مسیحائی،ہسپتال اور وزیراعلیٰ پنجاب

وطن عزیز کے حصے کا مسیحا تو گزر چکا ہے جسے دنیا عبدالستار ایدھی کے نام سے یاد رکھے گی۔ اس کی وفات کا دُکھ تو پورے ملک کو ہوا جنازہ میں اعلیٰ شخصیات کی شرکت بھی ہوئی میت کو کاندھے بھی دئے گئے پروٹوکول کے ساتھ دفن بھی کیا گیا لیکن عبدالستار ایدھی کی زندگی میں ان میں سے کسی شخصیت نے متاثر ہونا تو دور کی بات ہے کسی ایگزیکٹو ،بیوروکریٹ نے تعاون کرنا گوارا نہ کیا۔ ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ ہم سیاست کے لئے ایک دوسرے پر جتنی چاہیں گندگی اچھالنا چاہیں اچھالتے رہتے ہیں ایدھی مرحوم کی موت کے بعد ہمارے چند ’مفکرین‘ نے انہیں بھی نہ بخشا۔ خیر اس طرح کی کہانیاں اب روز وشب کا حصہ بن چکی ہیں۔ عبدالستار ایدھی کے جنازے پر وزرائے اعلیٰ آرمی چیف اور دیگر اہم حکومتی عسیاسی عہدیداران کو دیکھ کر مجھے تو افسوس ہوا کیونکہ یہ ایک عجیب قسم کی روش ہے کہ زندگی میں ان کے کسی کام نہ آئے اور نہ ہی موت کے بعد انکی طرح بننے کی تھوڑی سی جستجو کرنے کی جرات ہوگی۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف صاحب جذباتی قسم کے انسان ہیں اور ان کی ایک کوشش رہی ہے ہمیشہ جو مجھے پسند ہے کہ وہ ہر اچھی شخصیت کی وفات کی بعد ان کی طرح بننے کے خواہش کا اظہار کرتے ہیں لیکن بن نہیں پاتے۔ان کا ایدھی مرحوم کو خراج تحسین اور ایدھی مرحوم کے مشن کو آگے چلانے کی خواہش بھی کی لیکن یہ خواہش ہی رہے گی جب تک اس کا مقابلہ سیاست سے رہے گا ۔

اب دوسرے موضوع کی بات کرتے ہیں وہ یہ کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے بلند وبانگ ـ’چھاپوں‘ کے بعد بھی پنجاب کے ہسپتالوں کی حالت غیر ہے۔ عید کے دوروز بعد میرا ایک عزیز کسی حادثے کے باعث شدید زخمی ہوگیا اور ایمرجنسی کی حالت میں سرکاری ہسپتال جانا پڑا لیکن وہاں موجود داکٹرز اور دیگر عملہ کے رویوں سے ہی سخت اذیت ہوئی۔ ایک تو مریض کے ساتھ جانے والوں کی حالت بہت ہی حساس ہوتی ہے اوپر سے ان مسیحاؤں کی تھانیداری سے بندہ مزید تکلیف میں آجاتا ہے۔ خیر مریض کو ہم تحصیل ہسپتال سے لے کر ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال لے گئے جہاں یا تو داکٹرز موجود نہین تھے اور اگر تھے تو ان کی رویوں سے کافی خائف ہوئے اور یہ احساس ہوا کہ ان کو اب احساس ہی نہیں رہا مذکورہ ضلعی ہسپتال والوں نے مریض کو نشتر ہسپتال ملتان ریفر کیا تو وہاں جا کے حالات دیکھے کہ مسیحا تو منظر عام سے غائب تھے اور جو موجود تھے جس حالت میں موجود تھے انہوں نے مریض کو مرنے سے پہلے ہی مارنے کا عندیہ دیتے رہے لیکن کچھ بعد میں پتہ چلا یہ مسیحا دراصل سرکاری ہسپتال میں مریض کا علاج ہی نہیں کرنا چاہتے بلکہ باہر جو پرائیویٹ ہسپتالوں کا ’دحندہ‘ کھولا ہوا ہے وہاں گھسیٹنے کی کوشش میں ہیں اور کچھ ’دلال‘ ٹائپ افراد جو سرکاری نوکرون کے طور پر ان سینئرز ڈاکٹرز کے آگے پیچھے رہتے ہیں وہ مریضوں کو ایسے اس طرح کے مشورے دے رہے ہوتے ہیں۔ خیر کسی ہمدرد کو مشورے پر ہم نے چھٹیوں کے دنوں کو وہاں گزارنے میں ہی عافیت سمجھی لیکن سرکاری چھٹیوں کے بیچ اگر ایک دن آڑے آجائے تو ہمارے افسران، ڈاکٹرز اس ایک دن کو اپنی چھٹی سمجھ کر گزارتے ہیں انسانی ہمدردی اور مسیحائی گئی تیل لینے۔پرائیویٹ ہسپتال جانے میں ہی خیر سمجھی جہاں سے ہمیں اچھا مشورہ ملا اور کچھ پریشانی دور ہوئی۔ خیر اس طرح کے حالات کا اندازہ تب ہوتا ہے جب خود پر کوئی تکلیف آجائے۔یہ صرف ایک دن یا ایک مریض کے ساتھ ہونے والی کہانی نہیں بلکہ کتنے ایسے مریض ہیں جو ان ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور انہیں جس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جن کے پاس کوئی پیسہ ٹکہ موجود ہوتا ہے تو وہ علاج کراسکتے ہیں اور جو بیچارے روزی روٹی بڑی مشکل سے کماتے ہیں تو انکو موت تک ہی پہنچنا پڑتا ہے اور یہ کافی تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد ہی ایسا ممکن ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز حضرات نے پیسہ کمانے کے لئے باہر پرائیویٹ ہسپتال کے نام پر اپنے ’دھندے بازار‘ کھولے ہوئے ہیں ان ہسپتالوں کی نگرانی بھی ان کے سرکاری ڈسپنسرز ودیگر سرکاری ملازم کررہے ہوتے ہیں اور سرکاری ہسپتالوں میں دسپنسرز ،چوکیدار اور دیگر ملازمین بھی ڈاکٹروں جیسا رویہ اپناتے ہیں۔ خیر کچھ ڈاکٹرز مسیحا کہلانے کے مستحق ہیں تھوڑی تعداد میں ہیں مگر اب بھی موجود ہیں۔ علاج معالجہ سہولتیں یہ تو گورنمنٹ کی بدولت ہوتی ہیں لیکن انسانی رویے تو انسان کے اپنے اندر ہیں اور وہ خود ہی ان کا مالک ہے۔ کم از کم لواحقین اور مریضوں سے ڈاکٹرز حضرات رویو ں میں ہی فقط اپنائیت دکھائیں تو یہ مریض کو پچاس فیصد تک صحت مل سکتی ہے۔

پچھلے چند ماہ میاں شہباز شریف نے لاہور کے نزدیکی پنجاب میں بسون اور ویگنوں پر ظاہراً خفیہ طور پر مختلف سرکاری ہسپتالوں کے چھاپے مارنے کا کام بڑی دلل لگی سے کیا لیکن بغل میں موجود چند’فرشتوں‘ کی بدولت ہسپتال انتظامیہ کو خبر ہوجاتی اور شہر میں موجود تمام ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف وزیراعلیٰ کی حاضری سے پہلے موجود ہوجاتے ۔ اور صفائی ستھرائی اور حاضری تک کو کافی ھد تک کور کرلیا جاتا۔وزیراعلیٰ صاحب نے چند ایک ہسپتالوں میں چند ڈاکٹرز کو عارضی طور پر معطل بھی کیا اور میدیا کوریج بھی دی لین اب ان کے کیسز کا کیا بنے گا اس سے عوام کو ویسے ہی خبر نہیں دی جاتی کہ کون کب بحال ہوکے کسی اور شہر میں اپنی دیوٹی سرانجام دے رہا ہے۔ان چھاپوں سے نہ ہی ہسپتالوں کی حالت بدل سکتی ہے اور نہ ہی ان ڈاکٹرز کے رویوں میں تبدیلی کا کوئی امکان ہے۔ یہ شہری ہسپتالوں کی حالت ہے جبکہ اگر دیہی مراکز کا دورہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس ملک کو کسی چنگیز نے آکے فتح کیا تھا اور نیا نظام آئے گا تو یہ عمارتیں کام آئیں گی ۔ اکثر عمارتیں جانوروں کا مسکن بنی ہوتی ہیں خیر ان جانوروں کی دعائیں ضرور ملتی ہونگی بادشاہ وقت کو۔ایک بات تو طے ہے اگر ملک عزیز میں سرکاری طور پر فقط ایک ہی ڈحنگ کا ہسپتال بنادیا جاتا تو یقیناً کسی عہدیدار کو برطانیہ یا امریکہ علاج کے لئے نہ بھاگنا پڑتا۔ ہسپتالوں کی حالت بدلنے کے لئے ایمرجنسی نافذ کرنی ہوگی ۔ سب سے پہلے ان ڈاکٹرز حضرات کہ یہ نجی ہسپتال بند کرانے ہونگے اور اچھی مراعات دینی ہونگی۔ ہسپتالوں کے لئے کمپیوٹرائزڈ مانیٹرنگ کا نظام نافذ کرنا ہوگا۔وزیراعلیٰ صاحب سے اتنی سی گذارش ہے کہ تیسری مرتبہ آپ کو پنجاب کا بادشاہ بنایا گیا اور اپنا ہر دور چھاپوں اور دوروں میں گزار دیتے ہیں اپنی عمر بھی کافی گزار چکے ہیں اگر ان چھاپوں سے تبدیلی آنی ہوتی تو کب کی آچکی ہوتی۔جناب عوام تو چاہتی ہے کہ آپ شوکت خانم سے بھی اچھا ہسپتال قائم کریں تاکہ آپ کا علاج بھی ممکن ہو اور عام لوگوں کا بھی میرا خیال ہے مرض تو ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔یہ مسیحائی کے دعوے اور ان حاضر شدہ دھندوں میں فرق صرف عبدالستار ایدھی چھوڑ کر چلے گئے ہیں-
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 40617 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.