منشیات پر کنٹرول کیسے ؟
(Falah Uddin Falahi, india)
منشیات پر کنٹرول کرنے کے لئے سرکاری سطح
سے لیکر سماجی سطح پر ہمیشہ سے کام ہوتا آیا ہے ۔آج بھی بڑے پیمانے پر اس
کو ختم کرنے کیلئے جگہ جگہ اقدام کئے جا رہے ہیں ۔مثلا ویلفیئر پارٹی آف
انڈیا نے تو مہم کے ذریعے دہلی کو منشیات سے نجات دلانے کیلئے باضابطہ مہم
چلا رہی ہے ۔اسی طرح ریاستی سطح پر شراب اور گھٹکا پر پابندی عائد ہے ۔بی
بی سی اردو کے مطابق ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح منشیات ہمارے سماج
کا ناسور بنتا جا رہا ہے اور کس طرح لوگ اس میں ملوث ہو رہے ہیں ۔’’دو روز
قبل کی ہی بات ہے۔ آفس سے گھر واپس ہوتے ہوئے ڈرائیور نے گاڑی غلط راستے پر
موڑ دی اور میرے ٹوکنے پر انھوں نے الزام بھی مجھ پر ہی لگا دیا۔کہنے لگے:
’آپ کافی دیر سے فون پر فلم ’اڑتا پنجاب‘ اور نشے سے متعلق بات کر رہی ہیں،
میری توجہ اسی پر تھی۔ میرا گاؤں پنجاب میں ہے، نشے نے تباہی مچا رکھی ہے۔
ہمارے گاؤں میں اس نشے کو چٹّا کہتے ہیں۔ اب اس پر فلم بن رہی ہے تو اس میں
نشہ خوری بھی نہ دکھائیں؟‘ڈرائیور کی اس بات سے مجھے احساس ہوا کہ منشیات
کے موضوع پر بننے والی فلم ’اڑتا پنجاب‘ اور سنسر شپ کے درمیان موجودہ
تنازع اتنا بڑا ہو گیا کہ جس مسئلے کو اس فلم میں اٹھایا گیا تھا وہ تو پس
پردہ چلا گیا ہے پنجاب کا ایک گاؤں مقبول پورا ہے جہاں منشیات کے استعمال
کی وجہ سے اتنے مردوں کی موت ہو چکی ہے کہ اسے ’ولیج آف وڈوز‘ یعنی بیواؤں
کا گاؤں کہا جاتا ہے۔سنہ 2009 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران پنجاب کا دورہ
کیا تھا اور کسانوں کی بدحالی پر ایک رپورٹ کرنے کے سلسلے میں ایک بوڑھے
کسان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے اپنی بات یوں کہی تھی: ’میرے کھیتوں کی
رونق تو لوٹ آئے گی۔ ان بوڑھی ہڈیوں میں اتنا دم ہے، لیکن میرے گھر کی رونق
کس طرح لوٹے گی۔ نشے نے میرے بیٹے کو کھا لیا ہے۔‘اس مسئلے پر ہونے والے
مختلف جائزوں کی رپورٹوں سے بھی اسے بہت سنجیدہ مسئلہ بتایا گیا ہے۔مرکزی
حکومت کے ایک محکمے نے اسی سلسلے میں ایک سروے کروایا تھا جس کے مطابق
پنجاب میں منشیات اور ادویات کی عادت کی زد میں تقریباً 2 سے3 لاکھ لوگ ہیں۔
جبکہ قریب 8.6 لاکھ لوگوں کے بارے میں اندازہ ہے کہ انھیں اس کی عادت تو
نہیں ہے لیکن وہ منشیات کا استعمال کرتے ہیں ریاست میں منشیات کی مقبولیت
کی جھلک پنجابی نغموں اور موسیقی میں بھی نظر آتی ہے۔ خاص کر جس طرح سے
شراب کو مردانگی سے جوڑ کر آج کل پنجابی گانوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے
اس طرح کی تصویر بنتی ہے کہ منشیات کا استعمال بڑی شان کی بات ہے۔ریاست
پنجاب میں حالات اور بگڑ گئے جب ہیروئن کی سمگلنگ بڑے پیمانے پر شروع ہوئی۔
پنجاب میں پاکستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں مسئلہ سب سے زیادہ ہے جہاں
افغانستان سے آنے والی ہیروئن کو بھارت میں سمگل کیا جاتا ہے۔۔اسی برس بی
ایس ایف نے پنجاب کی سرحد پر کم سے کم چھ بار ہیروئن کی سمگلنگ کے کیس درج
کیے ہیں۔راہل گاندھی نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں جب یہ بیان دیا تھا
کہ پنجاب میں 70 فیصد لوگ نشے کے شکار ہیں، تو اس پر کافی واویلا مچا تھا
اور کہا گیا کہ اس بارے میں اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر بتائے جا رہے ہیں۔
پھر بات سیاست کی نذر ہوگئی۔اس بات پر اختلافات ہو سکتے ہیں کہ پنجاب میں
کتنے فیصد لوگ منشیات کے عادی ہیں لیکن اس سے زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں اس
کے آثار تو اب ہر طرف نظر آتے ہیں۔بھنگڑا اور سرسوں کے کھیتوں والے پنجاب
کی کئی سچائیاں اور بھی ہیں جو پنجابی فلموں میں بھی گاہے بگاہے ہی نظر آتی
ہیں۔فلم ’اڑتا پنجاب‘ کے بہانے ہی سہی جن بوتل سے باہر نکلا تو ہے۔ ورنہ تو
ایسے پنجابی گانوں سے کام چلانا پڑتا ہے جس میں لڑکا لڑکی سے کہتا ہے کہ
’صرف ووڈکا نہ مارا کرو، تھوڑا بہت لمیا وی پا لیا کرو‘۔ اور اس پر سینسر
بورڈ کی قینچی بھی نہیں چلتی۔‘‘اس طرح یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ سماجی
برائی کو اجاگر کرنے والی فلم نکیل لگانے کی کوشش اور فحاشہ فلم کی ریلیز
میں کوئی روک ٹوک نہیں ،کہیں ہماری تہذیب کو بدلنے کی منصوبہ بند کوشش تو
نہیں کی جارہی ہے۔ |
|