کیسے کیسے لوگوں سے زمین خالی ہو رہی ہے
جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ،روئے گل سیر نہ دیدم و بہار
آخر شد ۔۔۔۔بقول شاعر
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ اٹھ گیا، آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
سال 1992ء اور جولائی کی 9ویں تاریخ ۔۔۔۔ صبح کے تین بجے راولپنڈی سے رواں
دواں ایک مسافر ریل گاڑی گھوٹکی کے ریلوئے سٹیشن پر جڑانوالہ سے آنے والی
ایک مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی ،قریب قریب سو بد نصیب افراد مرنے اور زخمی
ہونے کی خبرپہنچ چکی تھی ۔ا یدھی ہیڈ کوارٹرز کا عملہ نیند سے بیدار ہو کر
حرکت میں آ چکا تھا انکے کام کی رفتار ، وقت کی ضرورت سے کہیں تیز تھی۔ میں
یعنی ’’ایدھی‘‘ اس طرح کام کرتا ہوں جیسے ایک مردہ ، انسانی درد کو مزید
سمجھ کر پھر سے زندہ ہوا ہے اس وقت مجھے نہ سردی کا احساس ہوتا ہے ،نہ گرمی
کا ، نہ خوف اور نہ ہی تھکن کا ، اپنی ذات سے بیگانہ ، کام میں ڈوبا ہوا ،
خود اپنے وجود اور نام کے احساس سے ناآشناء ۔۔۔پر آج کی صبح ایسا نہ تھا ،کوئی
چیز مجھے ان بے ہنگم آوازوں کے شور سے بیگانہ کررہی تھی ۔ ہیڈ کوارٹر سے
ہدایات دی جا ری تھیں ۔۔۔ معلومات حاصل کی جا رہی تھیں وائر لیس پر گڈ مڈ
باتوں کا کہرام ۔۔۔ ہر آواز دوسری آواز کو دبا رہی تھی ۔۔۔ ہنگامہ جو میری
زندگی کا معمول ہے آج مجھے کچھ پریشان سا کر رہا تھا ۔ ہر چیزنئی لگ رہی
تھی میرا دل آج کہیں اور تھا ۔ میرے اندر کی یہ تبدیلی ہر گزرتے لمحے کے
ساتھ بڑھتی جا رہی تھی ۔کام کی جلدی کے باوجود میں تیز نہیں ہو رہا تھا
میرے پاؤں بوجھل ہو رہے تھے ۔ وہ میرے پاؤں تھے نہیں ۔ میرے دل پر جیسے
کوئی انجانا بوجھ آن پڑا تھا ۔ ۔۔۔۔ مگر کیا۔۔۔۔؟ میرے تیار ہونے سے پہلے
نرسیں ، ڈاکٹر ، دوائیاں ایمبولینس گاڑیاں ، تابوت اور دوسرا سامان گھوٹکی
کیلئے روانہ کیا جا چکا تھا ، لیکن آج کا دن اور دنوں سے مختلف کیوں تھاـ؟
اس قدر مختلف کہ میں جب میٹھا در سے ہوائی اڈے کیلئے روانہ ہوا تو بلقیس نے
حیرانی سے پوچھا۔ ’’لگ رہا ہے آج آپ جانا نہیں چا رہے آپکی طبیعت تو ٹھیک
ہے ناں ۔۔۔۔؟‘‘میرے قدم دروازے پر رک گئے ، بلقیس کا سوال عجیب سے لگا ۔
میں نے سوچا کہ اس نے میرے روئیے میں کیا تبدیلی محسوس کی ہے ۔ وہ اچھی طرح
جانتی تھی کہ بیماری نے بھی مجھے کبھی کام کرنے سے نہیں روکا پھر یہ کیا
تھا۔۔۔ شائد آج میں اپنے آپ میں گم تھا ۔ لیکن کیوں ـ؟ یہ نئی تبدیلی مجھ
میں کیسے آئی ۔۔۔۔ کیا انسانی دکھوں کیلئے میرا جذبہ دھندلا گیا تھا ــ؟کیا
میں اپنی زندگی کے واحد مقصد سے بھاگ رہا تھا ؟ نہیں ، یہ بات نہیں تھی ،
مگر پھر کیا بات تھی ۔۔۔!اب ہم گھوٹکی کی اس فضا میں سفر کر رہے تھے ۔ جس
کی تھاہ میں دو ریلی گاڑیوں کے دلدوز تصادم سے زندگی آگ دھویں اور خون میں
لت پت ہو گئی تھی ۔ ہم اس جانکاہ سانحہ کے عین بیچ میں اترے تو ایسے لگا
جیسے سامنے ایک مقتل ہو ۔ ایمبولینس گاڑیاں، ہولناک سائرن ، زخمیوں اور
لاشوں کو اٹھائے جانے کے لئے سڑیچر بردار کارندے ادھر ادھر سر پٹ بھاگ رہے
تھے ۔ انتظامیہ کے لوگ ، پولیس ، ڈاکٹر اور دائیں بائیں بے ترتیب قطاروں
میں خاموش کھڑے ہوئے ساکت لوگ۔۔۔۔ عملی طورپر کچھ کرنے کے بجائے ہکے بکے
۔۔۔۔ حادثے میں شکار ہونے والے لوگوں کو بے معنی پر سادے رہے تھے ۔ ایک
ہنگامہ تھا شور اور قیامت صغریٰ کا منظر۔۔۔۔۔!
دائیں بائیں بکھری ہوئی لاشوں اور لہو کی باڑسے گزرتے ہوئے میں نے اپنی
آستینیں اوپر کر لیں اور پاجامہ گھٹنوں تک چڑھا لیا۔ اپنے پیاروں سے بچھڑنی
والی آوازوں نے مجھے گھیر لیا تھا۔
ایدھی صاحب ! میرا بچہ کدھر گیا ؟ اگر آپ نے میرے باپ کو ہسپتال نہ پہنچایا
تو وہ مر جائے گا۔ ایدھی صاحب ، خدا کا شکر آپ آگئے ہیں۔ پولیس کہتی ہے ،
میرا بچہ مر گیا ہے لیکن میرا دل کہتا ہے۔۔۔۔ وہ زندہ ہے ۔آوازیں ہی آوازیں
۔ ’’ میرے بچے کہاں گئے ۔۔۔ میری ماں کہا ہے ۔۔۔ میرا بھائی کہاں گیا ۔۔۔۔؟
مدد اور مدد کی پکار ، ایدھی صاحب خدا کیلئے کچھ کریں ۔۔۔ ‘‘لوگ اپنے
لواحقین کے بارے میں مجھ سے ایسے پوچھ رہے تھے میں اس سانحہ کا ذمہ دار ہوں۔
میں نے خواب و خیال کی اس جنگاہ میں کام شروع کر دیا مرنے والوں کی متروکہ
اشیاء کو یکجا کیا ۔گھڑیاں ، کپڑے ، رخت سفر، شناختی کارڈ۔۔۔ میں نے حادثے
کی جگہ پر بن جانے والے نئے نئے تربت نما ڈھیروں سے ، لاشوں کے پرخچے
اجتماعی بے نام قبروں میں دفنانے کے انتظامات شروع کر دئیے اور زخمیوں کو
نزدیک کے ہسپتالوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا۔
انسانی زندگی کی تباہی کا باعث بننے والی قاتل ریل گاڑیاں اب خود پارہ پارہ
میتوں کی طرح دور دور تک بکھری پڑی تھیں جن سے بودار اور سیاہ دھواں انسانی
خون کی مانند گرد نواح میں پھیل چکا تھا۔ ڈرائیور نے اس المناک تصادم سے
بچنے کیلئے ایمرجنسی بریک لگانے کی کوشش کی لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی،
پھر ایک زور دار دھماکے نے سارے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا اب گھوٹکی کا
ماحول انسانی گوشت کی عفونت اور سڑانڈ سے بوجھل ہو چکا تھا ۔ سورج اپنی
پوری تمازت کے ساتھ زمین برپا ہونے والی قیامت و صغریٰ کا نظارہ پیش کر رہا
تھا سارا دن ہمارے سروں پر چمکتا رہا ۔ حتیٰ کہ جب غروب ہوا تو گھوٹکی کی
فضا میں آبلہ خیز گرمی سے دم گھٹ رہا تھا ۔ دن گزر چکا تھا میتیں اپنے اپنے
ٹھکانوں تک پہنچائی جا چکی تھیں ،کام ختم ہو چکا تھا ۔ نقصان سے رگوں میں
منجمد اور خشک ہونے والے خون کے باعث میرے پاؤں اکڑ گئے تھے ۔ میں اب ایک
دل سوز سانحہ کے بعد مرتب ہونے والے ہولناک نتائج کی کیفیت سے دوچار تھا ،
تنہاء غم زدہ اور اداس میں ایک مقام پر خاموش کھڑا ہو گیا ۔
اچانک ایک بوڑھے غم زدہ شخص نے مجھے چیخ کر پکارا۔۔۔۔’’ایدھی بابا ۔۔۔ میرا
ایک ہی بچہ تھا جو مجھ سے چھن گیا میں تباہ ہو گیا ہوں ۔۔۔۔کوئی نہیں جو
میری مدد کرئے میں تنہاء ہوں ‘‘
ادھورے اور ناقص الاعضاء بچے کی طرح وہ ایسے لگتا تھا کہ اسکا سر اسکی
ٹانگوں میں پھنس کر رہ گیا ہو اس کا جسم بے تحاشا چیخوں کے باعث کانپ رہا
تھا اسے معلوم تھا کہ میں اسکا شریک غم ہوں میں نے ایسے سہارا دیتے ہوئے
کہا ۔
’’ بابا ! میں تمہارے دکھ کو جانتا ہوں ۔ سب لوگ تمہارے دکھ سے واقف ہیں۔
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں۔۔۔ اسے بہرحال سہنا ہی ہو گا۔
بلال ’’کلفٹن سینٹر برائے خواتین ‘‘ میں اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا ۔۔۔
جانے سے پہلے اس نے بڑے چاؤ کے ساتھ نئے کپڑے مجھے دکھائے اور معصوم لہجے
میں کہا ۔’’نانا۔۔۔ کل میں یہ پہنوں گا۔۔۔اب یہ پہنوں گا ۔۔۔ پھر وہ پہنوں
گا‘‘
گویا وہ ایک ہی وقت میں سب کچھ پہن لینا چاہتا تھا ۔ میں نے اسے بازوں میں
اٹھا کر کہا ۔ ’’بلال ۔۔ ۔!کیا تم جانتے ہو کہ بہت سے لوگوں کے پاس تو
پہننے کیلئے کچھ بھی نہیں ۔‘‘
عید کی صبح میں اپنے دفتر میں تھا جب میں نے سنا کہ کبریٰ (بلال کی والدہ
)نے انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں ایمبولینس طلب کی ہے ۔ ہسپتال جانے کے
بجائے وہ سیدھی میٹھادر آئی۔ کبریٰ واقعہ کا اظہار کرتے ہوئے بے حد بد حواس
تھی ، بلال کی حالت ایسی ہی تھی کہ بوکھلاہٹ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
وہ بری طرح جل چکا تھا۔ کوئی بھی لفظ بلال کے کرب کو بیان نہیں کر سکتا تھا
۔ اسکے جسم کی تپش مجھے اپنی روح کی گہرائیوں تک محسوس ہو رہی تھی میں نے
بلقیس سے معذرت کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ اگرچہ میری یہ آنکھیں ہر قسم کے
گھاؤ کو دیکھنے کی عادی ہو چکی ہیں لیکن میں بلال کے جھلسے ہوئے بدن پر
پھایا رکھنے کے دل خراش منظر کو نہ دیکھ سکوں گا۔ دو گھنٹے کا یہ طویل
ہوائی سفر ایک نہ ختم ہونے والا سفر لگ رہا تھا ۔۔۔ منتشر خیالات کی
یلغار۔۔۔ وقت جیسے تھم سا گیا تھا اور ہیلی کاپٹر میں پہلے سے موجود خاموشی
اور بڑھ گئی تھی ہم سکھر کے اوپر پرواز کر رہے تھے ۔ میں نیچے حد نظر تک
سپاٹ اور بنجر زمین کو دیکھ رہا تھا اور آنے والے لمحات کے بار ے میں سوچ
رہا تھا ۔ اچانک پائلٹ کو وائر لیس پر ایک پیغام موصول ہوا جسے میں نہ سن
سکا ۔ پائلٹ نے اونچی آواز میں کہا ۔’’مولانا ! کیا آپکا نواسہ ہسپتال میں
ہے ‘‘ میں کانپ اٹھا ’’ میں نے پوچھا کیوں ؟ اس نے بڑے دکھ سے کہا کہ
’’مولانا وہ فوت ہو چکا ہے ‘‘ ۔ پائلٹ نے واپس مڑنے کا مشورہ دیا ۔’’ نہیں
نہیں ‘‘ میں نے کہا ’’ اب بہت دیر ہو چکی ہمیں خاصا کام کرنا ہے بلقیس کو
بتائیں کہ وہ اسکی تدفین کا انتظام کرئے اور میرا انتظار نہ کرئے ‘‘ ۔ بلال
کو عید کی تین چھٹیوں کی وجہ سے نہ ڈاکٹر میسر آ سکا تھا نہ دوائیوں کی
دستیابی ۔۔۔ لیکن اب وہ اس اذیت سے نجات پا چکا تھا۔۔۔ اب وہ آزاد تھا ۔
میری آنکھوں میں آنسو نہ تھے ۔۔۔ اندر ، ہی اندر ابلتے ہوئے آنسوؤں کو پی
رہا تھا ۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ |