یہ ہیں وہ الفاظ جو آپ کو ہر دفتر، سیاسی
، وڈیرے کے ہاں جلسے، جلوسوں، چوک ، چوراہوں ، گلیوں اور بازار میں سننے کو
ملیں گے۔ اگر آپ نے ان کی بات کو توجہ سے نہ سنا ، ان کی شکایت کا ازالہ نہ
کیا، چائے پانی پیش نہ کی تو کیوں کہ یہ طبقہ معاشرے کا حساس ترین طبقہ
ہوتاہے اس لئے آپ کے خلاف کوئی نہ کوئی سکینڈل دوسرے دن نمایاں سرخی کے
ساتھ اخبار کی زینت ہوگا۔ صحافی کیلئے پہلے تو تعلیم، سند ضروری تھی اب اس
کی جگہ اشتہار وصولی کرنے اور مال کمانے کی صلاحیت نے لے لی ہے جو اپنے
اخبار کے مالکان کو زیادہ سے زیادہ منافع کماکر دے سکے وہ ہی زیادہ قابل ہے۔
اس کیلئے وہ کوئی بھی حربہ استعمال کرے اس کی اکثر مالکوں کو کوئی پرواہ
نہیں ہے۔ صحافی کیلئے پہلے قلم کاغذ ضروری تھے، اب ساتھ میں کیمرہ، چینل کا
لوگوگلے میں لٹکا ہونا اور اخبار کی کاپی ساتھ ہونا ضروری ہے۔ آج کل دفاتر
میں براجمان افسران کا دل کے امراض میں مبتلا ہونے کی بڑی وجہ بھی ان کے
مطابق صحافی حضرات ہیں۔ جو ہر آن ہر گھڑی انہیں بمعہ کیمرہ کے دھمکانے
آجاتے ہیں۔ جس کے باعث ان کا بلڈ پریشر اوپر نیچے ہونے کے ساتھ ساتھ دل کی
دھڑکن بھی تیز ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ 99فیصد دفاتر میں براجمان افسران کرپٹ
ہیں اسلئے انہیں خطرہ ہوتاہے کہ کہیں ہماری کرپشن کا چرچا اخبار یا چینل پر
نہ آجائے۔ اس لئے انہوں نے اب بندوبست کرلیاہے وہ اب دفاتر میں ہونے والے
ٹھیکوں کے رنگ کی رقم میں سے صحافیوں کو باقاعدہ حصہ دیتے ہیں تاکہ ان کا
منہ بند رہے۔ اسی طرح اب بعض این جی اوز نے بھی صحافیوں کو ڈمی قسم کی
سکیمیں اور پراجیکٹ دے کر نوازنا شروع کردیاہے۔ صحافی حضرات جب خاموش رہتے
ہیں اپنے مقدس قلم کا چند ٹکوں کی خاطر سودا کرتے ہیں تو پھر دوسرا کون ہے
جو کرپشن کے بڑھتے ہوئے رحجان کے خلاف صدائے حق بلند کریگا۔ مظلوم کی آواز
کو ذمہ دار ارباب اختیار تک پہنچائے گا۔ مظلوم کی داد رسی کروائے گا،
مریضوں کو خونخوار ڈاکٹروں کے چنگل سے چھٹکارا دلوائے گا۔ ہمارے سیاستدانوں
میں تو اہلیت ہے ہی نہیں اور نہ ہی ان میں کوئی جذبہ ہے اور نہ ہی خدا کا
خوف۔ وہ ایم پی اے اور ایم این اے بنتے ہی اسی جذبے کے تحت ہیں کہ مال
لگائیں گے اور پھر کمائیں گے۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ بعض ایسے صحافی بھی
موجود ہیں جو انگریزی کی الف ب بھی نہیں جانتے لیکن انگریزی اخبار کے
رپورٹر بنے پھرتے ہیں۔ ہمارے بعض صحافی تو سیاست بھی کرتے ہیں ۔اب سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ ملک کا یہ چوتھا ستون ہی کیا صرف تباہی و بربادی کا طرف
گامزن ہے یا اس میں کچھ بہتری آرہی ہے یقینا ہمارے تمام ادارے زبوں حالی
تنزلی کا شکا رہیں، عدلیہ مقننہ انتظامیہ سب کی حالت دگرگوں ہے۔ کوئی بھی
اپنی ذمہ داری کو ایمانداری سے اد اکرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس لئے عوام
الناس کے مسائل میں اضافہ کے ساتھ ساتھ کرپشن اور بیڈگورننس کی سطح اپنے
عروج پر ہے۔ صحافی حضرات بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، انہیں بھی اپنی دال
روٹی برابر کرنی ہوتی ہے اس کیلئے انہیں تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ لیکن ایسے
صحافی جنہیں انکا ادارہ بھاری معاوضہ دیتاہے وہ اگر زرد صحافت کا سہارا لے
تو افسوس ہوتاہے کہ انہیں رزق حرام سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا
چاہئے۔ ویسے حرام مال سے بچنا تمام اہل قلم حضرات کیلئے ضروری ہے۔ پہلے ایک
وقت تھا جب کسی کرپٹ آفیسر کے خلاف خبر لگتی تو اس کے خلاف ایکشن ضرور ہوتا
آج اخبارکے اخبار بھرے ہوتے ہیں لیکن کوئی ایکشن نہیں ہوتا اس کی بڑی وجہ
اخلا ص کا نہ ہونا ہے۔ اخلاص کے ساتھ عوام کی فلاح و بہبود ملک کی بقاء
ترقی و کامرانی کیلئے اپنے نااہل حکمرانوں کے خلاف کلہ حق بلند کرنا جہاد
ہے۔ لیکن اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے جیسی ہماری نیت ہوگی ویسے ہی اوپر
سے فیصلے ہوں گے۔ ہماری صحافی بھائیوں کا اکثر یہ گلہ ہوتاہے کہ فلاں نے
ہمیں مدعو نہیں کیا، عزت نہیں دی، گھاس نہیں ڈالی، پھر وہ لٹھ لے کر اس کے
پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ میں انہیں اکثر سمجھاتا ہوں کہ بھائی ایک تو صحافیوں کی
تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ سب کو مدعو کرنے کیلئے میزبان کو ایک چھوٹے
ولیمے کا بندوبست کرنا پڑیگا۔ دوسرے اگر کسی کو ہماری کوریج کی ضرورت نہیں
ہے تو ہمیں بھی انہیں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم کیوں خواہ مخواہ مہمان بننے کو
تیار ہیں۔ صحافیوں کی گروپ بندی نے بھی جہاں صحافیوں کو بے حد نقصان
پہنچایا ہے وہاں دوسری جانب اس کے باعث کرپٹ افسران و انتظامیہ کو بھی کھل
کر کھیلنے کا موقع مل جاتاہے۔ صحافی کو غیر جانب دار رہتے ہوئے بغیر کسی
ذاتی مفادات کے اپنی رپورٹنگ کرنی چاہئے اور خواہ مخواہ کسی کی پگڑی
اچھالنے سے گریز کرنا چاہئے کیوں کہ بروز قیامت ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے
کہ ہمیں اپنے ہر قول و فعل کا جواب دینا ہوگا حتی کہ اگر ہم نے آنکھ کے
اشارے سے بھی کسی کی غیبت کی ہے تو ہم جوابدہ ہوں گے۔ زبان سے صرف دو بولوں
کا حساب نہ ہوگا ایک دعوت کے بول اور دوسرے ذکر کے، باقی سب بولوں کے ہم
جوابدہ ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ کرام ؓ سے دریافت کیا ، فرمایا
کہ بتاؤ مفلس کون شخص ہے؟ صحابہ کرامؓ نے جواب دیا کہ اﷲ اور اسکا رسو ﷺ ہی
جانے، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا مفلس وہ شخص ہے جو بروز قیامت نیکیوں کے پہاڑ
لے کر حاضر ہوگا لیکن وہ معاملات میں پکڑا جائیگا۔ اس نے کسی کی غیبت کی
ہوگی، کسی کو گالی دی ہوگی، کسی کا حق مارا ہوگا، غرض اس نے جتنے بھی لوگوں
کے ساتھ زیادتیاں کی ہوں گی وہ تمام لوگ کھڑے ہوجائیں گے اپنے ساتھ کی جانے
والی زیادتیوں کے ازالہ کیلئے اﷲ تعالی اس نیک آدمی کی نیکیاں ان کے حوالے
کرتے جائیں گے حتی کہ تمام نیکیاں ختم ہوجائیں گی ابھی بھی حقدار باقی ہوں
گے تو پھر مظلوموں کے گناہ ا س شخص کے سر تھوپ کر اسے جہنم میں ڈال
دیاجائیگا۔ تو میری صحافی بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ کوئی بھی کالم یا خبر
چلانے سے پہلے اس کی اچھی طرح سے تصدیق کرلیا کریں تاکہ کل قیامت کے دن
مفلسوں میں ہمارا شمار نہ ہواور اپنے قلم کو ذاتی مفادات سے ہٹ کر اپنے ملک
، عوام کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کریں۔ کرپشن، بدامنی، اقرباء پروری،
فرقہ واریت، تعصب کی لعنتوں سے بھری ہوئی اس سوسائٹی میں ایسے قلمکار بھی
موجود ہیں جو اپنی قلم کا سودا نہیں کرتے، جو دفاتر کے طواف کرتے نظر نہیں
آتے اور نہ ہی صحافت کی آڑ میں سیاست کرتے ہوئے ان کی صحافت کا اولین مقصد
کلمہ حق بلند کرنا، مظلوم کی داد رسی کرنا اور ظالم کو کیفرکردار تک
پہنچانا ہے۔ آج کے دور میں پرنٹ میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا اس ذمہ
داری کو بخوبی سرانجام دے رہاہے۔ |