ہٹو ، بچو کا گھٹیا کلچر ۔۔۔۔۔۔پروٹوکول

یونان کی چھوٹی سی ریاست ایتھنز نے دنیا کو جتنے صاحب علم و دانش دئیے ہیں شاید نسبت کے لحاظ سے دنیا کا کوئی دوسرا خطہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔عظیم دانشور اور فلسفی سقراط جس نے سچائی کی خاطر زہر کا پیالہ پیا، عظیم دانشور اور فلسفی افلاطون جس نے دنیا کو جمہوریت کے بنیادی اصول دیئے، عظیم دانشور اور فلسفی ارسطو جو علم حیوانات کا بھی بانی ہے، بقراط جو آج بھی میڈیکل سائنس کا باوا آدم جانا جاتا ہے اور دوسرے بہت سے علم و دانش کا تعلق اسی سرزمین سے ہے۔ایتھنز دنیا کی ابتدائی جمہورتیوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کی آبادی اشرافیہ، غریب لوگوں اور غلاموں پر مشتمل تھی۔غلاموں کو ووٹ کا حق نہیں تھا۔سولن جو یونان کے سات عقلمند ترین لوگوں میں شمار ہوتا تھا نے ایک قانون مرتب کیا جس کے تحت وہاں کا آرچ عوام کی اکثریت منتخب کرتی تھی۔ آرچ انتہائی طاقتور عہدہ تھا جیسے موجودہ دور کا ڈپٹی کمشنر یا اسے چیف مجسٹریٹ کہا جا سکتا ہے۔کیونکہ اسے عدلیہ اور انتظامیہ کے پورے اختیارات حا صل ہوتے تھے۔

ایتھنز کا ایک شہری پی سیس نہایت قابل، ہر دلعزیز، خود نمائی کا شکار اور بہت تیز طرار تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ کسی طرح آرچ کا عہدہ حاصل لر لے۔اور لوگوں میں ہر طرح نمایاں نظر آئے۔ ایک دن اس نے خود کو تھوڑا زخمی کر لیا اور لوگوں کو بتایا کہ اس کے دشمن اسے مارنا چاہتے تھے اور وہ بڑی مشکل سے ان کے وار سے بچ پایا ہے۔اب ضروری ہے کہ آئندہ کے لئے اجازت دی جائے کہ اپنی حفاظت کے لئے وہ پولیس کے کچھ لوگ اپنے ساتھ رکھ سکے۔غریب اور جائل لوگ اس کی ان چیڑی چپٹی باتوں میں آگئے اور ان لوگوں کے دباؤ کی وجہ سے اسے پولیس ساتھ رکھنے کی اجازت مل گئی۔ اب وہ بڑے کروفر سے پولیس کا اک ہجوم ساتھ لئے عوام میں جاتا۔ چند دنوں میں اس کا شمار ایتھنز کے بڑے لوگوں میں ہونے لگا۔تاریخ میں شاید یہ پہلا عام شخص تھا جس نے بادشاہوں سے بڑھ کر پروٹوکول اپنایا۔پڑھے لکھے لوگ اور اشرافیہ نے اس کی اس حرکت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ حکومت نے جلد ہی پی سیس کو اس کی ایسی گھٹیا حرکتوں کی وجہ سے تنگ آکر جلا وطن کر دیا۔

جلا وطنی کی مدت ختم ہونے کے بعد پی سیس ایک بار پھر پورے پروٹوکول کے ساتھ ایک نئے انداز میں پورے شان وشوکت کے ساتھ شہر میں خوبصورت رتھ پر سوارہو کر داخل ہوا۔ رتھ میں اس کے پہلو میں ایک خوبصورت خاتون یونان کی ایک دیوی کا روپ دھارے بیٹھی تھی۔غریب اور جائل لوگ دیوی کی تعظیم میں جھک گئے۔دیوی نے لوگوں کو حکم دیاکہ وہ پی سیس کی فرمانبرداری کریں۔اس کا احترام کریں کیونکہ پی سیس اس کا پسندیدہ خادم خاص ہے اور اسے خوش رکھنا دیوی کو خوش رکھنا ہے۔لوگ اس دیوی کی باتوں کے فریب میں آ گئے اورجہالت ایک بار پھر ایتھنز پر مسلط ہو گئی۔حکومت نے تنگ آ کر پی سیس کو ایک بار پھر جلاوطن کر دیا۔

ایک بار پھر جلاوطنی کے بعد پی سیس کی واپسی بہت زور دار تھی۔ اب وہ عملی طور پر ایتھنز کا بادشاہ تھا ۔ اس نے بڑے سکون سے حکومت کی۔ گو غیر ضروری پروٹوکول کے سبب اشرافیہ اس کے خلاف رہی مگر عام لوگوں میں وہ بہت مقبول تھا۔اپنی رحمدلی اور عوام سے ہمدردی کے سبب وہ ایک خود سر بادشاہ تھا۔ تاریخ میں اس کے پروٹوکول کو ہمیشہ قابل نفرت سمجھا گیا مگر ذاتی حوالے سے وہ ایک اچھے انسان اور اچھے منتظم کے طور پر جانا جاتا ہے۔

دنیا کی سب سے پہلی باقاعدہ درس گاہ افلاطون نے ایک شخص اکیڈمس کے باغ میں شروع کی جو اکیڈمس کے حوالے سے اکیڈمیا کہلاتی تھی۔ افلاطون کی وفات کے بعد اس کی جانشینی کے لئے اس کے بھتیجے اور اس کے شاگردوں کے درمیان تنازع شروع ہو گیا جس میں افلاطون کا بھتیجا کامیاب ہوا۔ افلاطون کے ہونہار شاگرد سقراط نے ایک دوسرے باغ لیسیم میں دنیا کی دوسری باقاعدہ درس گاہ کی ابتدا کی۔ لیسیم نامی یہ باغ پی سیس کی ملکیت تھا۔ یہ باغ نا صرف ارسطو جیسے اہل علم لوگوں کا مسکن تھا بلکہ اس وقت نوجوانوں کی ہر طرح کی جسمانی اور روحانی ورزشیوں اور ریا؂ضتوں کا بھی بہت بڑا مرکز تھا۔آج دنیا بھر میں اکیڈمی اور لیسیم لغوی طور پر پڑھنے لکھنے کی جگہ کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔پی سیس ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے ہومر کی نظموں کو جمع کرکے باقاعدہ مرتب کیا۔

آج پی سیس کی شروع کی رسم پورے یورپ میں نفرت کی نگاہ سے دیکھی جاتی رہی اور آ ج یورپ میں کہیں بھی اس طرح کا کلچر نظر نہیں آتا جیسا ہمارے ملک میں فروغ پا رہا ہے۔ وہاں سربراہ مملکت سمیت سبھی لوگ عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ جس شخص کو پروٹوکول سے تھوڑا سا بھی پیار ہو۔ وہ نمائندگی کے قابل نہیں جانا جاتا۔ہمارے ہاں چونکہ جہالت کا راج ہے۔ اسلئے جاہلوں کی اکثریت جاہل منتخب کرتی ہے۔ خصوصاً گاؤں کے لوگ ووٹ دیتے وقت ایسے جعلی شان و شوکت والے شخص کو ووٹ دینا پسند کرتے ہیں۔ میرا ایک سٹوڈنٹ چند سال پہلے نائب ناظم منتخب ہو گیا۔ مجھ سے ملنے آیاتو اس کے پاس دو گاڑیاں تھیں۔ ایک عام گاڑی جس میں پچھلی سیٹ پر وہ خود بیٹھا تھا جبکہ اگلی سیٹوں پر ڈرائیور اور گن مین بیٹھے تھے۔ اس گاڑی کے پیچھے ایک ڈالہ تھا جس پر چھہ ( 6 ) مسلح افراد بیٹھے تھے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ بھائی تمہیں کچھ خطرہ ہے کیا۔ جواب ملا، بالکل بھی نہیں۔ میں نے کہا تو پھر یہ احمقانہ سا پروٹوکول کیوں؟ کچھ شر مندہ ہوا ۔ کہنے لگا ۔ میرے سارے عزیز واقارب کی خواہش تھی۔ مگر تم تو پڑھے لکھے آدمی ہو۔ کہنے لگا، میرا پڑھا لکھا کیا کر سکتا ہے۔ جن لوگوں نے بہت محنت سے مجھے منتخب کروایا ہے اور آئندہ بھی جنہوں نے میرے ساتھ چلنا ہے ۔ میرا یہ پروٹوکول ان کے وقار کا مسئلہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جب میں کہیں سے گزروں تو ان کے تمام ذاتی اور سیاسی مخالفوں کو پتہ چلے کہ فلاں شخص کا بیٹا، فلاں کا بھتیجا، فلاں کا بھانجا ، فلاں کا بھائی اور فلاں فلاں کا رشتہ دار ان لوگوں کو شکست دے کرمنتخب ہوا ہے۔ یہ ان لوگوں کی عزت کا مسئلہ ہے۔ مجھے ان لوگوں میں رہنا ہے۔ میں ان کو ناراض نہیں کر سکتا۔ میں چاہ کر بھی پروٹوکول کی اس قید سے رہائی نہیں پا سکتا۔میرے پاس فقط یہ گاڑیاں ہیں اور وہ بھی ذاتی۔ لوگ حکومت کو بے وقوف بنا کر پولیس کی گاڑیاں اور بہت سی گارڈ اپنے گھر کے باہر کھڑی کر لیتے ہیں حالانکہ ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

ایک صاحب کسی عدالت میں کسی دہشت گرد کے خلاف معاون وکیل کی حیثیت سے پیش ہوئے۔ دو دن بعد انہوں نے اخبارات میں خبریں لگوا دیں کہ انہیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ علاقے کا اعلی پولیس افسر ان کا رشتہ دار تھا ۔ ان کے جان کے خطرے کا بہانہ بنا کر ان کے گھر کے باہر لکڑی کے بنے بنائے دو کیبن رکھ دئیے گئے ہیں جن میں دس کے قریب ملازمین ہیں۔ ایک گاڑی ہمہ وقت ان کے گھر کھڑی ہوتی ہے جو پورا دن شہر بھر میں ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ اب وہ ایک بہت بڑے وکیل ہیں ۔ پولیس، ان کے گھر کے باہر موجود پولیس کے کیبنوں اور سارا دن ان کے ساتھ چلنے والی پولیس وین نے ان کی کایا پلٹ دی ہے۔ دہشت گردی کے اس کیس کے اصل وکیل پورے شہر میں بغیر کسی سیکورٹی کے پھر رہے ہوتے ہیں انہیں ابھی تک کوئی دھمکی موصول نہیں ہوئی۔

حقیقت یہ ہے کہ پروٹوکول ایک نفسیاتی بیماری ہے جو اچھوت کی کی طرح ہمارے حکمرانوں سے عوام میں پھیل رہی ہے۔ اس کا بنیادی جرثومہ جہالت ہے۔ جب تک جہالت اس ملک سے ختم نہیں ہوتی پروٹوکول کلچر ختم نہیں ہو سکتا۔ اس گھٹیا کلچر کو ختم کرنے کے لئے تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم عام ہو گئی تو پروٹوکول کلچر ہی نہیں دہشت گردی سمیت ہمارے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500232 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More