مثال ِ ایدھی اور ہماری زندگی
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
موت ایسی اٹل حقیقت ہے کہ جس نے کسی کا
لحاظ نہ کیا ہے اور نہ کرتی ہے، یہ جب آتی ہے تو اپنے ساتھ سارے ارمان و
خواب لے کر چلی جاتی ہے اور جا کر منوں مٹی کے حوالے کر دیتی ہے جہاں سے نہ
کوئی وآپس آتا ہے اور نہ کوئی وہاں جانا پسند کرتا ہے ۔۔۔پھر وقت کا مرہم
مرنے والے کی یادوں کو مدہم کرتے کرتے بالآخر ختم کر دیتا ہے، مگر وہ لو گ
جو انسانیت کی فلاح کے لیے اپنی دنیاؤی زندگی وقف کر دیتے ہیں تو اُن کا
آخری وقت رخصتی (جنازے کی صورت میں) لاکھوں لوگ اشک بار آنکھوں سے ، نہ
چاہتے ہوئے بھی الوداع کہتے ہیں اور ان کی یادیں صدیوں تک زندہ رہتی ہیں ،گزشتہ
دنوں ایک ایسی ہی عظیم شخصیت عبد الستار ایدھی صاحب (مرحوم )اس دنیا ئے
فانی سے لاکھوں دلوں کو غمگین کر تے ہوئے الوداع کر گے۔ ایدھی صاحب ایک نام
ہی نہیں بلکہ ایک کارواں تھے ، جو سادگی ، قناعت ، اخلاص اور قربانی پر
مبنی انسانیت کی ایک عظیم داستان تھے، جو ہمہ وقت انسانیت کی بلا تفریق
خدمت کے لیے تیار رہتے تھے۔ میں ادھر عبد الستار ایدھی صاحب(مرحوم) کے ساتھ
پیش آنے والے واقع سے اپنے نا چیز کالم کی ابتدا کرتا ہوں کہ :"ا یک دن عبد
الستار ایدھی صاحب(مرحوم)سفر پر تھے کہ ڈاکو/چوروں نے آپ کا گھیراو کر لیا
،سار ا سامان لوٹ لیا ، ان ہی میں سے ایک چور نے آپ کو پہچانتے ہوئے باقی
اپنے دوستوں سے بولا کہ یہ سارا لوٹا ہوا سامان ان کو وآپس کر دو ۔۔۔ جس پر
تعجب کر تے ہوئے انھوں نے پوچھا کہ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔۔؟؟؟ اُس نے
دوستوں کو آپ کے بارے میں بتایا کہ یہ وہ شخص ہیں جب ہم مر جائیں گئے ،
ہمارے گھر والے، دوست و احباب العرض ہر چند ہماری میت کے پاس تک آنا گوارا
نہ کرے گا تو اس وقت یہ شخص یا ان کی ٹیم ہم کو اُٹھائے گی، کفنائے گی اور
پھر جنازہ پڑھا کر ہم کو دفن بھی کرے گی۔۔۔ یہ الفاظ اس نے ادا کیے تو سب
ہی دوستوں نے لوٹا ہوا سارا سامان عبد الستار ایدھی صاحب کو وآپس کر دیا
اور معافی مانگی"۔ مختصراََیہ کہ تقسیم پاک وہند کے وقت ایدھی صاحب ہجرت کر
کے پاکستا ن آئے تو انتہائی غربت و بے سر و سامانی کے عالم میں زندگی بسر
کی اور اپنی والدہ کی وفات کے بعد انھوں نے بے پنا ہ غربت اور تنگدسی کے
باوجود اپنی ذات و خاندان سے بالاتر ہو کر اپنی زندگی دکھی انسانیت کی خدمت
میں ایسی وقف کی کہ 70 سال سے دکھی انسانیت کے لیے دن رات ایک کر تے ہوئے
عام سے کپڑے میں ملبوس، چپل پہنے ،ایک ہی ٹوپی اوڑھے ، ننگے فٹ پاتھوں پر
عوام الناس کی فلاح کے لیے بھیگ مانگتے رہے، لاوارث لاشوں کو غسل ہی نہیں
بلکہ عزت و احترام کے ساتھ کفناتے اور دفناتے رہے، کوڑے کے ڈھیروں میں
بجھتی ہوئی زندگیوں کو اُٹھا کر معاشرے میں عزت بخشتے رہے، بنا کسی گاڑی کی
ملکیت رکھتے ہوئے ہمیشہ دکھی انسانیت کے لیے ایمبولینس چلاتے رہے، بنا اے
سی کے گھر کے عمر گزارتے رہے، خود اپنے آپ کو بھو کا رکھا مگر ایدھی
دسترخوان سے روزانہ ہزاروں بھوکوں کا کھانا کھلاتے رہے، خود سرکاری علاج کو
ٹھکرایا مگر ہزاروں عوام کو ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں سے بلامعاوضہ علاج
معالجہ فراہم کرتے رہے،اندرون ِ سندھ کے اندر دور دراز گاؤں میں علم کی شمع
کو روشن کرنے کے لیے سکولوں کا ایک نیٹ ورک تعمیر کر کے علم کی شمع کو روشن
کرتے رہے، انسان تو انسان وہ جانوروں کے لیے کراچی کے قریب کئی ایکٹر رقبے
پر مشتمل سنٹر قائم کیا جہاں جانوروں کو قدرتی ماحول فراہم کرتے رہے۔ یہ ہی
نہیں بلکہ اس غریب و سادہ لو ح انسان نے اپنے نام و کام سے اپنے ملکِ
پاکستان کا نام روشن کرتے ہوئے روس کے لینن امن ایوارڈ سے لے کر یونیسکو،
اٹلی، فلپائن اورحکومت ِ برطانیہ سے ملنے والے اعزازت ہی نہیں بلکہ ورلڈ
گینز بک میں نام تک سب پاکستان اور پاکستانی عوام کی نمائندگی میں اہم
کردار ادا کرتے رہے۔۔۔ عبد الستار ایدھی صاحب(مرحوم) اور ان کے رفقائے کے
کارنامے دراصل ایک ریاست /حکومت کے کرنے کے کام تھے، عبد الستار ایدھی
صاحب(مرحوم) آج معاشرے میں ایک روشن ستارے کی طرح جھلملاتے ہوئے نظر آتے
ہیں تو اس کی اصل وجہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اردگرد کے ماحول میں اندھیرا
پھیلا رکھا تھا، اگر ہر شخص ، ہر ادارہ، ہر حکومت اپنی اپنی ذمہ داریاں
احسن طریقے سے نبھاتے چلے آتے تو ماحول میں خرابیاں پیدا ہی نہ ہوتیں اور
عبد الستار ایدھی صاحب(مرحوم)کی زندگی آج بھی ان کے لیے راہ دانش ہے کہ
کیسے وہ معاشرے کے اندر کام کر سکتے ہیں ۔۔۔ مگر ہم ہیں کہ اپنی رپوٹیشن
برقرار رکھنے کے لیے جنازے میں تو بڑی دھوم دھام سے شرکت کرتے ہیں مگر کچھ
نہ تو حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی کچھ کرنے کا سوچتے ہیں۔ عبد الستار ایدھی
صاحب(مرحوم)خود بے وسیلہ اور غریب شخص تھے مگر ان کی امانت و دیانت کا یہ
عالم تھا کہ لوگ ان پر اعتماد کرتے اور وہ اس اعتماد کو ضائع نہ کرتے بلکہ
صحیح مصارف تک پہنچاتے ۔۔۔ آئیے ہم بھی معاشرے کا ایک فرد ہونے کے ناطے
اپنے آپ کو عبد الستار ایدھی صاحب(مرحوم)کی شخصیت کے آئینے میں دیکھتے ہوئے
خود سے سوال کرتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں۔۔۔؟؟؟
ہمیشہ یاد رکھیں ایک شخص جو اپنے لیے زندہ رہتا ہے موت اس کو بھول جاتی ہے
اور جو انسانیت کے لیے زندہ رہتا ہے موت ہمیشہ اسے یاد رکھتی ہے ادھر ایک
اور بات بیان کرتا جاؤں کہ بہت سے لوگ جذبات کی روح میں بہتے ہوئے آپ کو
محسن انسانیت کے لقب سے نواز رہے ہیں یاد رکھا جائے کہ محسن انسانیت صرف
نبی کریمﷺ کی ہستی ہیں ۔ آپ عبد الستار ایدھی صاحب(مرحوم)کو محسن وطن یا
محسن پاکستان کے لقب سے نواز یں نہ کہ محسن انسانیت سے۔۔۔گو کہ انھوں نے
انسانیت کے لیے اپنی زندگی رقم کر دی تھی ۔۔۔۔
|
|