ذاتی طور پر حلب (Aleppo )کا نام پہلی دفعہ
1987ء میں سنا جب ہمارے والد ایک انٹر نیشنل اسلامک کانفرنس کے علمی و
تحقیقی سیشن میں شر کت کے لیے وہاں گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں
روسی افواج شکست سے دو چار ہورہی تھیں اور پوری اسلامی دنیا میں بیداری کی
ایک لہر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ ان ہی جذبوں میں ٹیکنالوجی کے حصول کے ساتھ
ساتھ اپنے وسائل میں اضافہ اور خود مختاری کے جذبات بھی شامل تھے ۔ یہ
کانفرنس اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ہمارے والد کے مقالے کا موضوع اسلامی دنیا
میں آبپاشی کے طریقے تھا۔ انبیاؤں کی سرزمین میں اس عنوان سے بحث روشن
مستقبل اور امکانات کی ایک نئی دنیا تھی۔
یہ ساری باتیں ہم اب کہہ رہے ہیں ورنہ در حقیقت اس زمانے میں ہماری دلچسپی
سر زمین شام خصو صاً حلب سے آئے ہوئے تحائف میں تھی۔ ملبوسات سے لے کر
خوشبویات اور حلویات ! اپنے مضمون کو آگے بڑھا نے سے پہلے ہم کانفرنس کی
بات مکمل کرلیتے ہیں ! جی ہاں بیداری کی اس لہر کو ہنود اور یہود نے محسوس
کرتے ہوئے جلد زائل کر کردیا۔ بہت پیار سے ! یہ کہہ کر کہ مسلمانو! آپ کیوں
اپنی جان گھلاتے ہیں ہم ہیں نا! تحقیق اور جستجو کے لیے ․․․․اور ویسے بھی
خطے میں پرانی بساط لپیٹ کر نئی بچھائی جا رہی تھی۔جلد ہی ضیاء الحق کا
طیارہ حادثے کا شکار ہوا اور اس کے بعد ساری مستعدی ہوا ہوگئی ۔بھاگ دوڑ
فائلوں میں ہی رہ گئی جسے وقت کے ساتھ دیمک کھاگئی یا پھر وائرس!
ہمارے والد شام کے علماء اور وہاں کی لائبریریوں سے رابطے میں رہتے
تھے۔وہاں سے انواع و اقسام کی نادر کتب کے ذخیرے جمع کرتے جو اس وقت تو
ہمیں محض اپنے خوبصورت اور دیدہ زیب جلدوں کی وجہ سے اچھی لگتی تھیں کہ
ڈرائنگ روم کی زینت تھے ۔ کچھ عر صے بعد ہمارے بھائی کو تعلیم سے فارغ ہوتے
ہی وہیں ملازمت مل گئی۔ دمشق کے ایک قصبے دیرالزور میں ان کی پوسٹنگ
تھی۔اتفاق سے ان کی شادی بھی ایک شامی خاتون سے ہوئی ۔جس کے بعد دمشق گویا
ہمارا دوسرا گھر بن گیا۔ ہر سال بلکہ کبھی کبھار سال میں دو دفعہ جب وہ
پاکستان آتے تووہاں کی سوغاتیں ہم سب کے لیے خوشی کا با عث بنتیں ۔کھانے کی
کوئی شئے ہو یا پہننے کی، سجاوٹ کی ہو یا ضرورت کی ہر شاپنگ بیگ پر لکھے
تمام شہروں کے نام میں حلب ضرور ہوتا۔ معلوم ہوا کہ اگر چہ دمشق دنیا کا
قدیم ترین شہر ہے مگر حلب ایک ثقافتی اور ترقی یافتہ شہر ہے!بھائی کے مطابق
مسجد اقصیٰ ان کے گھر سے محض چالیس پینتا لیس منٹ کی مسافت پر ہے لیکن ظا
ہر ہے ایک پاکستا نی کی حیثیت سے وہا ں جا نا ممکن نہیں !
ہماری بھاوج ایک سگھڑ، مجلسی اور باتونی خاتون ہیں۔وضع قطع میں کچھ کچھ
یورپی مگر روایات و اقدار اور آداب اسلامی اور ایشیائی!
انہوں نے شروع شروع میں اردو سیکھنے کی کوشش کی مگر جب اردو ، عربی انگلش
کی چٹنی سے کام چلنے لگا تو یہ مہم جوئی ختم کردی۔ جب وہ کراچی ہوتے تو شہر
کا کونا کونا چھان مارتے۔ فر نیچر سے لے کر مصالحہ جات تک کوئی دکان چھوڑی
نہ جاتی۔ تفریح گاہوں سے لے کر رشتہ دار ں تک! گفتگو کا محاذ ہمیشہ گرم
رہتا۔بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر دنیا بھر کے حالات! دونوں ملکوں،
شہروں کی ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر ضرور بات ہوتی۔ مگر سیاست ایسا موضوع
ہوتا جس پر ہماری بھاوج خاموش ہوجاتیں ․․․․ہم پاکستانی خواہ کتنے ہی گئے
گزرے ہیں مگر بقول شخصے یہاں بھونکنے کی تو آزادی ہے۔! جی ہاں ہم نے جبر کا
لفظ صرف پڑھا ہے اسے برتا نہیں ! خوب دھڑلے سے سیاست اور سیاست دانوں پربات
کرتے ہیں مگر عرب دنیا میں یہ موضوع شجر ممنوعہ ہے ۔ خصوصاً شا م میں ایک
اقلیتی فرقے کی حکمرانی تھی اور ہے جس کے باعث وہاں کے شہری محتاط ہیں ۔
دروز فر قے سے تعلق رکھنے والے شام کے صدر حافظ الاسد نے 1963 ء میں بر سر
اقتدار آکر سنی العقیدہ مسلمانوں خصو صاًاخوان المسلمین پر ظلم کے پہاڑ
توڑے ہوئے تھے کہ لوگ اس سے تعلق رکھنے یا اس کی اصطلاحات استعمال کرنے سے
خوف زدہ رہتے تھے۔
2000ء میں بھائی کی فیملی کراچی میں تھی۔مستقل سیاہ لباس زیب تن کرنے کی
وجہ بچیوں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں سمجھا ئی کہ ان کے صدر ( حافظ الاسد
) کا انتقال ہوگیا ہے۔ مزید یہ کہ نیا صد رنو جوان ڈاکٹر ہے اسی سال اس کی
شادی بھی ہوئی ہے ۔ امید ہے کہ اچھا ثابت ہوگا! آہ خوش فہمیوں کے دلاسے!
کفن چور باپ بیٹے کی کہاوت یاد آگئی ۔ بشار الاسدنے اپنے باپ کے جبرکا
تسلسل ایسا بڑھا یا کہ لوگ باپ کو بھول گئے! مسیحا کو انسانیت دوست کہا جا
تا ہے مگر شام کے بد قسمت شہریوں کے لیے تو یہ قصائی ہے جس کے ہاتھ معصوموں
کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں ۔
ملکی سطح پر پاکستان اور شام کے تعلقات دوستانہ کبھی نہیں رہے ۔دونوں ممالک
کے تحفظات ایک دوسرے کے لیے ہیں ۔یہ 2001ء کا ذکر ہے جب صدر مشرف دمشق گئے
تو وہاں موجود پاکستانیوں سے ملاقات کی جس میں بھائی کا خاندان بھی تھا۔ اس
کی تصویر ڈان سمیت تمام اخبارات میں شائع ہوئی۔ اس تصویر کے حوالے سے اپنے
بھائی کو خط لکھا تو جب یہ وہاں پہنچاتو وزارت خارجہ نے اس اردو خط کا
ترجمہ کروایا اور اس جملے کو پڑھنے کے بعد بھا ئی کو طلب کر کے متنبہ کیا
کہ ذاتی خطوط میں سیاسی معاملات کا ذکر نہ کیا کریں ! پاکستان آمد پر بھائی
نے اس واقعے کا ذکر بطور لطیفہ کیا اور بھاوج نے مذاق کیا کہ جب تم آؤ گی
تو تم سے پوچھ گچھ ہوگی! ہم نے اس دھمکی کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا مگر یہ
بھی محض اتفاق ہے کہ ان کے وہاں بیس بر سوں کے قیام میں ہمارا جا نا ممکن
نہ ہو سکا!
یہ فروری 2011ء کی ایک خنک صبح تھی جب دمشق سے بھائی کا فون آیا ۔وہ اگلے
ہفتے مع فیملی انگلینڈ جارہے ہیں واپسی میں کراچی سے ہمیں بھی ساتھ لے کر
دمشق چلیں گے! انہوں نے مارچ کے آخری ہفتے کی بکنگ کرانے کو کہا کہ اب موسم
بہتر ہوگیا ہے شام ، مصر ،ترکی کے بعد عمرہ کی ادائیگی! ان دنوں عرب بہار
کی دھوم تھی لہذا ہم نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس کے جوا ب میں بھائی نے
ہنستے ہوئے کہا کہ یہاں امن ہے ! اس وقت رات کے دو بجے ہیں اور ہم ابھی
شاپنگ کر کے لوٹے ہیں ․․․․( دمشق کی راتیں جاگتی ہیں ! ) ․․․․
یہ اطمینان کی آخری گفتگو تھی کیونکہ اس کے بعد وہاں کے حالات جو بد سے بد
ترہوتے گئے وہ سب کے سامنے ہے ! شام کی خرابی احادیث سے منقول ہے مگر یہ سب
کچھ اتنی جلدی ہوگا تصور میں نہ تھا۔زندگی کا رنگ بدلنے میں محض چوبیس دن
لگے اور وہ اپنے کھنڈر ہونے والے شہر کو پھر واپس نہ جا سکے!جانیں تو بچ
گئیں مگر تتر بتر ہونے والے اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے غم نے زندگی کو
اشکوں میں ڈبو دیاجس کا کوئی مداوا نہیں!․․․․ اور گزرا سال تو بد ترین ہے
کہ دنیا کی ہر جارحیت کے لیے میدان مبارزت ہے۔یہ مضمون گھمبیرجنگی معاملات
سے قطع نظر محض ذاتی احساسات کے طور پر لکھا گیا ہے مگر یہ صرف ایک خاندان
کی کہانی تو نہیں ہے ،پوری قوم کی در بدری ہے !
پچھلے دنوں ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی جس میں اہل شام کی مظلومیت کے بجائے
دبئی، یورپ اور دیگر ملکوں سے اظہار ہمدردی کی گئی تھی کہ اصل توجہ تو عیش
و عشرت میں ڈوبے دنیا بھر کے مسلمانوں کو کرنی چاہیے کہ شام کے لوگ تو اپنے
ریوڑ میں واپس آرہے ہیں․․․جی ہاں ! ہلاکو خان کی بیٹی کا مکالمہ ایک عالم
دین سے تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے ۔ مذکورہ واقعے سے معلوم ہوتاہے کہ جب
تک مسلمان اپنی پناہ گاہ یعنی اسلام میں نہیں داخل ہوں گے اسی طرح ذلیل و
خوار ہوتے رہیں گے! اسکول کے دوران مغلیہ دور کا زوال پڑھتے ہوئے ہم بہن
بھائی اس بات پر افسوس بھری حیرت کا اظہار کرتے تھے کہ شہزادے کس طرح اس بے
بسی سے ماردیے گئے( ہمارے خیال میں بادشاہ تو بہت طاقت ور ہوتے تھے! )اور
آج مسلمانوں کو بے بسی سے مرتا دیکھ کر یقین آگیا ہے کہ طاقت کا انحصار صرف
وسائل سے نہیں مشروط بلکہ اس کے لیے جذبہ ایمانی درکار ہے جو آج کے مسلمان
میں مفقود ہے ۔
دنیا بھر میں پھیلی ہوئی امت مسلمہ جس طرح اپنے داخلی اور سطحی مسائل میں
گھری ہوئی ہے سوائے افسوس کے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔اور احادیث میں توغزوہ
ہندکا بھی ذکر ملتا ہے ۔اس کی ہم نے کیا تیا ری ہے؟ غفلتوں میں ڈوبی، زندگی
کا لطف اٹھا تی اور برسوں کی منصوبہ بندی کرتی ہماری قوم ! پتہ نہیں اس کے
پاس چوبیس دن یا گھنٹے بھی ہیں یا نہیں؟ |