ہمہ گیر بنیئے
(Dr shaikh wali khan almuzaffar, Karachi)
|
جیو میں ایک انداز |
|
حقیقت یہ ہے کہ ہماری دانست میں ڈاکٹر صاحب
نے اپنے پروگرموں بالخصوص رمضان ٹرانسمیشن کے ذریعےافطار وسحر کو خوب
متعارف کرایاہے،ایک اسلامی ملک میں اس طرح کی نشریات کا اہتمام بہت ضروری
تھا،جسے ڈاکٹر عامر نے فرضِ کفایہ سمجھ کر نبہایا،انہوں نے اس خصوصی
ٹرانسمیشن کے ذریعےماہ رمضان اور اس سے متعلقہ عبادٍات کولوئرکلاس فیملیز
کےعلاوہ مڈل کلاس اوراپرکلاس حتی کہ برگرفیملیزمیں بھی متعارف کرایا،اوران
کے پروگراموں سے روزہ،سحری اور إفطار کو ان لوگوں میں پذیرائی ملی ، جو ان
مبارک لمحات کی عبادتوں اور ریاضتوں سے کماحقہ واقف نہیں تھے،اس مبارک ماہ
میں ایک اسلامی کلچر یا روایت کو اتنے بڑے پیمانے پرمشتہر کرنے کا کریڈٹ ان
ہی کو جاتاہے،اسی کے ذریعے انہوں نے لاتعداد بندگانِ خدا کو رب العالمین
اور رحمۃ للعالمینﷺ سے ملایا،نیز عالم ٓن لائن کے ذریعے سے بھی انہوں نے ہر
مکتبۂ فکرکےعلماء کو ٹی وی کی وساطت سے عوام کے ساتھ جوڑدیا،ان کا کمال یہ
ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر تنگ نظری کا کوئی لیبل نہیں لگایا،ان کو نبی اکرم
ﷺ ،ازواجِ مطہرات،آل رسولﷺ، صحابہ ٔکرامؓ اور حرمین شریفین سے بے پناہ
محبت ہے،وہ ان کاہی گُن گاتاہے،وہ مسلکوں کے بکھیڑوں سے دور رہنے کی کوشش
کرتے ہیں،اس کے مزاج میں پیارہی پیار اور محبت ہے،ان کادرس قرآن بھی کسی
نہ کسی تفسیر کے تناظر میں ہوتاہے،یہ تیاری ان کے لئے مفتی عبد القادر کرتے
ہیں،ان کی قوتِ گویائی اور ان کے سٹمنے نے اُن کے پروگراموں میں رونق
دوبالا کی ہوئی ہے،عربی زبان وادب میں ان کی رغبت اور کوشش بھی دیکھنے سے
تعلق رکھتی ہے،شیخ یوسف القمر کا تلمذ بھی انہیں حاصل ہے،ان کے لئے اگر نیک
لوگ دعائیں کریں،تو وہ اس میدان میں مزید بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں،وہ ایک
مثالی محنتی شخص ہیں،گفتگو کاسلیقہ جانتے ہیں ،اسی لئےان کی بات سنی جاتی
ہے،کروڑوں لوگ ان سے مستفید ہورہے ہیں،سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اپنے آپ کو
ہماری طرح شیخ الإسلام یا عقلِ کل نہیں سمجھتے ،بلکہ برملا وہ یہ کہتے رہتے
ہیں کہ میں تو ایک طالب ِ علم ہوں،اپنے قول وعمل میں خطا کار ہوں،سیہ کار
ہوں،اس پراللہ تعالٰی سے ان کی بارگاہِ عالی میں معافی،بخشش اور مغفرت کا
طلبگار وخواست کنندہ ہوں،یہی وجہ ہے ‘‘العلم من المھد إلیٰ اللحد’’کو سامنے
رکھ کر وہ سیکھتے ہوئے اَپ گریڈہوتے جارہے ہیں ،میری دعاء ہے کہ باری تعالیٰ
انہیں استقامت علیٰ الدین وفی الدین وللدین نصیب فرمائے۔
ڈاکٹرعامر لیاقت ،ڈاکٹر ذاکر نائک،غامدی،ٖوحید الدین خان ،فرحت ہاشمی اور
ڈاکٹر اسرار مرحوم کی ٹیم جیسےحضرات قرآن وسنت کے نشروإشاعت کے لئے اپنے
اپنے اسلوب میں کام کررہے ہیں،جن لوگوں تک مستند علماء کی رسائی نہیں ہے،یا
ٹھیٹھ علمی وفنی اصطلاحات کی زبان سے جو لوگ دور چلے گئے ہیں،وہاں ان کاکا
م قابلِ قدر ہے،مروجہ مذہبی مسالک ومشارب سے یہ لوگ کیا ایک عام مسلمان بھی
کنارہ کش ہے،مگرانہیں بھی اس طرف گھسیٹاجاتاہے،جب یہ نہیں آتے ،تو الزامات
لگنے شروع ہوجاتے ہیں،کہیں کہیں بتقاضائے بشری ان سے بھی کچھ نامناسب باتیں
یا حرکتیں ہوجاتی ہیں،لیکن ان سے اگر کہیں چوک ہوجائے،تو مجھے یقین ہے کہ
دلیل کی بنیاد پر ان کی فہمائش کی جاسکتی ہے،یہ لوگ عام مسلک پرستوں کی طرح
ضدی ،کوڑ مغز اور مائنڈسیٹ نہیں ہیں،مولویوں میں جو صحیح اہلِ علم اور ثقہ
حضرات ہیں،ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ مذکورہ اشخاص کسی سے اُن کےاحترام میں کم
ہیں نہ ہی ان سے استفادہ کرنے میں کوئی عار محسوس کرتے ہیں،،یہ عام مدرسوں
کے پڑھے ہوئے عالم،مفتی یا قاری نہیں ہیں،اس لئے مزاجاً یہ لوگ ذرہ مختلف
ہیں،لہذا گذارہ کیا جائے،انہیں اسی نگاہ سے دیکھا اور پرکھاجائے،تو بہتر
ہوگا،معاشرےکےاسلامائزیشن اوراسلامی تہذیب وتمدن کے پرچار میں ہر مسلمان کا
اتناہی حق ہے جتنا کسی بھی مفتی،عالم اور شیخ الإسلام کا ہے،باری تعالیٰ
اپنے دین کے سربلندی کے لئے مختلف ومتنوع نیک وبدشخصیات اور حتی کہ حیوانات
وجمادات سے بھی کام لیتے ہیں،موجودہ زمانے میں پوری دنیا اسلام کی طرف راغب
ہے،اس میں ہمیں ہرکسی کی مدد چاہیے،ہم سب کےاکابر ،بزرگوںواساتذہ کا
اپنااپنا انداز ہے،اور ہر ایک نرالا ہے،پر اس طرح کے لوگوں کے بھی ماننے
والے یا ان سے عقیدت رکھنے والے بہت ہیں،ان کی عقیدتمندوں کا خیال کرتے
ہوئے ہمیں ان کے خلاف بولتے وقت معقول ومؤدب پیرایہ اپنانا چاہیئے،تاکہ ہم
باہمی اختلافات سے نکل کر نظریاتی جنگوں کے اس پُرفتن دور میں الحاد وزندقے
کا مقابلہ کرسکیں،اپنے دین اور اپنے حبیبﷺ کی سیرت وسنت دنیا تک پہنچاسکیں۔
کسی معاملےمیں منفی کے بجائےمثبت سوچ اپنانے کی ضرورت سے انکار نہیں
کیاجاسکتا،منفی سوچ ہمیشہ سوچنے والے کو ذہنی مشکلات میں ڈال دیتی ہے،مثبت
سوچ صرف فکر ونظر ہی نہیں جسمانی صحت کے لئے بھی بے حد نافع اور فائدہ مند
ہے،دوسروں کے تعاقب کے بجائے اگر ممکن ہو،توہمیں آگے بڑھ کر زمام کار ہاتھ
میں لینا چاہئے،حضرت مجددالف ثانیؒ اکبر جیسے ہٹے ہوئے شخص کو اپنی مکاتیب
کے ذریعےراہِ راست پر لاسکتے ہیں،تو ہم کم ازکم ان کی پیروی میں اس طرح کی
کاؤشیں کیوں نہیں کرتے،ہدایاوتحائف کا تبادلہ کرکے ،کیا ایسے لوگوں کو قریب
نہیں لایا جاسکتا،بعض چیزوں میں انہیں داد دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرکے
اِن کو ہمرکاب بنایاجائے۔
مسئلہ صرف مذکورہ اشخاص کا نہیں ،اسلام کے حوالے سے چہاردانگِ عالم میں اس
وقت تحقیق وریسرچ جاری ہے،مختلف مسلم وغیر مسلم افراد وادارے رات دن ایک
کرکے کام کررہے ہیں،اُن تمام پر حکمت وبصیرت سے بھرپور نگاہ کی شدید ضرورت
ہے،جہاں جہاں محسوس ہو،کہ اس طرح کے لوگ غلطی کررہے ہیں،ان ہی کے لب ولہجے
میں ان کے ساتھ تعاون کرکے انہیں صحیح صورتِ حال سے آگاہ کیاجائے،انہیں
اپنی خدمات فراہم کی جائے، طعن وتشنیع سے گریز کرتے ہوئےاسلام اور مسلمانوں
کے مقابلے میں لا کھڑاکرنے کے بجائے،انہیں بڑے توسع،تحمل ،صبر اور برداشت
کے ماحول میں سچ اورحق دکھایاجائے، یوں بڑے بزرگوں سے مشاورت کرکے ،ان کی
نگرانی وإشراف میں الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا کو مہذب طریقے سے استعمال کرکے
تقریب کی کوششیں کی جاسکتی ہےاور ہمارے اوپر بلاوجہ ‘‘دین کی ٹھیکہ
داری’’کا الزام بھی عائد نہ ہوگا۔
نیز مذکورہ شخصیات کی خدمت میں بھی عرض ہے،کہ دینی معاملات میں احتیاط سے
کام لیاکریں،جب ایک مرتبہ آپ مذہب کے حوالےسے پہچانے جانے لگے، تو پھر
اپنی ذاتی زندگی اور نجی مجالس میں بھی اپنی اس حیثیت کو ملحوظ ِخاطر رکھا
کریں،پھونک پھونک کر قدم اٹھایا کریں،تاکہ آپ کے کردارسے دینی اقدار کی
مزید سربلندی اور پرچار ہو،ساتھ ساتھ خدائے بزرگ وبرتر کی طرف سے آپ کواجر
بھی ملتا رہے،اگر معتدل ومستند اہل علم آپ کی کسی رائے سے اختلاف کریں،تو
بلاتردد اس سے ترک فرمایا کریں۔
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ: مَدَحَ رَجُلٌ رَجُلًا
عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ: "وَيْحَكَ
قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ مِرَارًا، إِذَا كَانَ
أَحَدُكُمْ مَادِحًا صَاحِبَهُ لَا مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ: أَحْسِبُ
فُلَانًا وَاللَّهُ حَسِيبُهُ وَلَا أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا
أَحْسِبُهُ إِنْ كَانَ يَعْلَمُ ذَاكَ كَذَا وَكَذَا".
|
|