سکھ قوم کے مذہبی پیشوا، اﷲ تعالیٰ کی
واحدانیت کے مبلغ بابا گورو نانک صاحب برصغیر میں مسلمانوں کے عروج کے
زمانہ میں ایک مسلمان گاؤں تلونڈی کے پٹواری کلیان داس صاحب کے ہاں 15مارچ
1469ء میں پیدا ہوئے۔ یہ اس زمانے کا تذکرہ ہے جب ہندوستان پر ابراہیم
لودھی کی حکومت تھی اور پنجاب پر گورنر بہلول خان لودھی کا راج تھا جبکہ
لاہور کے گورنر دولت خان لودھی کے ایک خادم کے پاس بابا نانک صاحب کی
ہمشیرہ نانکی صاحبہ عرصہ سولہ سال سے رہائش پذیر تھیں۔ بابا نانک صاحب کے
بچپن کا ساتھی ایک مسلمان سارندہ جس کا نام بھائی مردانہ تھا وہ بابا نانک
صاحب کو ہمراہ لاکر حسن ابدال آ گیا۔ بابا نانک صاحب اور بھائی مردانہ
دونوں ساتھی اکٹھے رہا کرتے تھے۔ بابا گرونانک صاحب اﷲ تعالیٰ کی واحدانیت
کے گیت تخلیق کرتے اورسرندہ بھائی مردانہ مدھر سروں میں بکھیرا کرتا تھا۔
اس زمانے میں بابا گورو نانک صاحب اور بابا ولی قندھاری صاحب دونوں اﷲ کے
صاحبِ کرامت ولی حسن ابدال کے پہاڑ میں مقیم تھے۔ ولی قندھاری بابا جی اکثر
جلال میں رہتے جبکہ بابا گرونانک صاحب ہمیشہ سے عجز و انکساری اور صبر و
تحمل کے پیکر تھے۔ دونوں بزرگوں کی کرامت سے پانی بند ہوا اور پھر چشمہ
پھوٹا۔ اس واقعہ کو تاریخ یوں بیان کرتی ہے کہ پانی پہاڑ کے اوپر سے نیچے
بہتا ہوا آتا تھااور نیچے دامن میں بابا گورو نانک صاحب بمعہ بھائی مردانہ
اور ساتھیوں کے ڈیرے میں رہائش پذیر تھے۔ ولی قندھاری بابا جی اپنے نظریات
کی تبلیغ سے بابا گورو نانک صاحب کو متاثر کرنا چاہا مگر بابا نانک صاحب نے
تاثر قبول نہ کیا۔ اس پر ولی قندھاری بابا جی کی کرامت سے پانی اوپر سے
نیچے آنا بند ہو گیا۔ بھائی مردانہ تین مرتبہ عاجزی کے ساتھ بابا گورو نانک
صاحب کا پیغام لیکر پہاڑ کے اوپر بابا ولی قندھاری جی کی خدم تمیں حاضر ہوا
مگر قندھاری بابا جی نہ مانے۔ آخر بابا گورو نانک صاحب نے بہت نیچے جہان کا
مسکن تھا۔ ایک پتھر اٹھایا تو بابا گورو نانک صاحب کی کرامت سے پانی کا
چشمہ پھوٹ پڑا اور اوپر کا پانی بالکل بند ہو گیا۔ ولی قندھاری بابا جی نے
طیش میں آکر ایک بہت بڑی چٹان کو اپنی کرامت سے سرکا دیا جسے بابا گورو
نانک صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ چٹان پر بابا گورو نانک صاحب کے
پنجے کا نشان اور پانی کا اُبلتا ہوا چشمہ اب تک موجود ہیں۔ بابا گورو نانک
صاحب کی کامیابی نانک صاحب کی عاجزی تھی اور ولی قندھاری بابا جی کی حذہمت
ان کا غرور تھا۔
حسن ابدال میں بابا گورو نانک صاحب کی کرامت کا گواہ پنجہ صاحب آج بھی بابا
گورو نانک صاحب کی پیروکار سکھ قوم کے لئے ایک مقدس مقام ہے جس کی یاترہ ہر
خالصہ کے دل کی دھڑکن، نجات کی راہ اور زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے
اور سکھ یاتریوں کے لیے پاکستان کے مسلمانوں کے دلوں کے دروازے ہر وقت کھلے
اور اﷲ تعالیٰ کی واحدانیت پر یقین رکھنے والی قوم کے لئے آنکھیں فرشِ راہ
ہوتی ہیں۔
بابا گورو نانک صاحب کی دنیا سے پردہ پوشی بھی 69برس کی عمر میں 22ستمبر
1539ء میں ضلع نارروال کی تحصیل کرتار پورہ میں ہوئی تو باباکی تجہیز و
تکفین کے لئے ہندوؤں نے مطالبہ کردیا کہ بابا نانک ہندو تھا اس لیے اس کا
کریا کرم شمشان گھاٹ میں چتا کرکے کریں گے۔ ادھر مسلمان بھی انتہائی اشدخال
میں تھے کہ بابا گورو نانک صاحب نے کبھی بتوں کو خدا نہیں مانا نہ کبھی
مندر میں گئے نہ کسی پتھر کے خدا کی پوجا کی بلکہ ہمیشہ اﷲ کیے ایک ہونے کا
پرچار کیا۔ بت پرستی سے منع کیا اور واحدانیت کے گیت گائے۔ بابا نانک کا
لباس بھی سبز رنگ کا اور اس پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ بابا نانک ہر گز
ہندو نہیں تھا وہ مسلمانوں کی طرح رب کو ایک ماننے والا تھا۔ اس لیے ہم
بابا کو دفن کرینگے۔ ہندو مسلم جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے گورنر پنجاب بہلول
خان لودھی نے حکم دیا کہ بابا نانک صاحب کے جسد خاکی کو شاہی حویلی میں لاؤ۔
گورنر نے حویلی کے ایک میں بابا گورو نانک صاحب کی میت کو رکھ کر تالا لگوا
دیا اور دونوں فریقوں سے کہا کہ آپ سب کل صبح آ جائیں فیصلہ ہوگا۔ دوسرے
روز دونوں فریق آکر جمع ہو گئے۔ گورنر نے کمرے کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔
دیکھا تو بابا جی غائب تھے صرف پھول پڑے ہوئے تھے۔ گورنر نے کہا کہ دیکھا
تمہارے جھگڑے کی وجہ سے بابا جی رخصت ہو گئے۔ اب تم لوگ بھی جاؤ۔ آدھے پھول
ہندو لے جائیں اورجاکر چتا کردیں اور نصف پھول مسلمان لے جاکر دفن کردیں۔
بابا گورو نانک صاحب مسلمانوں کی طرح صرف ایک خدا کو ماننے والوں میں سے
تھا اس لیے مسلمان گورنر بہلول خان لودھی نے راتوں رات شاہی قبرستان میں
بابا جی کے جسد خاکی کو سپردخاک کردیا۔ بابا گورو نانک ہمیشہ مسلمان فقرا
کا لباس لے کر پہنا کرتے تھے۔ آج امرتسر کے گوردوارہ گولڈن ٹیمپل کی بندھک
کمیٹی کی تحویل، حفاظت اور بہترین ذمہ داری میں ہے۔ سبز رنگ کے لباس پر
قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ حضرت علیؓ کی تلوار ’’زلفقار‘‘ بھی بابا جی صاحب
کے اس لباس کے ساتھ ہے۔ اس لیے وہ احمق جو یہ کہتا ہے کہ بالا نانک صاحب
ہندو تھے وہ جھوٹا ہے۔ کیا بابا جی صاحب کے لباس کا رنگ گیری کا رنگ ہے،
کیا بابا جی کے لباس کی بغل میں چھری ہے یا زلفقار، کیا بابا صاحب بت پرست
تھے یا رب واحد کے پجاری۔
صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے زمانہ میں تارا سنگھ صاحب جب
پاکستان کے دورہ پر آئے تو ایوب خان کی یاددھانی کے جواب میں تارا سنگھ جی
نے کہا تھا کہ زلفقار امانت ہے، وقت آنے پر سپرد کردینگے۔
بابا گورو نانک صاحب اپنی پوتہ تصنیف ’’جنم ساکھی‘‘ کے صفحہ نمبر 327پر
گورمکھی میں صاف لکھا ہے کہ
لکھیا وچ کتاب دے کہ اول ایک خدا
دوجا نام محمدؐ دا، جس چانن کیتا
ایسے صاحب کشف و کرامت بزرگ جو ایک خدا اور ایک رسول کی گواہی دیتا ہو اس
کو ہندو کہنے کا ارتکاب کون بدبخت کرسکتا ہے۔ ہندو بنیاد پرستوں نے
ہندوستان جو ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور سب کا وطن تھا پہلے ہندی، ہندو
اور ہندوستان بناکر پھر بھارت، مہا بھارت اور اکھنڈ بھارت بنانے کے لئے
بابا گورو نانک کی عظیم سکھ خالصہ قوم کو اپنے خود غرض آئین میں سکھوں کو
بھی دھوکہ دینے کے لئے ہندو لکھ دیا کہ یہاں سکھ بھی ہندو ہیں، سکھ نہیں۔
بھارتی آئین ایک قوم کے ساتھ تاریخی دھوکہ ہے جو ہندو قوم سے بالکل مختلف
قوم ہے۔ ہندوؤں کے خداؤں کے کئی بت ہیں جبکہ سکھ خالصہ صرف اور صرف اپنے رب
کے ایک ہونے کی تصدیق کرنے والے گورو گرنتھ صاحب کو سجدہ کرتا ہے۔ جس کی
تعلیم بابا نانک صاحب نے اپنی پنجابی زبان گورمکھی میں ترتیب دے کر جنم
ساکھ کے نام سے محفوظ ہے جس کے سامنے ہر خالصہ سجدہ ریز ہوتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان سکھ خالصہ جنتا کے لیے انتہائی مقدس سرزمین ہے۔
پاکستان کا استحکام، سالمیت اور تقدس سکھ قوم کا مذہبی فریضہ ہے۔ حسن ابدال
کو گوردوارہ پنجہ صاحب کے علاوہ گوردوارہ ننکانہ صاحب، ڈیرہ پنجویں شاہی
لاہور، بادشاہی مسجد اور قلعہ لاہور کے قریب سمادی رجیت سنکھ، شرائین
گوردوارہ ارجن دیو دریائے راوی نزدیک واقعہ ایسی یادگاریں ہمیشہ پاکستان کے
مسلمانوں اور سکھوں کے تاریخی مراسم پر دلارت کرتی رہیں گی۔ یہی نہیں بلکہ
امرتسر میں سکھ خالصہ قوم کی سب سے بڑی عبادت گاہ شری دربار صاحب، شری
ہرمندر صاحب، گوردوارہ گولڈن ٹیمپل جو تین مقدس ناموں سے موسوم دنیامیں
سکھوں کی سب سے بڑی پُرشکوہ اور فن تعمیر کا شاہکار عبادت گاہ سکھوں کا
گوردوارہ بھی اس دور کے صاحب طریقت مسلمان ولی اﷲ میاں میر صاحب نے رب
العالمین کو رب واحد کی واحدانیت کے پرچار کے لئے بابا گورو نانک صاحب کے
نقش قدم پر چلنے والے بزرگ اکالی خالصہ سکھ کے پانچویں گورو ارجن صاحب کی
خوشنودی کے لئے 1635ء میں سنگ بنیاد رکھا۔ یہ حضرت میاں میر بابا کی زندگی
کا آخری سال تھا۔
شری دربار صاحب کی زمین گورو رام داس نے خرید کر دی۔ گورو ارجن صاحب کے
نقشہ کے مطابق مشرق، مغرب، شمال اور جنوب کے چار دروازوں کی عظیم الشان
عمارت کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز 1570ء میں ہوا اور 1577ء میں تکمیل پذیر
ہوا۔ میاں میر صاحب کے والد محترم کا نام قاضی سائیں اﷲ دتہ تھا۔ حضرت میاں
میر صاحب 1550ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شجرہ نسب ستائیسویں نسبت سے جناب سید
نا فاروق اعظمؓ سے ملتا ہے۔ آپ فقط سات برس میں یتیم ہو گئے اور والدہ
صاحبہ نے نامساعد حالات میں اپنے لخت جگر میاں میر ؒصاحب کی پرورش، تعلیم و
تربیت اور روحانیت سے آراستہ کیا۔ 28برس کی عمر میں لاہور تشریف لائے اور
ریاضت و مجاہدہ اور شب زندہ داری میں محو ہو گئے۔ سلسلہ قادریہ بابا حضرت
وسطانیؒ کے ہاتھ پر بیعت تھے۔ ان کے ہاں عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا تھا۔ بڑے
بڑے صاحب سروت نواب حکمران اور رئیس حاضر ہو کر دعا لیتے۔ آپ مغل شہزادہ
دارہ شکوہ کے مرشد، مدرس اور مہربان بزرگ تھے۔ 1635ء میں 85برس کی عمر میں
اپنے رب ذوالجلال کو پیارے ہوگئے اور ہاشم پورہ لاہور میں سپرد خاک ہوئے جس
کا نام اب بستی میاں میر صاحب سے موسوم ہے۔ سات ربیع الاؤل کو ہر سال آپ کا
عرس ہوتا ہے۔ زیارت کو عرق گلاب سے غسل دیا جاتا ہے جس سے فضاء معطر ہو
جاتی ہے۔ عرس شریف کی عطربیز ساعتوں میں مسلمانوں کے ابنوہِ کثیر میں بعض
عقیدت مند سکھوں کی شمولیت کا سلسلہ بھی صدیوں سے یقینی ہے۔ ہندوؤں نے پورے
پنجاب پر برہمنی رام راج قائم کرنے کے لئے سکھ قوم کو سیاسی طور پر ہندو
قوم میں ضم کرنے کے لئے خوامخواہ ہندو قرار دے دیا اور جب سکھ قوم میں
بیداری کی لہر اُٹھی اور خالصتان کے قیام کے نعرہ حق نے مطالبے کا روپ
دھارا تو ہندو سکھوں کا بھی اسی طرح دشمن ہو گیا جس طرح تقسیم ہند سے اب تک
مسلمانوں دشمن ہے اور ہر وقت انتقام کی چتا میں سلگتا رہتا ہے۔ جو اب
انتہاء پرست، بنیاد پرست اور دہشت پسند ہونا ہندو کی فطرت بن چکا ہے۔ 1984ء
میں گجرات کے احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں بھارتی وزیر اعلیٰ نریندر
مودی نے اندرا گاندھی کے سکھ باڈی گارڈ کے ہاتھوں قتل کی پاداش میں سکھوں
اور مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرا کر قتل عام کروایا اور کہا کہ پولیس کو
سکھوں اور مسلمانوں پر غصہ اتارنے کا موقع دیا جائے۔ اس حکم کے بعد بے گناہ
سکھوں کو زندہ جلایا گیا۔ نریندر مودی کی نیت سوز بربریت اور دہشت گردی کی
تصدیق جسٹس ناناوتی کی رپورٹ اور سپریم کورٹ کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ سپریم
کورٹ کے جسٹس جی جی ساونت، ممبئی ہائیکورٹ کے جسٹس سدریش نے بھی نریندر
مودی کے حکم FREEHAND کی تصدیق کی۔ ان کے باوجود نام نہاد سیکولر سرکار کے
وزیر اعلیٰ کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ اس کے حکم پر دو سو
مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔ مسلم کش اور سکھ کش فسادات کی منصوبہ بندی،
سازش اور قابل مذمت حرکت پر سونیا گاندھی اور من موہن سنگھ باقاعدہ معافی
مانگ چکے ہیں مگر نریندر مودی نے اب تک نہیں مانگی۔
مثل مشہور ہے کہ ہندو پہلے سوچتا ہے، مسلمان اسی وقت سوچتا ہے اور سکھ بعد
میں سوچتا ہے۔ ہندو مطلب پرستوں نے اپنی مطلب پرست پالیسی سے سکھوں کو
استعمال کرتے ہوئے ہندی، ہندو اور ہندوستان کی منزل طے کرلی اور فوراً ہی
ہندوستان کو بھارت، مہابھارت اور اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے پر عملدرآمد شروع
کردیا جب سکھوں پر نام نہاد سیکولر ازم کا پول کھلا تو سکھ قوم نے 1980ء کی
دہائی میں پوری شدومد سے خالصتان کی تحریک کا آغاز کردیا جس کا مرکز امرتسر
بنایا۔ بیرون ملک سکھ خالصہ نے دل و جان سے مالی، اخلاقی اور سیاسی امداد
شروع کردی۔ کینیڈا کے سکھ عوام کی مالی امداد غیر معمولی حد تک تھی۔ کینیڈا
کے سکھ نوجوانوں پر بھارت کا طیارہ اغوا کرنے کا الزام بھی آزادی کی جدوجہد
کا حصہ تھا۔
سکھ خالصہ خالصتان کے نام سے جنوبی پنجاب پر مشتمل، پاکستان اور بھارت کے
درمیان ایک آزاد اور خود مختار سٹیٹ کا قیام عمل میں لاکر مسلمان اور ہندو
اقوام کے مابین سکھ خالصہ کی عظمت رفتہ کو اجاگر کرکے خطے کو ابدی استحکام،
حتمی آزادی اور امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہندوؤں نے خالصتان کا نام
سنتے ہی ’’بلیو سٹار آپریشن‘‘ کی تلوار بے نیام کردی اور 3تا 8 جون 1998ء
کے پانچ دنوں میں امرتسر کو سکھ عوام کے خون سے نہلا ڈالا۔ جنرال سنگھ
بھنڈرا والا بھی بے دردی سے قتل ہوئے۔ اکالی تخت اور مختلف تاریخی مذہبی
عمارات کو بابری مسجد کی طرح مسمار کردیا گیا۔ 140سے 200 جنگجو مارے گئے۔
492سے 5000تک سکھ شہری قتل کر دیئے گئے۔ یہ قتل و غارت گری بھی اندراگاندھی
کے قتل کا انتقام قرار دی گئی۔ اس قتل عام میں شریک بھارت کی سینٹرل ریزرو
پولیس فورس، بارڈر سکیورٹی فورس، پنجاب پولیس، معاون کے طور پر فضائی سروس
کی خصوصی فورس محدود عسکریت پسند سکھ، میجر جنرل کلدیپ سنگھ برار، لیفٹیننٹ
جنرل رنجیت سنگھ دیال اور لیفٹیننٹ جنرل کرشنا سوامی سندراجی شامل تھے۔
ادھر سکھوں کی طرف سے سنت جرنیل سنگھ بھنڈارے والا بھائی امرسنگھ اور شائیک
سنگھ تھے۔ خالصتان کی تحریک کو کچلنے کے لئے نائن ڈویژن کے دس ہزار جوان
اور نیشنل سکیورٹی گارڈ کے علاوہ 75پیرا شوٹ رجمنٹ، توپ خانہ یونٹ، سی آر
پی ایف کی چوتھی ڈویژن کے سات سو جوان اور بی ایس ایف ساتویں بٹالین نے
شرکت کی جبکہ پنجاب مسلح پولیس کے ایک سو پچاس جوان اور ہروندر پولیس
اسٹیشن کے افسران، انڈین پولیس فورس اور فوج کے 136جوان ہلاک ہوئے۔
بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے 31جنوری 1984ء میں پاکستان کا خفیہ دورہ
کیا۔ 30برس بعد بھارتی وزیر اعظم کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اس دورے کے دوران
راجیو گاندھی نے پاکستان کی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو
اور آصف علی زرداری سے خفیہ مذاکرات کیے۔ پاکستان کی روایتی معذرت خواہانہ
پالیسی کی وجہ سے دارالسلطنت اسلام آباد سے ’’کشمیر ہاؤس‘‘ کا بورڈ اتروا
دیا گیا۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پر بات چیت ہوئی اور سکھوں کا مسئلہ
خالصتان زیر غور آیا۔ نتیجہ یکم فروری کی شب ایک دستاویزی فہرست کے مطابق
خالصتان کے حامی 4500سکھ نوجوان کارکن چن چن کر موت کے گھاٹ اتار دیے گئے
اور خالصتان کی تحریک ایک طویل عرصہ تک التوا میں چلی گئی۔ مگر خالصہ جنتا
کے دلوں میں آزادی کی چنگاریاں آج بھی شعلے بن کر بھڑکنے کے لئے بیتاب ہیں۔
سکھ قوم بابا گرو نانک صاحب کے پیروکاروں کی ایک علیحدہ قوم ہے جو کسی طور
بھی بت پرست ہندو مت کا حصہ یا فرقہ نہیں ہے۔ ہندو کی زبان ہندی اور سکھ
خالصہ زبان خالص گورمکھی ہے ہندو کئی بتوں کو خدا بنا کر پوجتا ہے۔ ذات پات
اور چھوت چھات کی مہلک بیماری ہندو کا دھرم ہے۔ اقلیتوں کے نظریات، عقائد
اور مذہبی وجود کا دشمن ہے۔ سکھ اور مسلمان صرف ایک خدا کو اپنا رب مانتے
ہیں اور اسی کی واحدانیت کا پرچار کرتے ہیں اس لیے اگر مسلمان ہندو نہیں
ہوسکتا تو سکھ بھی ہندو نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی ہندو اپنے آپ کومسلمان
یا سکھ کہلا سکتا ہے۔ اس لیے سکھ ایک علیحدہ قوم ہے اور اپنے ایک علیحدہ
وطن کی حقدار ہے۔ جہاں وہاپنے گرو صاحب کے عقائد گرنتھ صاحب کی تعلیمات اور
طرز معاشرت کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ زمانے کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر
سکیں اور آزادی کی نعمتوں سے فیضیاب ہوسکیں۔ |