جوازاور جواب؟

 نسیم بی بی پہلے ہی ناراض ہو کر میکے گئی ہوئی تھی، میاں چنوں کے اس دیہاتی گھر میں اب عبدالرشید تھا اور اس کے چار بچے۔ وہ شام کو مزدوری سے واپس آیا تو تین سالہ محمد حفیظ نے عید کے کپڑوں کا ذکر چھیڑ دیا، ساتھ ہی جوتی کا مطالبہ کردیا، جب مطالبے کی شدت میں اضافہ ہوا تو والد نے بچے کو جھڑک کر خاموش ہو جانے کے لئے کہا، مگر بچہ چھوٹا تھا، اس لئے زیادہ خوفزدہ ہونے کی بجائے مزید ضد کرنے لگا اور رونے لگا، اب باپ طیش میں آگیا اور تین سالہ حفیظ کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ بچہ بے ہوش ہوگیا، اس کا باپ اسے ہسپتال لے گیا، مگر بچہ جانبر نہ ہو سکا اور عید پر نئے کپڑے اور جوتی پہننے کی حسرت دل میں لئے اس دُکھی دنیا سے کنارہ کر گیا۔خبر کی بِھنک پا کر پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی جس سے والد کی گرفتاری اور تین سالہ بیٹے کا پوسٹ مارٹم عمل میں آیا۔

چشمِ تصور سے اس گھر کو دیکھئے، جس میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ،جہاں چار بچوں کی ماں بچوں کو باپ کے حوالے کر کے خود اپنے باپ کے گھر چلی گئی ہے۔ ماں (یاخاتون) کے بغیر تو گھر بھی ویرانہ ہی ہوتا ہے، ممکن ہے بچوں کے کھانے پینے کا بندوبست ان کے والد کی کسی رشتہ دار خاتون نے کردیا ہو، مگر دو چار دن تو رشتہ دار تعاون کرتے ہیں اور پھر منہ پھیر لیتے ہیں۔ بچے عارضی طور پر ہی سہی، ماں کی مامتا سے محروم تھے، جب کبھی والد کے ہاتھوں بچوں کی شامت آتی ہوگی تو ماں ڈھال بنتی ہوگی، بچوں کی حفاظت کرتی ہوگی اور انہیں باپ کے غضب سے بچاتی ہوگی، مگر اُس روز تو ماں تھی ہی نہیں، جب تین سالہ بچہ کپڑوں اور جوتی کا مطالبہ کر رہا ہوگا تو دوسرے بچے خوفزدہ ہو کر منظر دیکھ رہے ہونگے، مگر ان کے خوف نے اس وقت حقیقت کا رنگ اختیار کرلیا، جب بچے کی ضد اور والد کے غضب میں اضافہ ہوتا گیا۔ ذرا دیکھئے وہ منظر جب باپ ایک معصوم سے بچے کو اٹھا کر پٹخ رہا ہوگا اور دوسرے بچے بے بسی سے دیکھ رہے ہوں گے۔ بچے یہ منظر مرتے دم تک نہیں بھلا سکیں گے، اپنے ہی باپ کے اس اقدام کو وہ تاحیات نفرت اور غصے سے یاد کریں گے۔اب انجام کار کیا ہوگا، شاید باپ یہ عید جیل میں گزارے گا، پھر رشتہ دار اکٹھے ہونگے اور دوسرے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر یہ فیصلہ کریں گے کہ عبدالرشید کو جیل سے چھڑوانے کی سعی کی جائے، تاہم بچوں کی ماں تو گھر ضرور آچکی ہوگی۔

حفیظ پر پانچ سات سو روپیہ نہ لگانے والے باپ کو اب کس قدر خرچ کرنا پڑے گا اس کا کوئی اندازہ نہیں۔ اب حفیظ پر ہزاروں روپے خرچ ہو نگے۔ پہلے اس کے لئے کفن کی صورت میں نئے کپڑے خریدے جائیں گے، پھر اس کے لئے الگ سے قبر کی صورت میں مستقل کمرہ تیار کیا جائے گا جس پر بھی خرچہ اٹھے گا۔ پھر اپنے ہاں رسوم و رواج کی کہانی بھی ہے۔ جن پر بلا مبالغہ ہزاروں روپے خرچ ہوتے ہیں اور اپنے ہاں امیر ہو یا غریب پورا معاشرہ ان رسوم و رواج کے جکڑ بندیوں میں الجھا ہوا ہے۔ عبدالرشید کا یہ گھر ہمارے معاشرے کے اکثر خاندانوں کا عکاس ہے، گھر گھر میں میاں بیوی میں لڑائی ہے، لڑائی کی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں، مگر لڑائی والے اکثر گھروں کا مشترکہ ایشو غربت ہی ہے۔ جب شام کو مزدور واپس آتا ہے تو وہ بیوی بچوں کے مطالبات پورے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ تب لڑائی کا آغاز ہوتا ہے۔ بچوں پر میاں بیوی کی لڑائی کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس پر کسی نے کبھی غور نہیں کیا، لڑائی کرنے والے تو ظاہر ہے جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہو کر اس کے مضمرات اور نتائج کو مدنظر نہیں رکھ سکتے۔ مگر معاشرے کے کسی طبقے یا حکومت کے کسی ادارے نے بھی اس ایشو کو اہمیت نہیں دی۔ اپنے ہاں حکومتوں کو دیکھا جائے تو ان کے میگا پراجیکٹس عام آدمی کے فائدے کے لئے نہیں ہوتے، مگر فنڈز دوسرے علاقوں کے ترقیاتی کاموں میں سے کاٹے جاتے ہیں، کیا حکمران اپنی مراعات عوام کے خون سے نچوڑ کر حاصل نہیں کرتے؟ مزدور کی آمدنی میں گزارہ بھی مشکل ہے، چہ جائیکہ اس سے اضافی ضرورتیں بھی پوری کی جاسکیں اور ضروری خوشیاں بھی خریدی جاسکیں۔ مخیر حضرات کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے اور معاشرے کے لئے بھی ، کیا ہم سب لوگ اپنے اخراجات کو جواز فراہم کرسکتے ہیں، کیا معاشرے کے ان حالات کی موجودگی میں ہزاروں روپے فی کس کی افطاری جائز ہے؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 513755 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.