سانجھی عید

بنی نوع انسان کے لیے جس طرح ہوا پانی اور غذا ضروریات زندگی میں اہمیت کی حامل ہیں بالکل اسی طرح تفریح بھی اپنی مسلمہ حقیقت رکھتی ہے۔انسان ہمیشہ خوش رہنے کے لیے تفریح کے مواقع اور طریقوں کی ٹوہ میں سرگرداں رہتا ہے۔اﷲ تعالیٰ انسان کے ارادوں کو ہر طرح سے بھانپ لیتا ہے اور شاید اسلیے ہی مختلف تہواروں نے جنم لیا ہے۔ہر مذہب اور قوم کا اپنا اپنا تہوار ہے اور تہوار منانے کا پیغام یہی ہوتا ہے کہ شانتی ،رواداری،اتفاق اور انصاف جیسی خوبیوں کو اپنایا جائے۔

ہندو ہولی اور دیوالی مناتے ہیں تو عیسائی ایسٹر اور کرسمس جیسے تہوارمنا کر خوشی اور مسرت کاسماں پیش کرتے ہیں مگر مسلمانوں کا مذہب یکسر جدا اور الگ شناخت کا حامل مذہب ہے۔اسلامی تہوار میں نہ تو توہم پرستی ہے نہ فسق و فجوراور نہ بدامنی اور نہ ہی نا شائستگی ان تمام تر خامیوں سے بالاتر تہوار مذہب اسلام میں منانے کا دستور چلا آیا ہے۔ایسا ہی ایک اجتماعی تہوارجسے ہمارے مذہب نے تو اجتماعی قرار دیا ہے مگر کچھ نا بلد امرا نے اسے انفرادی رنگ دینے کی حتیٰ المقدور مساعی کی ہے۔ایسا ہی ایک اجتماعی تہوار عیدالفطر کے نام سے موسوم ہے جسے یکم شوال کو منانے کی نسبت سے عید شوال بھی کہا گیا ہے اور اسی عید کو میٹھی عید کے ساتھ ساتھ چھوٹی عید بھی کہتے ھیں ۔راقم کے قلم کو اگر خامہ فرسائی کی جنبش آئی تو ان حقا ٰئق سے پردہ ضرور اٹھے گا جن حقیقتوں کو اس کھلے آسمان تلے شرافت کے لبادے میں بھیانک کرتوت کرتے دیکھا ہے۔

خیر آمدم بر سرمطلب،خامہ فرسائی کے دوران راقم الحروف کوموبائل فون پر ایک پیغام موصول ہوا جو متن میں چار چاند لگانے کے مترادف محسوس ہوا وہ پیغام قاریئن کی نذر ہو۔ـــــــ’’’خوشخبری! اس عید پر ہماری تمام وائس آفرز اور بنڈلز چلتے رہیں گے تاکہ آپ عید پر ہماری سروسز کے ذریعے اپنے پیاروں سے رہیں رابطے میں۔‘‘‘
کتنی اچھی اور انسان شناس ہیں یہ موبائل فون کمپنیاں جو عید جیسے پرمسرت موقع پر بھی اپنے صارفین کو خوشیاں دینے سے قاصر نہیں مگر نہایت ہی افسوس ناک خبر ہے اس ابن آدم کے متعلق جو خود کو نا خدا سمجھ کرانسان ہی کی سال بھر میں آنے والی اکلوتی خوشی کا قاتل بن بیٹھا ہے۔حدیث پاک کا مفہوم ہے۔’’مزدور کی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے بھی پہلے ادا کر دی جائے‘‘‘ اس دنیا میں قریباَ ہر دوسرا فرد مزدور ہی ہے وہ چاہے افسر ہے یا ملازم وہ کمائی کر رہا ہے کھیتوں میں کام کر نیوالا تعمیرات عمارت یا تعمیر قوم یا پھر ریڑھی پر بھاری بھرکم بوجھ اٹھانے والاصرف مزدور ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو ملک کی فی کس آمدنی میں اضافے کا سبب ہے وہ مزدور ہی ہے۔سوال یہ ہے کی کیا مزدور کو اسکی مزدوری اور آجر کو اسکی اجرت وقت پر اور پوری مل جاتی ہے؟اگر مل جاتی ہے تو خوش نصیب ہے اگر نہیں ملتی تو ان کی آہ وفریاد کو ضرور آسمان تک رسائی ملتی ہوگی۔

عید سعید آئی اور اپنے ساتھ ڈھیروں خوشیاں لائی۔کسی کے لئے یہ عید سعید ہوگی تو کسی کے لئے عیدالفطرتو کوئی اسکو میٹھی عید کے طور پر منائے گا تو کوئی چھوٹی عید۔پورا ماہ صوم وصلوۃکے پابند روز عید ،عیدگاہ میں جانے سے کس قدر مضطرب ہونگے اور اکثریت ایسی بھی ہوگی جنہوں نے پورا ماہ شتربے مہار کی طرح خودکو رکھا آزاد اور عید گاہ میں پورے ٹھاٹ باٹھ سے ہونگے جلوہ افروزاور کسی کی عید دلی کے ان شہزادے اور شہزادیوں کی عید کے مترادف ہونی جو دولت اور عزت سے محروم ہوگئے تھے۔تو کوئی دیوانہ ’’’’عیدگاہ ما غریباں کوئے تو‘‘پر عمل پیرا ہوگا۔امئرا کے لئے تو یہ عید سعید کی گھڑی ہوگی اور غریب طبقہ کے لئے عیدالفطرکیونکہ ان کو تو واسطہ فطرانے سے ہوتا اﷲ نے تو یہ خوشی اہل اسلام کو دی مگر کچھ زمین کے ناخداؤں نے خوشی کے یہ لقمے چھین لینے میں کوئی کسر نہ روا رکھی۔

قارئین!ذرا انصاف کا دامن تھامیے اس مزدور کی کیا عید ہوگی اس ملازم کی کیا عید ہو نی جو پورا ماہ کام کرتا رہا ہو مگر اسکو مزدوری اور تنخواہ سے محروم رکھا گیا ۔۔۔وہ کس منہ سے گھر جائے گا اہل و عیال کو کیا جواب دے گا ۔۔۔وہ عید کیسے گزاریں گے۔جس کا مالک پہنے گا زرق برق پوشاک جسکی مالکن کرے گی زیب تن پشواز سے جن کے بچے کریں گے خوب ہلہ گلہ اور غریب ملازمین کے بچوں کوگلی محلے میں برداشت کرنے پڑیں گے طنز بھرے طعنے و جملے وہ کسمپرسی میں بجھے تیر اور سنیں گے آوازہ۔ان غریب بچوں کی آہوں سے اسی بیچاری جورو کی سسکیوں سے اہل وعیال کی آہ وفغاں سے اور اس ملازم کی بد دعا سے مالک کی عید کو ضرور چار چاند لگنے ہیں ۔خواجہ آصف کے کہیے گئے الفاظ کہاوت کا روپ دھار گئے ہیں اور اس موقع پر درست آتے ہیں ۔’’کچھ شرم کرو کچھ حیا کرو‘‘عید آئی ہے کچھ تو خیال کرو یہ ان لوگوں کے لئے ہے ان مالکان کے لئے ہے جو اپنی دولت پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں اور اپنے ملازمین کی عید کی خوشیوں کا گلہ گھونٹ کرخود اہلے گہلے پھر رہے ہیں،

خدا عادل ہے بس دیر ضرور ہے مگر اندھیر نہیں اسکی لاٹھی بے آواز ہے۔آج تیرے پاس رزق دولت اور تونگری ہے تو وہ خدا کی عطا کردہ ہے یہ تو تیرے پاس آزمائش کے طور پر ہے۔کسی کا حق مارنا کہاں کا انصاف ہے۔اے دولت مند مالک اپنے بچوں کے لیے تو نے رنگ برنگے ملبوسات خریدے اپنی بیوی کے لیے انواع و اقسام کی خریداری کی اور اپنے لئے بھی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔اور اپنے ملازمین اور ماتحتوں کی تنخواہوں اور اجرتوں کو فطرانہ کا مستحق سمجھ کر ہضم کرنیوالا کیا تو ہی فطرانے کا صحیح حقدار ہے۔جس مزدور کی مزدوری وقت پر اور پوری نہ ملے اسکی زبان اور دل سے نکلنے والی آہ کوسات آسمان تو کیا دنیا کی کوئی طاقت خالق کائنات اور رازق کی عدالت میں رسائی حاصل کرنے میں نہیں روک پائے گی۔تیری خوشیاں تجھے مبارک ہوں عید کوئی سال بھر نہیں رہتی چند ساعتوں کی بات ہے اور یوں مساعت سعید گزر جائے گی۔مگر جو خوشیاں تو نے ایک غریب سے لوٹی ہیں وہ تیرے گلے کا پھندہ بنیں گی۔

عید مبارک ہو سرکار کو اور سرکار کے ملازمین کو،عید مبارک ہو اہل اسلام کو،عید مبارک ہو ان نجی اداروں کے مالکان کوجنہوں نے عیدی میں اپنے ملازمین کی تنخواہیں روک کریہ عید پرمسرت بنا دی۔ملازمین بے حد شکرگزار ہونگے اپنے مالکان کے کہ اس پر مسرت موقع تہوار پر ان کی چھٹی تو ہڑپ نہیں کی کتنی عظیم بات ہے عظیم دن کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’’ شام کے آنسو سر محفل شہادت دے گئے
سوزوغم میں خاک ہو جاتی ہے پروانوں کی عید‘‘‘‘
kashif nadeem
About the Author: kashif nadeem Read More Articles by kashif nadeem: 3 Articles with 2633 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.