پاکستا ن میں نظام تعلیم کا سرکاری شعبے سے
نجکاری تک کا سفر پیچیدہ اورکثیرالجہتی ہے تعلیمی نجکاری کی تشریح کرنے کے
لیے دستور پاکستان اورعالمی قانون میں تعلیمی پالیسی کے رہنما اصولوں پرنظر
ڈالنا ضروری ہے۔ آئین کے آر ٹیکل 25کے مطابق 5سال سے لے کر 16 سال کی عمر
کے تمام بچوں کو لازمی اور مفت تعلیم دلانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔تعلیم کو
ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر پوری دنیا مین تسلیم کیا جاتا ہے ۔انسانی
حقوق کے قانون کی رو سے تعلیم کا مقصد انسانی شخصیت میں نکھار
پیداکرنا،پوشید ہ ا نسانی جوہر اور صلاحیتوں کو با کمال بنانا ہے۔تعلیم کی
روح لکھا ـئی پڑھائی تک ہرگز محدود نہیں بلکہ یہ تو مز ید انسانی حقوق کی
پہچان،انکے حصول کی تیاری اور جدوجہد پر محیط ہے۔۔ ریاست کی ذمہ داری ایک
ایسا نظام تعلیم روشناس کرانا ہے جو معیار تعلیم کو ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ
بہتر اور معقول بنانے کے ساتھ ساتھ اس کے ثمرات معاشرے کے پسماندہ طبقات کی
دہلیز تک پہنچائے۔
تعلیمی نجکاری سے سکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بچوں کو
حصول تعلیم کی راہ میں حائل سفری مشکلات سے چھٹکارا نصیب ہوا ہے۔ تحقیقی
نتایج کے مطابق 1999-2000سے لے کر2007-08تک نجی تعلیمی اداروں کی تعداد
میں69فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2007-08میں نجی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے
طلبا کی تعداد 12 ملین تک بڑھ گئی ہے جو کہ کل تعداد کے 34فیصد کے برابرہے۔
مڈل لیول پر نجی اداروں کی تعداد سب زیادہ ہے جو کہ33،پرائمری23،ہائی 19
دینی مدارس 16،ٹیکنیکل3، ہائر سیکنڈری3،ڈگری کا لج2 ،پری پرائمری1،اور
یونیورسٹی لیول پر ان کی تعداد.2فیصدہے ۔نجی تعلیمی اداروں کی تعداددیہات
میں شہروں کی نسبت دگنی ہے۔ معیارتعلیم میں بہتری ،اساتذہ کی تعدادمیں
اضافہ اور ان کے والدین کے ساتھ با قاعدہ روابط سے طلبا کا مستقبل محفوظ ہو
گیا ہے۔ ا یک سروے (2008,2007 )کیمطا بق پاکستان میں کل 4.1ملین اساتذہ میں
44فیصد اساتذہ کا تعلق نجی شعبہ تعلیم سے ہے مردوں کے مقابلے میں خواتین کی
دگنی تعداد نجی تعلیمی اداروں میں استاد کے طورپر کام کرتی ہے ۔ شعبہ تعلیم
میں مختلف تجربات سے والدین اور طلبا کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ
سے تعلیم کا شعبہ انتہائی منافع بخش کاروباربن چکا ہے۔1991,2000 کی مردم
شماری کے مطابق نجی شعبہ کی تعلیم میں سرمایہ کاری 48فیصد جبکہ کا منافع 52
فیصد ہے۔ تعلیمی اخراجات اور پسماندہ سوچ کے باعث لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی
تعداد سکولوں میں کم رہی ہے۔ پی ۔ایس۔ایل۔ایم۔2011سروے کے مطابق 2001میں
لڑکیوں کے سکول اندراج کی شرح میں5.54فیصد اضافہ ہوا اور2009میں اضافہ کی
شرح 45فیصد رہی۔جبکہ لڑکوں کے اندراج کی شرح میں بالترتیب 16اور5.76فیصد
اضافہ ہوا ۔ استادوں کی ایک غیر تر بیت یافتہ فوج نے جنم لیا جن کو سرکاری
اساتذہ اور کچھ مہنگے نجی سکولوں کے ٹیچرز کے مقابلے انتہائی کم تنخواہ میں
کام کرنا پڑ تا ہے۔
صوبائی حکومتوں کی جانب سے نجی سکولوں کے لیے مختلف امدادی پروگرام جیسا کہ
ووچرسسٹم ،قابل تحسین اقدامات ہیں ان کے اثرات نچلی سطح تک منتقل کرنے کے
لیے مزید اضافے اور اصلاحات کی اشدضرورت ہے۔ پاکستان کے تمام بچوں کیلیے
معیاری تعلیم کی پالیسی اس وقت تک حقیقت میں نہیں بدل سکتی جب تک حکومت
حصول تعلیم کی راہ میں حائل معاشی رکاوٹیں دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو
جاتی۔ حکومت کی جانب سے نجی سکولوں کے اساتذہ کے لیے تنخواہ اور تعلیم
وتربیت کی کم از کم حد مقرر او ر اسے نافذ العمل کرنا اور بچوں کو سکول میں
ؒلانے کی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔نجی سکولو ں کی بڑھتی ہوئی تعدادکے
باعث ان کی نگرانی،قانون سازی اورضابطہ اخلاق مقررکرنے کے لئے حکومت کو
اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ ریاست پاکستان شدید مشکلات سے دوچار
ہونا پڑے گا۔مجموعی طور پر پاکستان کے تعلیمی حقائق اورمستقبل کے لیے کی
جانے والی کوششوں کودیکھ کر جون ا یلیاکا یہ شعر عرض ہے۔
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتا بوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ |