کون ہے دہشت گرد؟
(Falah Uddin Falahi, India)
دہشت گرد لفظ آتے ہیں ذہن میں عجیب و غریب
شکل سامنے آجاتا ہے اور ایک تصویر بن جاتی ہے آگ و خون کی ہولی کی ۔لیکن ہم
صرف انہی باتوں کو دہشت گرد کے زمرے میں شامل کرتے جنہیں ہمیں میڈیا دکھاتا
ہے اور ہماری ذہن سازی کرتا ہے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ عناصر جس کی
وجہ سے انسان خوف و ڈر میں مبتلا ہو جائے دہشت گردی ہے چاہے وہ کوئی جانور
ہو یا پھر کسی کی کارستانی ۔ہم اکثر سماج میں ایسے دہشت کا سامنا کرتے رہتے
ہیں لیکن اسے ہم دہشت گرد نہیں مانتے بلکہ ہمارا ذہن یہاں تک پہنچتا ہی
نہیں ہے ۔سماج میں امن و آمان میں خلل ڈالنے والا بھی دہشت گرد ہوتا ہے
لیکن فی زمانہ اس کی اصطلاح بدل چکی ہے اس لئے ہم اپنے ارد گرد کے دہشت گرد
کو دہشت گرد نہیں مانتے ہیں ۔اسی قبیل کی ایک مثال ہم ایک جانور سے لیتے
ہیں جس کی دہشت گردی زمانے قدیم سے ہندستان میں جاری ہے ۔اس کے لئے طرح طرح
کی پالیسی بھی بنائی گئی اور فوج کی مانند ایک دستہ بھی بنایا گیا ہے جسے
ہم ڈاگ اسکواڈ کے نام سے جانتے ہیں ۔کبھی کبھی محلے میں ہمارے اردگرد یہ
دستہ چکر لگانے آتا ہے جس کے پاس ایک پنجرے نما گاڑی بھی ہوتی ہے اور اس
میں دوچار کتے بھوکتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔بچے اسے تعجب سے دیکھتے ہیں جیسے
چڑیا گھر کا ایک ڈبہ روڈ پر دوڑایا جا رہا ہے ۔لیکن حقیت میں ایک سماج میں
ہمارے پاس گزرنے والے دہشت گرد ہیں جو انسان کو خوف میں مبتلا کر دیتے ہیں
۔ہر بائک اور کار کے ٹائر میں کاٹنے کے لئے دوڑ لگاتا ہوا ہم سڑکوں پر
دیکھتے ہیں ۔نا جانے اس جانور کو بائک اور کار کے ٹائر میں کون سا دشمن نظر
آتا ہے یہ ایک تحقیق کا موضوع ہے ۔لیکن اس کی دہشت سے کئی بار ایسا ہوتا ہے
کہ موٹر سائکل سوار دہشت میں اپنے بائک سے گر بھی جاتا ہے اور کئی کو دیکھا
گیا ہے کہ وہ بڑبڑا کر کتے کو گالی تک دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کو دیکھ کر
راہ گیر ہنسنے لگتے ہیں ۔یہ کھیل اب شہری علاقوں میں جاری ہے ۔اور اگر رات
ہوگئی اور گلی محلے سے اسپتال کے لئے ایمر جنسی کے موقع پر جانے کی نوبت
آگئی تو یہ دہشت گرد کی مانند راستے میں خوف بھونکتے ہیں ۔مارچ کے مہینے
میں ممبئی کی سول اتھارٹی نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ممبئی میں سنہ
2008 میں ہونے والے حملوں اور 1993 کے سلسلہ وار بم دھماکوں میں جتنے لوگ
ہلاک ہوئے تھے اس سے زیادہ لوگ گذشتہ 20 برس میں شہر میں آوارہ کتوں کے
کاٹنے سے ہلاک ہو چکے ہیں۔سپریم کورٹ میں ممبئی میونسپلٹی کی جانب سے داخل
کردہ ایک درخواست کے مطابق سنہ 1994 سے 2015 کے درمیان کتوں کے کاٹنے سے
پھیلنے والے زہریلے وائرس سے 434 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اس کے مقابلے میں ان
دو بڑے حملوں میں 422 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ 20 برس کے
دوران شہر میں تقریباً 13 لاکھ افراد کو آوارہ کتوں نے کاٹا ہے۔لیکن
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ دہشت گرد
حملوں سے ہلاکتوں کا اس طرح کا موازنہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔آوارہ کتوں
سے ڈرنے اور کاٹنے کے معاملات عدالتوں میں آتے رہے ہیں لیکن سپریم کورٹ میں
اس طرح کے مقدمات کی سماعت دلچسپی کا موضوع ہے۔اس کی وجوہات بڑی آسان سی
ہیں۔ ملک میں تقریبا تین کروڑ جنگلی اور آوارہ کتے ہیں اور ہر برس کتوں کے
کاٹنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے زہریلے وائرس سے تقریباً 20 ہزار افراد
ہلاک ہوتے ہیں۔’گلوبل الائنس فار ریبیز کنٹرول‘ نے گذشتہ برس اپنی رپورٹ
میں کہا تھا کہ عالمی سطح پر کتے کے کاٹنے سے جو وائرس پنپتا ہے اس سے
بھارت میں 35 فیصد لوگ ہلاک ہوتے ہیں یعنی دنیا میں کتا کاٹنے سے مرنے والے
افراد کی سب سے زیادہ تعداد ہندوستان میں گذشتہ ماہ ہی جنوبی ریاست کیرالا
میں عدالت نے حکومت کو اس شخص کو 40000 ہزار روپے کا معاوضہ ادا کرنے کا
حکم دیا تھا جس کی بیوی کو ایک آوارہ کتے نے کاٹا تھا جس کے بعد ان کی موت
ہوگئی تھی۔حکام کا کہنا ہے کہ ریاست میں تقریبا دس لاکھ آوارہ کتے ہیں اور
جن ،23000 لوگوں کو کتّوں نے کاٹا ان میں سے تقریبا نصف لوگ اس زہریلے مادے
سے متاثر ہوئے۔ریاست کشمیر میں حکام کا کہنا ہے کہ سنہ 2008 اور 2012 کے
درمیان تقریبا50000 مقامی لوگ کتّوں کے کاٹنے سے متاثر ہوئے جن میں سے
درجنوں لوگ اس کے وائرس سے ہلاک بھی ہوئے۔جانوروں کے لیے کام کرنے والے
کارکنان کا کہنا ہے کہ کتوں کی آبادی پر کنٹرل کے لیے شہری انتظامیہ اور
بہت سے ناراض لوگ کتوں کو مارنے کے لیے انہیں زہر دیتے، گولی مارتے اور
دیگر مختلف طریقے اپناتے ہیں۔بہت سے علاقوں میں جب لوگ کتوں کی بڑھتی تعداد
سے پریشان ہوتے ہیں تو انہیں مارنے یا کنٹرول کرنے کے لیے دوسروں کی مدد
بھی طلب کرتے ہیں۔کئی بار اس کے لیے زہریلے انجیکشن بھی استعمال کیے جاتے
ہیں۔2012 میں ریاست پنجاب کے ایک سیاسی رہنما نے کتوں سے پریشان ہوکر ایک
بیان دیا تھا جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔کتے اکثر لوگوں کو کاٹنے لگے تھے
جس پر انہوں نے کہا تھا کہ ایسے کتوں کو چین یا بھارت کی شمال مشرقی
ریاستوں میں چھوڑ دیا جانا چاہیے جہاں لوگ کتوں کو شوق سے کھاتے ہیں۔دلی کے
جن علاقوں میں ارکان پارلیمان رہتے ہیں وہاں پر کتوں کو سنبھالنے کے لیے
ایک پارلیمانی کمیٹی اس بات کا تفصیلی جائزہ لے رہی ہے کہ آخر ان سے کیسے
نمٹا جائے۔ملکمیں سنہ 2001 سے ہی کتوں کے مارنے پر پابندی عائد ہے لیکن اس
کے باوجود کئی ریاستوں نے ان پر قابو پانے کے لیے انہیں تلف کرنے کے مختلف
طریقے اپنائے ہیں۔2008 ممبئی میں ایک بار خود عدالت نے باؤلے کتوں کو ہلاک
کرنے کا حکم دیا تھا لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے اس حکم کو کالعدم قرار
دیتے ہوئے اس کی جگہ کتوں کی نس بندی کرنے کا حکم دیا تھا۔لیکن ٹیکہ لگا کر
ان کے وائرس کو ختم کرنے کے اس پروگرام پر صحیح طریقے سے عمل نہیں ہوپایا۔
یہ پالیسی بھی مرکزی فنڈنگ اور نوکر شاہی کی کوتاہیوں کی نذر ہوگئی۔بعض
ریاستوں میں اس پر عمل کیا گیا ہے اور شمال مشرقی ریاست سکّم نے اس پر سب
سے اچھا کام کیا جہاں تقریبا سبھی کتوں کو ٹیکہ لگ چکا ہے جس سے ریاست کے
تمام کتے مہلک وائرس سے پاک ہیں۔ملک میں آوارہ کتوں کو غیر مہلک بنانے کے
لیے سستے ٹیکوں کی ضرورت ہے اور اس پر باقاعدہ کام کرنے کی بھی ضرورت
ہے۔دوسرے تمام طریقے اب تک ناکام ثابت ہوئے ہیں اور اگر اس پر کام کیا جائے
تو کتے کے کاٹنے سے ہونے والی اموات سے بچا جا سکتا ہے۔(مذکورہ معلومات بی
بی سی اردو سے ماخوذ ہے)بہتر ہوگا کہ اس دہشت گرد سے نمٹنے کے لئے حکومت
ہند کوئی لائحہ عمل تیار کریں تاکہ دونوں محفوظ ہو سکیں ۔اگر اسی طرح ان
دیکھی ہوتی رہی تو اس دہشت گرد کی دہشت گردی سے عوام کو راحت ملنا نا ممکن
ہے۔ |
|