر ہر کسی کے لئے ہے، ہر وہ شئے جو اس راہ میں کانٹا ہو اسے اکھاڑ دیا جاتا ہے، ختم کردیا جاتا ہے، یہاں ہر شئے کو باریکی سے جانچا اور پرکھا، پھر فیصلہ کیا صحیح ہے۔ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ نشہ آور اشیاء سے متعلق اسلامی نقطۂ نظر کو پیش کیا جائے اور انسانیت جس ذہنی، جسمانی اور معاشرتی برائیکی طرف رواں ہے، اس پر قدغن لگانے کی کوشش کی جائے۔ جب انسان نشے میں چور قدموں میں لڑکھڑاہٹ اچھائی اور برائی کے امتیاز سے ماوراء بیوی اور بیٹی کے فرق سے بے نیاز ہو تو کیا معاشرہ کی بھلائی میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے۔ خداوند قدوس عقل پر ہی احکامات نافذ کرتے ہیں اور بارہا قرآنکریم عقل کے استعمال کی دعوت دیتا ہے اور خداوند تعالیٰ کے نظام تخلیق میں تدبر و تفکر کی ترغیب دیتا ہے، عقل کی اہمیت کی بین دلیل اس کا موضع اور مقام بھی ہے اور نشہ عقل انسانی کو معطل اور بے کار کردیتا ہے۔ تجربات شاہد ہیں کتنے خرد مند انسان جب پی کر ٹن ہوجاتے ہیں، اوچھی حرکتوں پر اتر آتے ہیں، پیشاباور گندی نالیوں میں پڑے مست اور مگن لوگوں کی ٹھوکروں کے شکار مگر مست ہیں مجمع عام میں ایسی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں جو انسانتنہائی میں بھی مناسب نہیں سمجھتا، چوںکہ عقل ہی چھپ چکی ہے، اسی لئے عربی زبان میں شراب کو خمر کہا جاتا ہے، اس کے معنی آتےہیں چھپ جانا )مصباح اللغات، ص۲۱۹( نشہ عقل کو ڈس لیتا ہے، اس کو زائلکردیتا ہے اور انسانیت کی توہین کرنےوالے اعمال کائنات کے منظرنامہ پر رقم ہوجاتے ہیں۔عرصۂ دراز تک شرمندگی کے احساساتختم نہیں ہوتے، نسلیں تک اس کے نتائج بھگتتی ہیں۔ قرآن نشے کے حوالے سے کہتا ہے : ’’اے ایمان والو! یہ جو ہے شراب اور جوا گندے کام ہیںشیطان کے، سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پائو۔‘‘ )سورۂ مائدہ( شراب کو اللہ تعالیٰ نے ’’رجس‘‘ سے تعبیر کیا ہے جو عربی زبان میں گندگی اور پلیدی کے معنی میں آتا ہے )مصباح اللغات:ص۲۸۱( یہ وہ گندگی اور خباثت ہے جو معاشرہ کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ انسانی جسم کو کھوکھلا اور اس کے اعمال کو تباہ کردیتی ہے، اس کا نقصان فرد تک محدود نہیں بلکہ جماعتوں اور نسلوں کے بندھن کو توڑتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور فساد کا باعث ہوتا ہے، انسانیت کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیتا ہے۔ جس قوم نے بھی اس وباء کو قبول کیا اخلاقی گراوٹ، بیماریاں،لڑائی جھگڑے، فساد ان کا مقدر ٹھرے، نہ وہ اپنا معاشرہ بچا سکی، نہ عزت و آبرو، نہ خود اپنا وجود۔ قرآن کریم نے اس کے نقصانات کی منظر کشی اس انداز میں کی ’’شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ ڈالے تم میں عداوتیں بذریعہ شراب۔‘‘ )سورہ مائدہ، آیت۹۱( کوئی ذیشعور اور ذی عقل انسان اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا، ہاں اگر کسی ذہن پر تعصب کا پردہ پڑا ہوا ہو تو وہ زبان سے انکار کر سکتا ہے مگر قلب کی گہرائیوں میں وہ محسوس کرے گاکہ یہ حقیقت ہے کیوںکہ انسان نے نشہ کے خمار میں کسی سے نازیبا کلمات کہے، تلخ کلامی کی، ہاتھا پائی کی شکل اختیار کرگئی، اعزاء واقارب کو بھنک لگی، جنگ کا میدان تیار۔ انتشار و خلفشار کا دروازہ کھلا اور معاشرتی تباہی کا آغاز مگر افسوس اس بات کا ہے ان سب چیزوں سے واقف ہونے کے بعد لوگ اس برائی کو فیشن خیال کر رہے ہیں۔ کئی مرتبہ اس کے خلاف تحریکیں چلائی گئیں، بند کرانے کی ناکام کوششیں کی گئیں مگر نتیجہ ہمارے سامنے ہے، کھلے عام چوراہوں پر شراب فروخت ہوتی ہے، شرابی معاشرہ کو خراب کرتے ہیں لیکن کسی پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیا یہ مردوں کی بستی ہے، اندھیر نگری ہے، یہ بےضمیروں کا مسکن ہے، جو مائوں اور بیٹیوں کی آبرو کو بھی مفاد کے نقطہ سے دیکھتے ہیں مگر مذہب اسلام غیرت مند افراد چاہتا ہے، صالح اورخوشگوار معاشرہ چاہتا ہے، اس کا دامنافراط و تفریط سے خالی ہے، اس کے احکامات عقل سے ہوتے ہوئے قلب کے گوشوں میں اتر جاتے ہیں اور نفع ونقصان ظاہر کرکے عقل انسانی کو متوجہ کرتے ہیں، اس کے یہاں قانون ہے، بے مثل دستور ہے اور اس کا نفاذبھی اگر اسلامی حکومت میں کوئی شراب پی لے تو اس کو 80 کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے، یہ سزا بطور عبرت ہوتی ہے۔بہت سے افراد کے لئے اور معاشرتی فلاح کے لئے نسخۂ کیمیا ثابت ہوتی ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر نشہ آور شئے خمر ہے اور ہر نشہ آور شئے حرام ہے۔ )ترمذی، کتاب الاشربہ، باب ما جا ء فی شارب الخمر ( امام ترمذیؒ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ روایت حسن صحیح ہے۔ شراب کے استعمال کی مذہب اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا کیوںکہ وہ انسانی فلاح و بہبود سے پوری طرح واقف ہے اور دوسری روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص شرابپیتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی چالیس دنوں کی نماز قبول نہیں فرماتے۔ چنانچہ اگر توبہ کرلے تو اسکی توبہ قبول کرلی جاتی ہے، پھر اگر دوبارہ اسی عمل کا ارتکاب کرے تو پھر خداوند قدوس اس کی نماز چالیس ایام تک شرف قبولیت سے سرفراز نہیں کرتے اور اگر چوتھی مرتبہ پھر یہی حرکت کرے تو اس کی توبہ قبول نہیں کی جاتی اور اس کو ’’نہرِ خبال‘‘ سے پلایا جاتا ہے جو جہنم کی نہروں میں سے ایک نہر ہے، اس سے آگے بڑھ کر نشے سےروکنے کے لئے مذہب اسلام حد اور سزا مقرر کرتا ہے اور اس قبیح فعل کو انجام دینے والے پر سرزنش کرتا ہے۔ اگر صرف اس ایک عمل کو بغیر تعصب و عنایت و عناد قبول کرلیا جائےاور شراب کے ٹھیکوں پر تالے لگادئیے جائیں تو معاشرہ کتنا خوشنما ہوجائے گا، کتنی بیماریوں کا خاتمہ ہوگا، کتنے فسادات کا سدباب ہوگا، عورتیں گندی اور بری حرکتوں سے محفوظ رہیں گی، گھروں میں پیدا ہونے والی چپقلش کا خاتمہ ہوجائے گا، نوجوانانِ قوم صحیح سمت اور صحیح راہ پر گامزن ہوجائیں گے، اسلام کا یہی ایک فرمان کتنی حکمت لئے ہوئے ہے، تمام احکامات کا عالم یہی ہے۔ موجودہ زمانے کے اندر خاص طور پر کچھ ایسی اشیاء کا وجود ہوا ہے جن کو انسان نشہ آور اشیاء کی قبیل سے نہیں سمجھتا حالاںکہ وہ بہت سی مہلک بیماریوں کا سبب ہیں، ان سے کلیتاً اجتناب کرنا بھی ایک سچے مسلمان اور اچھے انسان کا فریضہ ہے۔

rahat ali siddiqui
About the Author: rahat ali siddiqui Read More Articles by rahat ali siddiqui: 82 Articles with 85055 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.