لفظ جہیز کی تحقیق کی جائے تو یہ چار حروف
پر مشتمل ہے، ج،ہ،ی،ز ج سے مراد ہے جزا، ہ سے ہمت ، ی سے یقین اور ز سے
ذندگی۔ مگر اب ج سے جرم ، ہ سے ہوس ، ی سے یلغار اور ز سے زہر کے لیے
استعمال ہوتا ہے۔ پہلے انسان سیدھا سادھا تھا نہ جہیز کو دیکھتا تھا نہ اس
کا مطالبہ کر تا تھا۔ اب پڑھا لکھا ہوتے ہی سب کچھ بدل گیا ہے، اس کی نظر
میں جہیز دینے کی چیز ہے لینے کی نہیں۔ لڑکی والوں کو جہیز دینا ہی چاہیے
اور لڑکے والوں کو ہر چیز مانگنی ہی چاہیے ۔ چنانچہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ
لڑکے والے بہو لانے تک جہیز اور جوڑے کو اپنا جائز حق اور مطالبہ سمجھتے
ہیں لیکن اپنی بیٹی کے بہو بننے کے وقت جہیز اور جوڑے کے مخالف بن جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ لینے کے لیے تیار کیوں اور دینے کے وقت انکار کیوں؟ ۔ ہمارے
معاشرے میں نہ جانے کتنی لڑکیاں اسی وجہ سے بن بیاہی رہتی ہیں کہ باپ کے
پاس انہیں دینے کے لیے جہیز نہیں ہوتا اور اگر شادی سر پر آہی جائے تو جہیز
کی شرط پوری کرنے کے لیے باپ کو بعض اوقات روپیہ حاصل کرنے کے لیے ناجائز
ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں اور وہ باپ بچارہ رشوت ، جعل سازی دھوکا، فریب
، خیانت جیسے جرائم کے ارتکاب پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اور اگر کوئی باضمیر
باپ ہے تو وہ اپنے آپ کو ناجائز ذرائع سے بچا کر قرض کے ادھار کے شکنجے میں
جکڑنے پر مجبور ہے، اور اوپر سے سب سے گھٹیا حرکت یہ کہ لڑکی کا شوہر یا
اسکے سسرال کے لوگ جہیز پر نظر رکھتے ہیں اور توقعات باندھی جاتی ہیں کہ
دلہن اچھا سا جہیز لائے گی جسے دیکھنے والے حیران رہ جائیں گے۔ افسوس کہ
معاشرے کی اصلاح اور تربیت کا کام جو کسی بھی قوم کی سنگ بنیاد کی حثیت
رکھتا کسی بھی شمار و قطار میں نظر نہیں آتا۔ ذہنی تربیت اور کردار سازی کا
کام خرافات میں ایسا گم ہوا ہے کہ اس کا نام ایک مزاخ معلوم ہوتا ۔ پہلے
شادی میں اصل چیز دلہن تھی مگر اب جہیز ہے ۔ چنانچہ معاملہ نیچے سے اوپر تک
بدل گیا ہے یعنی دلہن کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو جہیز کے بغیر بے کار ہو جاتی
ہے، اور دلہن کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو جہیز اچھا ہو تو قابل قبول بن جاتی
ہے۔ نہ لڑکے والے سوچتے ہیں کہ بعد میں کیا ہو گا نہ لڑکی والے۔۔ یہی وجہ
ہے کہ ذندگیاں تلخ ہو تی جا رہی ہیں اور قسم قسم کے فتنے اور جگھڑے سر اٹھا
رہے ہیں۔ پہلے زمانے میں محلے اور برادری کی خواتین دلہن کو دہکھنے اور
مبارک باد دینے کے لیے آتی تھیں ، اب جہیز اور کپڑے دیکھنے کے لیے آتی ہیں
۔ جہیز کو دیکھتے وقت پوچھا جا تا ہے کہ ٹی وی ہے یا یل سی ڈی؟ فریج کونسی
کمپنی کا ہے ؟ کمپیوٹر ہے یا لیب ٹاپ ؟ جاتے وقت بھی یہی کہا جاتا ہے کہ
لڑکا خوش نصیب ہے کہ اسکو اتنا اچھا جہیز ملا۔۔ جہیز ایک لعنت اور معاشرتی
برائی ہے اسکو ختم کرنے کے لیے افراد معاشرہ کو خود کوشش کرنی پڑے گی۔ |