پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور قومی بے حسی و بے غیرتی

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات جمہوری حکومت کے قیام کے بعد مزید بڑھ گئے ہیں اور مشرف کے کم و بیش ٨ برس کے دور حکومت میں دہشت گردی کے اتنے واقعات نہیں واقع ہوئے جتنے جمہوری دور حکومت میں پیش آرہے ہیں اور افسوس کا مقام ہے کہ مشرف کے دور میں ہونے والی ہلاکتوں پر آواز بلند کرنے اور زکر کرنے والے موجودہ دور حکومت میں ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف کوئی آواز اٹھانے پر بھی تیار نہیں ہیں اور قومی بے حسی بلاشبہ ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔

مثال کے طور پر ہمارے اس پلیٹ فارم یعنی ہماری ویب ڈاٹ کام پر بھی ہم نے عجیب قسم کی بے حسی اختیار کر لی ہے اور کسی ایک واقعے میں ہونے والی سو سے زائد اموات اور سینکڑوں زخمی ہونے والے پاکستانی شہریوں کے حق میں ہمارا کوئی ساتھی کیا ایسے واقعے کو اہمیت نہیں دے رہا جو کسی نے اس پر قلم اٹھانے کی زحمت کی ہو (مجھ سمیت کہ بھائی ٹائم نہیں تھا) اور طرح طرح کی کہانیاں اور قصے سنانے میں ہم مشغول رہتے ہیںِ۔

٩ جولائی کو مہمند ایجنسی کی تحصیل یکہ غنڈ میں ہونے والے خود کش حملے اور کار بم دھماکے کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت ١١١ سے زائد افراد ہلاک اور ٢٠٠ سے زائد افراد زخمی ہوئے اور مانو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی بات ہی نہیں ہوئی ہماری قومی زندگی اپنی رفتار سے رواں دواں ہے اور کوئی احساس زیاں اور کوئی احساس ذمہ داری اور معذرت کے ساتھ کیا ہم قومی حمیت اور قومی غیرت سے بالکل ہی نا آشنا ہوتے جارہے ہیں۔

مذکورہ واقعے میں روائتی طور پر تحریک طالبان پاکستان نے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول بھی کر لی تھی۔ اور حسب روایت صدر مملکت اور وزیراعظم نے اس واقعے کی شدید مذمت بھی کر لی۔ اور وزیراعظم صاحب نے اس واقعے کی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ حکومت عسکریت پسندوں کی اس قسم کی بزدلانہ کاروائیوں سے مرعوب نہیں ہوگی اور انتہا پسندی و دہشت گردی کی خلاف مہم جاری رہے گی۔

کیوں بھائیوں چند مخصوص بارہ مئی ٹائپ کی تاریخوں کو یاد رکھنے اور رکھانے کے بعد کیا مہمند ایجنسی جیسے ایک دہشت گردی کے واقعے کہ جس میں سو سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئیں ان کی مذمت کرنے اور ان پر افسوس کرنے کے لیے کیا ہمارے پاس چند الفاظ بھی نہیں ہیں کیا ان دہشت گردی کی کاروائیوں میں ہلاک ہونے والے مسلمان نہیں تھے کیا انسان نہیں تھے جو ان کی اموات پر کوئی الفاظ بھی نہیں ہیں ہمارے پاس۔ اور کیا صرف حکومت اور سیاسی لیڈران کا ہی کام ہے کہ ایسے واقعات کے بعد مذمتی بیانات جاری کردیں اور ہم من حیث القوم ٹوئنٹی ٹوئنٹی جیسے خوابوں میں کھوئے رہیں۔

معذرت کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ افسوس قومی بے حسی اور بے غیرتی کی جس راہ پر ہم چل نکلے ہیں اس کا انجام اس سے کہیں زیادہ ذلت آمیز ہوتا ہے کہ جس انجام سے ہم گزر رہے ہیں کہ جس طرح کے چیٹرز ہمارے ملک کے آئین ساز اداروں میں سرائیت کر چکے ہیں اور جس قسم کی سیاست اور حکومت ہمارے ملک میں ہو رہی ہے اس پر سوائے کف افسوس ملنے کے ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ کاش ہم کچھ تو سمجھداری کا ثبوت دیں اور محنت، لگن، غیرت اور قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فرائض کو انجام دینے کی کوشش کریں۔ اور ہر بات میں حکومت کر رونے پیٹنے کے بجائے ہم اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنی اصلاح کی کوششیں کریں۔

اپنے کالم کا اختتام اس شعر پر کرتا ہوں۔

جو سورما ہو تو چنگیز خان سے ٹکر لو
فقت مذمت چنگیز خان سے کیا ہوگا
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532488 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.