اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ اختیار اور حق
دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے کہ وہ اپنی زندگی اچھے طریقے سے گزارے اور خود
کو بہتر انسان بنا سکے انسان کو نا صرف یہ اختیار و حق دیا بلکہ اس اختیار
اور حق کے مطابق اپنی زندگیاں سنوارنے کے لئے اچھائی اور برائی کے راستوں
کا فرق اور ان راستوں پر چلنے کا انہیں اختیار کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے
اور ان طریقوں کو اختیار کرنے یا نہ کرنے اور ان راستوں پر چلنے یا نہ چلنے
کے نتائج و اثرات سے بھی آگاہ کیا ہے تاکہ انسان بہک نہ سکے بھٹک نہ سکے
اور خود کو خوب سے خوب تر بنانے کی جستجو جاری رکھتے ہوئے انسانیت کی معراج
کی منزل پا سکے لیکن کیا ہم انسان یہ سب کر پاتے ہیں جو راستہ ہمیں ہمارے
خالق نے بتایا ہے ہم اس پر چل پاتے ہیں جن باتوں سے جن کاموں سے جن چیزوں
سے منع فرمایا ہے کیا ہم ان سے خود کو دور رکھ پاتے ہیں کیا ہم اپنے رب کی
طرف سے عطا کردہ اختیار کا جائز استعمال کر پاتے ہیں شاید نہیں یا پھر شاید
اس کا جواب ہاں میں ہے لیکن اس بات کو جاننے کے لئے ہمیں خود کو جانچنا
ہوگا خود کو جاننا خود کو پہچاننا ہوگا-
ہمیں اختیار ہے کہ ہم اپنے اچھے عمل سے اپنی اور اپنوں کی زندگی سنواریں
اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی کچھ ایسا کر جائیں کہ جس سے ہمارا رب بھی
راضی ہو اور دوسروں کو ہماری اور ہمیں دوسروں کی محبت بھی حاصل ہو جائے-
لیکن پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں محبت خاص طور پر رواں دور میں
لوگوں کے دل ایک دوسرے کی محبت سے خالی ہوتے جا رہے ہیں اور دل کہ جو محبت
کا مسکن ہے اس میں نفرت کے بیج اس تیزی سے پنپتے لگتے ہیں کہ دنیا میں بعض
وقت تو ہر سمت نفرت ہی نفرت دکھائی دینے لگتی ہے ایک انسان دوسرے انسان کے
خون کا پیاسا دکھائی دیتا ہے بس نہیں چل پاتا کہ اپنے غم و غصے اور نفرت
وحسد کا اظہار اس شدت سے کیا جائے کہ اس غصے اور نفرت و حسد کی آگ جس پر
غصہ ہے اسے جلا کر خاک کردے بھسم کردے راکھ کر دے-
کیوں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کبھی کبھی دو مخاطب معمولی سی رنجش کو طول دے کر
اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ مفاہمت کی کوئی صورت ہی سجھائی نہیں دیتی چھوٹی
چھوٹی یسی باتوں پر اس قدر شدید رد عمل کا اظہار کیا جاتا ہے گویا کہ ایک
دوسرے کو جان ہی سے مار ڈالیں گے-
افسوس کہ کبھی کبھی غصے کی یہ شدت کچھ لوگوں میں اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ
انہیں مخالف کو ختم کئے بغیر چین ہی نہیں آتا جبکہ اس چین یا سکون کی بہت
جلد بہت بھاری قیمت بھی چکانا پڑتی ہے-
کیوں ایک انسان جبکہ دوسروں کے بارے میں اچھا سوچ سکتا ہے اچھا کہہ سکتا ہے
اور اچھا کر سکتا ہے تو پھر کیوں دوسروں کے بارے میں برا سوچا کہا اور کیا
جائے جبکہ ایک انسان جب کسی کو اچھی نگاہ سے دیکھتا ہے اس میں اچھائی تلاش
کرتا ہے اچھا سوچتا یا اچھا کہتا ہے تو خود اس کے اندر بھی اچھائی پیدا ہو
رہی ہوتی ہے بلکہ اس کے اپنے باطن کی اچھائی ہی اس کے سامنے عیاں ہو رہی
ہوتی ہے جو کہ کسی کے ذاتی طور پر خود ایک اچھا انسان ہونے کی بین دلیل ہے-
اسی طرح دوسری صورت میں جب کوئی ایک انسان دوسرے انسان کو غلط یا بری نگاہ
سے دیکھتا برا سوچتا برا کہتا یا برائی کرتا ہے تو اصل میں اس قسم کے منفی
طرز فکر و عمل سے خود اس کے اپنے اندر کا گھناؤنا پن اور برائی کا اظہار
ہوتا ہے اور دوسرے کی بجائے خود اس کی اپنی ذات پر ہی برائی آ پڑتی ہے-
کون ہے جو یہ چاہے کہ وہ برا بن جائے یاد رکھیں کہ دوسروں کو برا ثابت کرنے
والا خود سب سے برا ہوتا ہے جبکہ دوسروں میں اچھائی دیکھنے والا خود اچھا
انسان ہوتا ہے اب یہ ہم انسانوں پر ہے کہ ہم اپنے آپ کو کس سانچے مین
ڈھالنا پسند کریں گے یقیناً اس کا جواب ہاں ہی ہے کہ کوئی بھی خود کو برا
بنانا دیکھنا یا سننا کبھی پسند نہیں کرتا لیکن اس کے لئے ہمیں واقعی خود
کو اچھا ثابت کرنا ہے کسی دوسرے نے نہیں کرنا اور ہم سب ہی جانتے ہیں کہ
اچھا بننے کے لئے کیا کرنا ہے اور برائی سے کیسے بچا جا سکتا ہے بس تھوڑی
سی سمجھ سے مثبت سوچ سے صبر برداشت اور محبت سے کام لینا ہوگا اپنے ارد گرد
رہنے بسنے والے انسانوں میں خامیاں تلاش کرنے کی بجائے ان میں موجود حسن و
خوبی کو اپنی آنکھوں پر لگی تنگ نظری کی عینک اتار کر دل کے شفاف آئینے صاف
عکس دیکھنے کی کوشش کرنا ہوگی-
انسان کے ہاتھوں انسان کی تذلیل، انسان پر ظلم اور انسان پر جبر ہوتا دیکھ
کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ جب انسان اچھائی برائی اور گناہ و ثواب کے اثرات و
نتائج سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود بھی خود پر کیوں قابو نہیں پا لیتا
کیوں خود کو اس بے اختیاری کے ہاتھوں تباہی و بربادی کے دھانے پر لا
پھینکنتا ہے-
سوچیں کہ اگر انسان اپنے نفس پر قابو پا لے تو وہ خود کو ہر قسم کے شر
برائی اور تباہی سے کس حد تک محفوظ رکھ سکتا ہے لیکن پھر بھی جذبات کے
ہاتھوں مغلوب ہو کر اذیت اٹھاتا ہے اور خود کو برائی کی راہ پر چلنے سے روک
نہیں پاتا ہے خود کو بچا نہیں پاتا-
لیکن وہ لوگ جو اطاعت گزار ہیں جو اہل وفا ہیں جن کا دین و ایمان حقیقی
محبت ہے وہ ابھی اس دنیا میں موجود ہیں اور ایسے ہی لوگوں کے دم سے یہ دنیا
انتا کچھ ہو جانے کے باوجود بھی آج تک قائم و دائم ہے یہ وہ لوگ ہیں کہ جو
نہ صرف رب تعالیٰ کی ذات کو زبانی کلامی جانتے و مانتے ہیں بلکہ اس کی
اطاعت و فرمانبرداری میں کامل ہوتے ہیں اطاعت محبت سے ہے اور محبت کا تعلق
دل سے ہے جس دل میں رب کی محبت ہے وہ یقیناً رب کی مخلوق سے بھی محبت رکھتا
ہے اور جہاں محبت ہوتی ہے وہاں نفرت نہیں پنپ سکتی کہ محبت ہی ہے جو قلب و
نظر سے ہر قسم کی نفرت کو نکال پھینکنتی ہے اطاعت و محبت ہی انسانوں میں
صبر اور برداشت کا مادہ پیدا کرتی ہے اور جس میں دوسروں کے رویوں اور باتوں
کو صبر و تحمل سے برداشت کرنے کی صفت پیدا ہو جائے وہ دوست اور مخالفین یا
رفیق و حریف بلا تفریق ہر کسی کی کوتاہیوں سے درگزر کرتے ہوئے خندہ پیشانی
سے برداشت کر لیتا ہے بلکہ اپنے حسن اخلاق سے دوسروں کو بھی اپنے رنگ میں
ڈھال لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے-
ایسے ہی انسانوں کا حسن عمل ان کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی کشش اور حسن
جاگزین کر دیتا ہے کہ دوست تو دوست مخالفین بھی ان کی سمت کھینچے چلے آتے
ہیں-
اور یہ وہی انسان کر سکتے ہیں جن کا ایمان کامل ہے جو اللہ کی ذات پر سچے
دل سے ایمان رکھتے ہیں نہ صرف ایمان رکھتے ہیں بلکہ اس کی اطاعت و پیروی پر
جی جان سے ہمہ وقت عمل پیرا رہنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں-
سوچیں کیا ہم بھی ایسا کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں کرتے ہیں تو بہت خوب نہیں
کرتے تو کیا کر سکتے ہیں اور یقیناً کر سکتے ہیں کہ انسان سب کچھ کر سکتا
ہے بشرطیکہ دل سے کرنا چاہے-
اللہ تعالیٰ ہمارے قلب و نظر کو تاحیات ایمان کی روشنی سے منور رکھے، ہمیں
حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اس پر ہمیشہ قائم رہنے کی توفیق و ہدایت
مرحمت فرمائے (آمین)- |