سرور کونینؐ کی شان میں گستاخی -رواداری کہاں ہے صاحب!
(rahat ali siddiqui, Muzaffarnagar)
گلی، محلہ، دیہات، قصبہ، شہر، چائے
کی دوکان ، پان والا ہر جگہ ایک ہی بحث، ایک ہی کلمہ، ہر شخص کی زبان پر
رواداری، فضا میں جیسے یہ لفظ گونج رہا ہو۔کوئی گوشہ ، اس بحث سے خالی نظر
نہیں آتا۔ اسمبلی تک میں اس لفظ کی بازگشت ہے، ہرشخص اپنے اندازِ طرز، طور
طریق سے رواداری اور عدم رواداری کے نقطہ پر حقائق پیش کر رہا ہے۔ یہ مسئلہ
سیاسی لوگوں تک محدود نہیں رہا، عوامی ہوچکا ہے۔ ایک طبقہ ہے جس کی
زبانہمیشہ یہ کہتی ہے ہندوستان آج بھی پیار و محبت، امن و سلامتی کا
گہوارہ ہے اور عدم رواداری کا نام و نشان بھی یہاں نہیں جو اسکے ثبوت کی
بات کرتے ہیں انہیں بکا ہوا، سیاسی مہرا، نفرت کا پجاری، پاکستانی،
متشدد،متعصب اس طرح کے القاب سے پکارا جاتا ہے یا کانگریسی کہہ کر اٹھتی
ہوئی آوازوں کو بے اثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہندوستان میں ہو رہے
پرتشدد واقعات کو اتفاق کا لباس پہنا دیا جاتا ہے، رفتارِ زمانہ کی گرد
قرار دے دیا جاتا ہے، منظم سازشوں کو وقت کی مار کہہ کر چپی سادھلی جاتی ہے
اور یہ دعویٰ کرنے میں کوئی تامل اور ہچکچاہٹ نہیں۔ پیار کو ٹھیس لگی یا
نفرت نے سر ابھارا، فسادات ہوئے یا خون بہا، گندے کلمات نکلے یا قبیح افعال
سرزد ہوئے، ناحق خون بھی بہا، مگر اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لئے ان معاملات
پر یہی کہا گیا کہ فریق مخالف اپنی سیاست چمکانے کے لئے یہ حربہ استعمال کر
رہا ہے، وہ اپنے کھوئے ہوئے مقام کو پانے کے لئے عدم رواداری کو سیڑھی بنا
رہاہے اور پرانی حیثیت حاصل کرنے کی اُدھیڑ بن میں ہے۔ اس کا شاخسانہ یہ
شور شرابا ہے جو ہر لمحۃ سماعتوں سے ٹکرا رہا ہے۔ آخر کون اس سفید جھوٹ
پریقین کرے اور کب تک کرے، درودیوار اقلیتوں پر ہورہے مظالم کے گواہ،
آزادی اظہار رائے پر مچتا شور اس بات کی شہادت دے رہا ہے۔ معمولی باتوں پر
غیرمعمولی حالات سے مسلمانوں کا نبرد آزما ہونا اس بات کا احساس دلا رہا
ہے کہ حقائق کچھ اور ہی ہیں، وہ سچ نہیںجو بی جے پی کے قدآور لیڈروں کی
زبان سے نکلا۔ سچ وہ ہے جو ساری دنیا نے دیکھا، محسوس کیا، ہجوکی، برا بھلا
کہا اور لگا کہ شاید یہ عدم رواداری کا قصہ اب گزرے زمانے کی بات ہوجائے گا۔
ملک کے وزیر اعظم کے تیور بھی کچھ ڈھیلے نظر آنے لگے، مگر کون جانتا تھا
کہ یہ طوفان سے پہلے کا سناٹا ہے ان لوگوں کے دماغوں میں جو فتور، ذہنوں
میں جو گندگی ہے ابھی کہاں وہ اختتام کے قریب پہنچی ہے۔ ابھی تو کچھ ایسے
نشتر لگنے باقی ہیں جو قلب کو چھلنی کردیں،کچھ ایسے تیر ابھی جگر کے پار
ہونے ہیں جو گذشتہ سارے درد سے کہیں بڑھ کر اور اس بحث پر حتمی اور فیصلہ
کن ہوں گے۔ صورت حال اتنی بھیانک اور قلب شکن صورت اختیار کرنے والی ہے،
کچھ ایسا ہوگا جس کا گمان بھی نہ ، جس کی امید بھی نہیں کی جاسکتی تھی مگر
ایسا ہی ہوا۔ آسمان زمین نےکھلی آنکھوں دیکھا،انسانیت شرما گئی، آدمیت
ماتم کناں ہوئی، بشریت کا وقار مجروح ہوگیا، تاریخ کا سینہ لرز اٹھا، دھرتی
پھٹنےکو بے تاب ہوئی، آسمان ٹوٹنے کی خواہش کرتا ہوا محسوس ہوا، ستارے بے
نور ہونے کی تمنا کرتے نظر آئے، شجر و حجر سے لے کر ہر مخلوق نے جس درد
کو،شدت کو محسوس کیا اور کیوں نہ کرتے یہ تکلیف ہے ہی اتنی زیادہ عالم کے
سردار ،انبیاء کے امام، اللہ کے محبوب، بھٹکوں کو راہ پر لانے والے، کائنات
کو پیارو محبت کا مفہوم واضح کرنے والے، اخلاق و کردارکا مینارہ، انسانیت
کا خزانۂ امتیاز، قدرتِ خداوندی کاسب سے عظیم جوہر نبی اکرم ﷺ جن کی زندگی
مثالی، جن کا کردار مثالی، جن کے اخلاق مثالی، جو ساری دنیا کو تکلیف کے
بدلے خوشیوں کی سوغات دے گئے، جن کے متعلق امیر مینائی نے کہا: خنجر چلے
کسی پے تڑپتےہیں ہم امیر ٭ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے جن کی بعثت
کے بعد خداوند قدوس بھی یوں گویا ہوئے کہ مومنو میں نے تم پر احسانکردیا،
اس عظیم شخصیت کو دے کر اور اپنی محبتکا راز ان کی اطاعت میں مضمر کردیا
اور ان کی برکات کو مسلمانوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ تمام جہانوں کے لئے
رحمت قرار دیدیا، ساری انسانیت کے لئے روح افزا پیغام بنا دیا، کائنات کو
بہت سی آفات اور بلائوں سے چھٹکارے کا پروانہ ملا۔انسان، جنات، شجر و حجر
تو کیا ذرات اور حشرات الارض تک کے لئے آپ کی ذات باعث خیر ہے۔ آپ نے
زمانے کی تاریکی کو روشنی میں تبدیل کیا، کمزوروں کا سہارا بنے، بے حیثیت
لوگوں کو معاشرہ میں ایک مقام دلایا، عورتوں اور یتیموں کے لئے عزت،محبت کے
جذبات پیدا کئے۔ برائی، بداخلاقی، بدکرداری کو تاخت و تاراج کردیا اور شاعر
کو کہنا پڑا: جو نہ تھے راہبر اوروں کے ہادی بن گئے ٭ کیا نظر تھی جس نے
مردوں کو مسیحا کردیا حسن معاشرہ اور حسنِ اخلاق کی بنیاد رکھی، جو آپ کی
حیات طبیہ میں ہی ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکی تھی، دنیا پر بسنے
والے تمام محققین کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں آپ کی عظمت کا اعتراف کرتے
ہیں اور آپ کی شخصیت پر جب قلم اٹھاتے ہیں یا زبان کھولتے ہیں محبت اور
پیار کے ساتھ عشق و عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں مگر سرزمین ہند پر بسنے
والے ایک بدبخت اور کم ظرف نے آقا کی شان میں گستاخی، ذلت آمیز کلمات کہے
جو الزامات عام آدمی پر بھی لگانا غیرمناسب ہے اس کی خبط الحواسی دیکھئے
کہ وہ کائنات کے سردار پر رکھ دئیے۔ یہ اس شخص کا پاگل پن تعصب، فضا کو
خراب کرنا ہی ہے ونہ کون آقائے نامدارؐ کی شخصیت اور کمالات کا معترف نہیں،
اس شخص پر شدت اس قدر سوار ہوئی کہ کائنات کی تابانی پر تھوکنے کی کوشش
کرنے میںمصروف مگر اس پاگل کو کون سمجھائے کہ آسمان پر تھوکنے سے اپنا منہ
گندا ہوتا ہے، لیکن یہ نازیبا کلمات مسلمانوں کے جذبات مشتعل کرگئے، ان کے
جذبات بھڑکا گئے۔ احتجاجات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو آہستہ ہی صحیح مگر اب
رفتار پکڑ رہا ہے اور ہر مسلمان یہ چاہتا ہے کہ اس شیطان کو پھانسی کے
پھندے پر لٹکادیا جائے۔ حکومت سے مطالبات کئے جارہے ہیں۔مگر اثر الٹا ہوا
ہے مسلمانوں کوانصاف ملنے کے بجائے ان کے خلاف سنگین مقدمات عائد کئے گئے
اور نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والا سرکاری مہمان ٹھہرا۔ ریاستی
سطح پر یا مرکزی سطح پر ایک بھی جملہ کسی بھی سیاسی رہنما کی زبان سے نہیں
نکلا، ایسا لگا جیسے سانپ سونگھ گیا، سیاسی گلیاروںمیں سناٹا پسرا، وہ
مسئلہ جس پر ہر شخص کو سراپا احتجاج بننا چاہئے، جہاں ہندو مسلم کی بات
نہیں انسانیت کی بات تھی۔خاموشی چہ معنی دارد، یہ سوال قلب کو جھنجھوڑ رہا
ہے اور ذہن پر بار بار دستک دے رہا ہے کہاں ہیں وہ لوگ جو برابری کی بات
کرتے ہیں؟ کہاں ہیں وہ افراد جو نبی کو اپنا کہتے ہیں؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو
ووٹ کیخاطر تو بہکاتے ہیں لیکن آج جب ایک شخص نےپہاڑ سے بھی زیادہ سخت
کلمات کہہ ڈالے تو ان کی ہمدردیاں کہاں ہیں؟ کہاں وہ عدلیہ جس سے ہم نے
کبھی اپنا بھروسہ نہیں اٹھنے دیا؟ درد، تکلیف، کڑھن، غم، سب کچھ برداشت کیا
مگر کبھی اس کی توہین نہیں کی اور نہ اس کی توہین کو برداشت کیا۔ آج بھی
جب ہمارے محبوب کو گالیاں دی گئیں ہم نے عدلیہ اور نظام عدلیہ کی توہین
نہیں کی، حالاںکہ یہ معاملہ اتنا سنگینی رکھتا ہے کہ ہمیں بکھر جانا چاہئے
تھا، اور جذبات کے تلاطم خیز دریا میں بہہ جانا چاہئے تھا مگر ہمپھر امن کے
محافظ بنے رہے لیکن مزید ہمارے صبر کا امتحان مناسب نہیں اور انصاف کےلئے
پرامن طریقے سے احتجاج کرنے پر مجرم ٹھہرانا درست نہیں۔ کسی بھی اعتبار اور
طریقسے اسے روانہیں قرار دیا جاسکتا۔ دنیا کا کوئی قانون جائز طریقے سے حق
مانگنے والے کو مجرم یا ملزم نہیں کہہ سکتا یہ بات دائرۂ انصاف سے خارج ہے،
امن کا قتل برابری اور ہمسری کو بھینٹ چڑھانا ہے اور مجرم کو سزادینے میں
تاخیر قوم مسلم کے جذبات سے کھیلنا ہے۔ اب بتائیں وہ لوگ جنہیں عدم رواداری
نظر نہیں آتی جنہیں حالات پرامن نظر آتے ہیں، جنہیں ہندوستان سلگتا ہوا
نظر نہیںآتا، جنہیں روز کے دلدوز فسانے سنائی نہیں پڑتے، پھر بھی وہ
تمہاری زبانوں سے مگرنظر نہیں آتی، کیا یہ لفظ صرف ایک لفظ ہے جس کو ادا
کیا اور ہو گیا یا ایک وسیع مفہوم جو زمینی سطح چاہتا ہے۔ اگر رواداری ہوتی
کیا نبی کی شان میں گستاخی کرنے والا زندہ ہوتا۔ کیا حقطلب کرنے والے مجرم
ٹھہرائے جاتے، سوچئے صاحب رواداری کہاں ہے؟ )بصیرت |
|