ہمیں مانا پڑے گا کہ ہم بنیادی طور پر
اخلاقیات سے عاری قوم ہیں ۔ دہشت گردی کی لعنت کا شکار ہونے کی وجہ سے خوشی
کا ہر تہوار ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ عید ہو، 14 اگست ہو، 23 مارچ
یا کوئی بھی خوشی کا تہوار ہمارے رویے اسے غم میں بدل دیتے ہیں۔ رمضان کی
نعمتیں ہوں تو ذخیرہ اندوزی، مہنگائی کا عذاب۔ عید انے سے قبل ٹرانسپورٹ
کرایوں میں من مانا اضافہ۔ عید کے دن ون ویلنگ جیسی لعنت ہماری خوشیوں کو
کرکرا کر دیتی ہے۔ کبھی خستہ حال بسوں کے سیلنڈر سینکڑوں جانیں لے جاتے ہیں
تو کبھی بلکہ ہرسال سیلاب کئی کئی جانیں نگل جاتا ہے کبھی نہروں سمندروں
میں پابندی کے باوجود نہاتے ہوئے درجنوں افراد ڈوب جاتے ہیں کبھی ملاوٹ ذدہ
اشیا کھانے سے اموات ہو جاتی ہیں۔ خوشی کے تہواروں پر دہشت گردی کو تو ہم
بیرونی کھاتے میں ڈال دیتے ہیں مگر ان کو بھی ہمارے ہی اندر سے مدد ملتی
ہے۔دہشت گردی کو ایک لمحے کو سائیڈ پہ بھی کردیا جائے تو جو دہشت گردی ہم
مہنگائی، کرپشن، ملاوٹ، قانون توڑنے کی صورت میں کر رہے ہیں اسکا ذمہ دار
کون ہے ؟ ہر تہوار کی طرح اس عید پر بھی ون ویلنگ کی لعنت سے لاہور، فیصل
اباد، کراچی اسلام اباد سمیت کئی شہروں میں ہزاروں شدید زخمی اور درجن بھر
سے زائد ہلاک ہو گئے۔ ان 12 خاندانوں میں صف ماتم بچھنے کا ذمہ دار کون ؟
فراسٹریشن کا شکار وہ نوجوان یا انکے والدین ؟ تعلیمی ادارے یا قانون نافذ
کرنے والے ادارے۔ اسکا ذمہ دار ہم سب ہیں اور من حیث القوم قانون توڑنے اور
اخلاقیات کا تیہ پانچہ کرنے کے مآہر ہیں۔ ہم ہری بتی پر چلیں نہ چلیں لال
پر رکنا ہماری توہین ہے، کسی عید پر ہم درجنوں جانیں سمندر کے حوالے کر
دیتےہیں کہیں اوور لوڈنگ اور اوور سپیڈنگ کئی جانیں نگل جاتی ہے۔ کسی عید
پر ون ویلنگ کی لعنت ہزاروں خاندانوں کو متاثر کرتی ہے۔ معذرت کے ساتھ یہ
سب ہمارے بیماررویے ہیں۔ہمیں مانا ہوگا کہ ہم گھروں سے لیکر تعلیمی اداروں
تک ، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لیکر اخلاقیات کا سبق دینے والی این
جی اوز تک،دنیاوی تعلیم کے کالج یونیورسٹیوں سے لیکر دینی تعلیم کے مدرسوں
تک ۔ سب ان حالات کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ یہ سب یونہی رہے گا جب تک اسکول،
کالج تعلیم بانٹنے کی بجائے اسے بزنس سمجھتے رہیں گے ، ہمارے گھر بچوں کو
صرف اسکول کی ذمہ داری سمجھنے کی بجائے انکی تربیت پر زور دینگے، جب تک
ہمارے ڈاکٹر مریضوں کو گاہک بن کر ڈیل کرتے رہیں گے، جب تک شیر، تیر یا
سائیکل کے نشانوں پر اندھا دھند مہریں لگانے والے چند لمحے رک کے سوچیں گے
نہیں ۔ جب ہمارا دکاندار سے لیکر مزدور تک ملاوٹ ، ڈنڈی مارنے کو حرام نہیں
سمجھیں گے۔ جب تک بھٹو زندہ رہے گا، جب تک گلی محلوں میں اسلام کے ٹھیکیدار
بنے کی بجائے تیزی سے خشک ہوتے اپنے دریاوں کے بارے میں سوچیں گے ۔جب ہم
کالا باغ ڈیم پر سیاست کرنے کی بجائے اسے حقیقی ضرورت سمجھیں گے ۔ جب تک
عوام گہری نیند میں ڈوبے سنہرے خوابوں میں الجھے رہیں گے ۔ جب تک ہم عدم
برداشت کا شکار رہیں گے ۔ جب تک ہم قانون کے نفاذ میں سنجیدہ کوششیں نہیں
کریں گے۔ تب تک ہم ایسے ہی ذلیل وخوار ہوتے رہیں گے۔ بربادی کے رستے پرچلتے
رہنا یا پلٹ کے ابادی کی راہ اپنانا اپ پر منحصر ہے دونوں رستے اپکے سامنے
ہیں کیونکہ تبدیلی نعروں سسے نہیں سوچ بدلنے سے آتی ہے۔۔ |