خالی پنجرہ کے عنوان سے کچھ عر صہ
قبل ایک بلاگ لکھا جس میں ایک پرندہ دوسرے پرندے کے بچے کو مار مار کر ختم
کرنے کی کوشش کرتا ہے۔وجہ؟ کیونکہ اس کے ا پنے انڈے خراب ہوگئے تھے ۔ جی
ہاں! حسد کا مظاہرہ اپنے جوبن پر نظر آیا ! حسدانسانی فطرت بھی ہے جس کی
واضح جھلک قرآن میں ہابیل اور قابیل کے قصے سے لے کربرادران یوسف ؑمیں نظر
آ تی ہے اورکفارمکہ کامحمدﷺ کے انکار کے پیچھے یہ ہی حیوانی جذبہ کار فر
ماتھا۔
اس بلاگ پر ہمارے کچھ قارئین نے خصو صاً ایک ساتھی جو خود بہت اچھی قلم کار
اور تجزیہ نگار ہیں ۔ ہماری توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ اس واقعہ کا سبب
حسد سے بھی زیادہ مشترکہ رہائش تھی کہ وہ بچے اس کی دست برد سے نہ بچ سکے ۔
مزید یہ کہ انسانی معاشرے میں بھی اس کے اثرات نظر آ تے ہیں اور خصو صا ً
میڈیا کی بے حیائی کے باعث مشترکہ رہائش خوفناک حد تک تباہ کن ہو چکی ہے۔
اپنے معاشرے میں پھیلتے اضطراب پر اس زاویے سے نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اس تمہید کے بعد اپنی بات کا آغازخطبہ حج ۱۴۳۵ھ سے کرتے ہیں جس کا موضو ع
غیر اخلاقی تعلقات تھے۔ یقیناً حج کی عالمگیریت کی وجہ سے اس کے مخاطبین ہر
طبقے اور درجے کے مسلمان تھے! مگر ہمارے اس مضمون کو پڑھنے والامسلمانوں کا
وہ طبقہ ہے جو معروف معنوں میں دیندار ہی کہلاتا ہے لہذا ان تمام قبا حتوں
کا تذکرہ نہیں ہوگا جس میں لادین ،بد کردار مزاج افراد اور بے دین ،پسماندہ
افراد منہمک اور منسلک ہیں بلکہ ہم اپنی گفتگو کا دائرہ صرف اور صرف ان
افراد تک محدود رکھیں گے جو عبادات کے ساتھ ساتھ دیگر شعار اسلام کی پابندی
کرتے ہیں اور اخلاقیات پر بھی کار بند رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ایسے ہی ایک گھر میں چلتے ہیں جہاں گھر کی مالکہ بڑے فخر سے کہہ رہی ہیں
․․․․میری چاروں بہوئیں ایک ہی فلور پر ایک ہی کچن کے تحت رہتی ہیں ! ذرا
تصور کریں ! کتنا ہی بڑا گھر کیوں نہ ہو آجکل کے نقشے میں تمام کمرے لاؤنج
بمع کچن وہیں کھلتے ہیں بلکہ دیگر ضروریات مثلاً فرج وغیرہ بھی وہیں ہوتے
ہیں ( مماثلت محض اتفاقی ہوگی ورنہ بات عمومی ہے اور بہوؤں کی تعداد بھی دو
سے چھہ تک ہوسکتی ہے!․) ان کی تو ساری اپنی اولادیں ہیں مگر مختلف گھروں سے
آئی ہوئی لڑکیاں ( خواہ ایک ہی خاندان کی ہوں یا بہنیں ہی کیوں نہ ہوں بہر
حال ہر ایک کی انفرادیت اور پھر دیور، جیٹھ و غیرہ سے کس طرح اور کتنا رکھ
رکھاؤ ممکن ہے ؟) ایک عورت شرعی پردہ نہ بھی کرے تو اپنی پرائیوسی کو کس
طرح برقرار کھ سکتی ہے؟چو بیس گھنٹوں میں درجنوں موڈ ہوتے ہیں ․․․بچوں کی
ضدیں اور ان کی ضروریات اسے کب تک ایک کمرے میں محدود رکھ سکتی ہیں ؟
ایک نوجوان ماں سے تعارف ہواجوچار چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ انتہائی
کسمپرسی میں گزارا کررہی تھی جب اس سے سسرال سے علیحدگی کی وجہ معلوم کی (کیونکہ
مشترکہ رہائش میں گھر کے کرایہ کا مسئلہ تو نہیں تھا․․․)․تووہ رو پڑی اس کا
کہنا کہ میں پچھلے آٹھ سال سے اپنے بال نہ سکھا سکی کہ کمرے سے ذرا با ہر
نکلوں تو دیور کھڑے ہوتے ہیں․․ ایک اور نوبیا ہتا بیوی کا کہنا ہے کہ میرے
شوہر کا تقاضہ ہے کہ میں ہر وقت تیار رہوں ․․اب مجھے کمرے سے باہر جاتے وقت
میک اپ اتارنا پڑتا ہے کیونکہ کاموں کے لیے ساس کی پکار پڑ رہی ہوتی ہے
․․․․ان سارے مشاہدات پر بہت الفاظ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہر
دوسرے ، تیسرے گھر کی کہانی ہے ․․․نہلے پر دہلا بیٹی داماد بھی وہیں اوپری
منزل پر آ دھمکتے ہیں ۔ ماں خوش مگر․․․؟ ( ایک بار پھر معذرت!)
نہ ایسے گھروں کا کوئی شیڈول بن پاتا ہے نہ تربیت کے تقا ضے پورے ہوتے ہیں
کیونکہ گھر میں ہر وقت ایک آمد و رفت کا سلسلہ رہتا ہے ۔
نہ ہر والدین کی ذہنی سطح، تعلیمی معیار، اخلاقی صورت حال یکساں ہوتی ہے
اور نہ معاشی صورت حال اور زندگی کی تر جیحات !نہ اولادوں کی تعداد اور
عمریں برابر ہوتی ہیں اور نہ ہی میکے اور دوست و احباب ایک طرح کے ہوتے ہیں
مگر اس کے باوجود ایک بے نام سی برابری کاتاثردینے کی کوشش منفی جذبات پیدا
کرنے کا باعث بنتی ہے۔ برسوں پہلے ہم اپنی ایک عزیزہ سے ملنے گئے تو انکی
ننھی سی بچّی اپنے ہم عمر کزنز کو بار بارکمرے سے باہردھکیل رہی تھی کہ جاؤ
تمہارے مہمان نہیں ہیں ․!․․اس بات کوکتنا ہی مذاق میں ٹالا جائے یہ انسانی
رویے کی ایک جھلک ہے جس کے اثرات تا زندگی برقرار رہتے ہیں ۔ حسد اور رنجش
کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہوتا ہے لہذا جوائنٹ فیملی سسٹم میں زندگی
گزارنے والے کئی خاندانوں میں بڑے ہوکر تعلقات کی وارفتگی نہیں نظر آتی
بلکہ اکثر لاتعلقی ،قطع تعلقی یا واجبی سے تعلقات دیکھے گئے ہیں !
رسائل اور ڈائجسٹ مشترکہ رہائش کو خواہ کتنا ہی رومانوی اور خوبصورت بنا کر
پیش کریں اس کا دوسرا رخ کانٹوں بھرا ہے صرف معاشرتی لحاظ سے نہیں بلکہ
دینی احکامات سے بھی ٹکراتے ہیں․․․․ سورہ نور میں تین ا وقات پردے
(privacy)کے بتائے گئے ہیں اور جن کی سال میں کم از کم ایک دفعہ تلاوت کی
جاتی ہے اور ترجمہ سے پڑھا جا تا ہے مگر اس معاشرتی حکم پر عمل کی توفیق
نصیب نہیں کیونکہ جب بچے اسی کمرے بلکہ بستر پر مقیم ہوں تو ممکن ہی نہیں
کہ اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوں! وہیں ٹی وی یا نیٹ لگا کر بچوں کو بہلا
ئے رکھا جا تا ہے حتّٰی کہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں ۔ کمرے سے باہر
کی دنیا میں کزنز اور مہمان ہوتے ہیں جن کے ساتھ بچپن کی جھڑپیں اب ایک نئے
انداز سے حیا پرضرب کا باعث بنتی ہیں اور یہاں سے غیر اخلاقی رشتوں کی
بنیاد پڑتی ہے ۔گویا دینی گھرانے بھی ان برائیوں کا شکار ہوجا تے ہیں جن سے
روکا گیا ہے۔ ڈرامے ترکی ہوں یا انڈین ( جو بڑے شوق سے دیکھے جاتے
ہیں)زیادہ تر انہی موضوعات کے گرد گھومتے ہیں!
اشتہارات نامناسب،ملبوسات ناشائستہ،زبان غیر مہذب ! میڈیاہماری حیا کو
داغدار بنانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے!
اس بے چینی اور اضطراب کو معاشرے کا ہر ذی ہوش فرد محسوس کرتا ہے مگر
مجبوری ہے۔! ہوش ربا مہنگائی اوراخراجات میں جدا گانہ رہائش کی استطاعت
نہیں ہوتی حالانکہ ہماری تقریبات، رہن سہن اور دیگر معاملات میں اس کا کوئی
اثر نظر نہیں آتا گویا بات صرف تر جیحات کی ہے! مولانا جلال عمری سے ممبئی
میں ایک دفعہ سوال کیا گیا کہ اتنے تنگ گھروں میں ہم کس طرح پردے کی پابندی
بر قرار رکھ سکتے ہیں ؟ حیا کے تقاضوں کو پورا کرسکتے ہیں؟ تو انہوں نے
باقاعدہ ڈانٹ کر کہا کہ ساری بچت آپ لوگوں کو مکان میں سوجھتی ہے !․․اگر
بڑے گھر ممکن نہیں توعلیحدہ یونٹ کیوں نہیں بنائے جاتے! بات شریعت کی
ہوتوہر نئے خاندان کے لیے ایک علیحدہ کمرہ خواہ جھونپڑا ہی کیوں نہ ہو !
مسئلہ یہ ہے کہ ہم زندگی کی کوئی کمی بر داشت نہیں کرسکتے لہذا مشترکہ
رہائش کے ذریعے اپنی خواہشات کو پورا کرتے ہیں ۔ دوسرا مسئلہ وراثتی گھر ہے
جس سے دستبردار ہونے کو کوئی تیار نہیں ! والدین تنہائی کے کے خوف سے تمام
اولادوں کو ون یونٹ یا اپنے دست نگر رکھنا چاہتے ہیں خواہ اس کی ضرب رشتوں
پر ہی کیوں نہ پڑے ! مادیت پرستی نے رشتوں کو داؤ پر لگا دیا ہے ! دینی
اقدار کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے !
عزیز قا رئین! آئینے میں اپنی معاشرتی جھلک دیکھ کر کیسا لگ رہاہے؟کچھ کو
اپنا عکس دیکھ کر چپ سی لگ سکتی ہے۔ جبکہ بہت سی زبانیں اس موضوع پر کھلیں
گی۔ کچھ کی حمایت میں اور زیادہ کی مخالفت میں کیونکہ مفادات پر ضرب کس کو
گوارا ہے ؟اس معاملے میں کسی ایک کو بھی کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جا سکتا
بلکہ اپنے معاشرتی ڈھانچے پرنظر ثانی کی ضرورت بنتی ہے۔کچھ مدنیت اور طرز
معیشت ومعاشرت پر بھی اس ضمن میں گفتگو ہونی چاہیے۔
کسی بھی مسئلے کی نشان دہی اس کے حل کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ مرض کی تشخیص
سے علاج ممکن اور سہل ہو جاتاہے! گھر معاشرے کی اکائی ہے جس کے اثرات زندگی
کے ہر شعبے کو متاثر کرتے ہیں ۔آئیے اس میں شر عی احکامات نافذ کر کے
دیکھیں !شاید کچھ بے چینی کا ازالہ ہوجس نے فرد کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا
ہے ۔ گھر صحیح معنوں جبھی آباد ہوں گے جب دل آباد ہوں گے ورنہ تو لوگوں سے
بھرے مکان خالی پنجرے کی مانندہوں گے !!! |