ہفتہ ۹ جولائی کو لندن کے ٹریفالگر اسکوائر میں گیارہویں
سالانہ عید فیسٹول منعقد کیا گیا جس میں مختلف مذاہب اور پس منظر سے تعلق
رکھنے والے افراد نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔
تقریب میں لائیو پرفارمنس کے ساتھ ساتھ متعدد دلچسپ کھیلوں اور سرگرمیوں کا
بھی انعقاد کیا گیا۔اس میلے میں کیٹ واک، فیشن شوز، میجک شوز کے ساتھ ساتھ
بچوں کی دلچسہی کے لیے بھی کئی چیزیں موجود تھیں مثلاً فیس پینٹنگ، خطاطی،
داستان گوئی وغیرہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔
|
|
اس تقریب کی اہم بات لندن کے پہلے مسلمان مئیر صادق خان کی تقریر تھی۔ صادق
خان نے کہا کہ لندن کی ایک بڑی قوت مذہبی آزادی ہے جو مختلف مذاہب سے تعلق
رکھنے والوں کو حاصل ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ دوستی کا ہاتھ مزید دراز کیا
جائے کیوں کہ ریفرنڈم کے بعد منافرت کے جرائم میں اضافہ ہوا ہے، انہوں نے
اسلام کے نام پر برائی کرنے والوں کی مذمت کی اور کہا کہ منافرت کے نام پر
جرائم ناقابل برداشت ہیں اور لندن الوں کو لڑانے والے کامیاب نہیں
ہونگے۔انہوں نے کہا کہ وہ دنیا کو یہ بتائیں گے کہ لندن دنیا کا عظیم شہر
ہے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانی چاہے دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں، پاکستان کی
محبت ان کے دل میں موجزن رہتی ہے اوران کے دل میں بھی وطن کی اتنی ہی محبت
ہوتی ہے جتنی کہ کسی بھی عام پاکستانی کی، بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ ان کے
دل میں ہم لوگوں سے زیادہ محبت ہوتی ہے تو یہ بے جا نہ ہوگا کیوں کہ یہ
سیدھی سی بات ہے کہ دوری میں محبت بڑھتی ہے اور وطن سے دوری کے باعث
اوورسیز پاکستانیز کے دلوں میں وطن کی محبت ہم لوگوں سے زیادہ ہی ہوتی ہے۔
|
|
لندن میں مقیم پاکستانی بھی گاہے بگاہے ایسی تقریبات منعقد کرتے رہتے ہیں
یا ان میں بھر پور حصہ لیتے ہیں جس میں وہ اپنے وطن سے محبت کا اظہار
کرسکیں ہیں۔ ’لندن عید فیسٹیول‘‘ میں وادی سندھ کی خوب صورت تہذیب اور
ثقافت کو جاگر کرنے کے لیے بھی مختلف اسٹالز لگائے گئے تھے ۔ منتظمین نے ان
اسٹالز کو ایسا خوبصورت رنگ دیا گویا کہ وہ لندن نہیں بلکہ وادی سندھ کا
کوئی گاؤں ہے۔
مقامی کمیونٹی نے پاکستانی اسٹالز میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ پاکستانی
اور بالخصوص سندھ کی ثقافت میں مقامی آبادی کی دلچسپی اور ذوق و شوق دیدنی
تھا۔
|
|
مہندی کے اسٹالز پر یورپین خواتین نے بڑے شوق سے مہندی لگوائی اور اپنے
ہاتھوں کو برصغیر کی ایک خوبصورت روایت ور قدیم تہذیب کے رنگ میں رنگ دیا۔
پاکستان کی سڑکوں پر دوڑتے سی این جی رکشہ بھی لوگوں کی نگاہ کا مرکز تھے۔
سندھی ٹوپی اور سندھی ثقافت کو اجاگر کرتا کراچی آرٹ اینڈ کلچر کا اسٹال
میلے میں نمایاں تھا اور مقامی افراد نے یہاں پر موجود اشیا میں بہت دلچسپی
لی ۔ کراچی آرٹ اینڈ کلچر اسٹال کے منتظم جوڑے ذوہیب آفتاب مرسلین اور
ماریا ذوہیب کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس اسٹال کے ذریعے پاکستانی ثقافت
بالخصوص وادی سندھ کی قدیم تہذیب کو دنیا کے سامنے متعارف کرانے کی کوشش کی
ہے اور دنیا کے سامنے پاکستان کے اچھے تاثر کو اجاگر کرنے کی ایک چھوٹی سی
کوشش ہے۔
|
|
قابل تعریف ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس میلے میں پاکستانی ثقافت اور تہذیب کو
اجاگر کرنے کے لیے یہ اسٹالز سجائے اور اپنے وطن سے ہزاروں میل دور نہ صرف
یہ کہ وطن کو یاد رکھا بلکہ گوروں کو اپنی شاندار روایات ، تہذیب اور ثقافت
سے آشنا کرایا اور دنیا کے سامنے پاکستان کا ایک خوبصورت تاثر اجاگر کیا۔
|
|