قارئین ہر چیز زندگی میں بہت عزیز ہوتی
ہے۔اور والدین کے لیے سب سے عزیز ان کی اولاد ہوتی ہے۔ اولادکو اگر ایک
کانٹا بھی چبھ جائے تو تکلیف ہوتی ہے۔اور اپنے بچوں کی تکلیف ماں باپ کے
لیے سوہان روح ہوتی ہے۔ماں رات کو جاگتی ہے۔اپنے بچے کو اپنی آغوش میں
سلاتی ہے۔جب بچہ روتا ہے ۔تو ماں اس وقت تک بے چین ہوتی ہے۔جب تک بچے کے
آنسو خشک نہیں ہوتے۔اور اسی طرح باپ اپنے بچوں کے لیے چھاؤں ہوتا ہے۔مگر آپ
نے دیکھا ہو گا۔کہ اکثر بچے بڑے ہوکراپنے والدین کے نافرمان ہوتے ہیں۔جس
طرح بچپن میں والدین اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ اولاد کا بھی یہ فرض
بنتاہے کہ اس سے بڑھ کر بڑھاپے میں اپنے والدین کا خیال کریں۔محترم قارئین
چند دن پہلے میں آپ کو ایک مامتا کا واقعہ سناتا ہوں۔اور یہ حقیقت ہے۔شام
کے پانچ بجے تھے۔میں حسب معمول کالم لکھ رہا تھا۔میرے گیٹ پر کسی نے زور سے
گھنٹی دی۔جب میں نے دروازہ کھولا تو میری کزن افسردہ حالت میں تھی اس کا
سانس پھولا ہوا تھا۔تو میں اس کواندر لے آیا۔میں نے اس سے پوچھا باجی خریت
توہے۔تو اس نے بتایا کہ تھوڑی دیر پہلے بھائی میرا بیٹا گم ہو گیا ہے۔یہ اس
کے لیے بہت مشکل وقت تھا۔میں نے اس کو کافی تسلی دی۔مگر یہ بہت پریشان
تھی۔کیونکہ اس کا بیٹا اس کی نظروں سے اوجھل تھا۔اپنے بیٹے کی پدری محبت
اسے با ر بار تڑپا رہی تھی۔یہ بیچاری رو رو کر دعا کررہی تھی۔کہ یااﷲ میرا
بیٹا مل جائے۔آخر کار اﷲ کریم نے اس کی دعا سن لی۔اورکچھ دیر بعد اس کے
بھائی کا فون آگیا کہ آپ کا بیٹاگھر پہنچ گیا ہے۔اس نے اﷲ پاک کا شکر ادا
کیا۔اور کچھ دیر پہلے جو اس کا افسردہ چہرہ تھا ۔وہ خوشی سے بھر گیا۔اور
اپنے بچے سے لپٹ گئی اور اس سے پیار کرنے لگی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ
والدین کی بے مثالی محبت ہوتی ہے۔ایک ماں سے کسی نے پوچھا کہ،،آپ کے قدموں
تلے جنت ہے۔جو کہ ماں کی عزت کی نشانی ہے۔اگر آپ کو اﷲ پاک سے اس کے بدلے
کچھ طلب ہوتو کیا مانگیں گی،، ماں نے بہت خوبصورت لفظوں میں اس کا جواب
دیا۔میں اپنے بچوں کا نصیب مانگوں گی۔کیونکہ ان کی خوشی کے آگے میرے لیے ہر
جنت چھوٹی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین کی بے مثالی محبت ہوتی ہے۔اﷲ
تعالیٰ کا حکم ہے کہ میری عبادت کریں اور اپنے ماں باپ کی اطاعت کریں۔اور
پیارے آقا ﷺ کا فرمان مبارک ہے۔ کہ جو اپنے والدین کو محبت بھری نگاہ سے
ایک دفعہ دیکھے گا اﷲ پاک اس کو ایک حج کا ثواب عطا کرے گا۔قارئین محترم آج
کل جو ہمارے معاشرے کاکلچر بناہے۔جو والدین سے سلوک ہوتا ہے۔حتیٰ کہ ان کو
گالیاں بھی دیتے ہیں۔وہ حقیقت میں بہت بڑے خسارے میں ہیں۔جس طرح اﷲ پاک
قرآن پاک میں ارشا د فرمایا ہے۔کہ والدین سے ادب اور نرمی سے بات کرو۔اور
ان کو اف تک نہ کہو۔ناظرین اگر آپ غور کریں جو بچپن میں ماں اپنی اولاد کو
پیار دیتی ہے۔اس کو کہیں اور نہیں ملتا ہے۔آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا۔گھر میں
انتظار صرف ماں کرتی ہے۔بیوی بچوں میں محبت کی اتنی تپش نہیں ہوتی ہے۔جتنی
ایک ماں کے دل میں ہوتی ہے۔میاں محمد بخش ؒ فرماتے ہیں۔۔۔۔بھراں بھائیاں دے
دردی ہوندے۔بھراں بھائیاں دیاں بھاواں۔پیو سر دا تاج۔۔۔۔محمد۔ماواں ٹھنڈیاں
۔۔۔۔چھاواں۔۔قارئین محترم آخرمیں اسلامی بہنوں،ماؤں اور بھائیوں سے التجاء
ہے۔جن کے والدین زندہ ہیں ان کی خوب خدمت کریں اور ثواب دارین حاصل
کریں۔کیونکہ والدین کو محبت بھری نظر سے دیکھنا بھی عبادت ہے۔اور میں
سمجھتا ہوں آج ہمیں جو مرتبہ ملا ہے۔وہ اپنے ماں باپ کے صدقے پایا ہے۔آیئے
اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ وہ ہمارے والدین کی اور پیارے آقا ﷺ کی تمام
امت کی مغفرت کر کے ان کو جنت الفردوس میں اور ان کوسرکار دو عالم ﷺ کی
شفاعت نصیب فرمائے۔ آمین۔۔۔۔۔۔۔
|