والدین……!

25 جولائی والدین کے عالمی دن کے طور پر منایاجاتا ہے جس میں والدین کی عظمت عزت احترام و خدمت کو ملحوظ رکھنے کا درس دیا جاتا ہے اس عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے بچوں کو بتایااور سکھایا جاتاہے کہ والدین کی خدمت و اطاعت ہی دراصل ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے اور اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہیں کہ والدین کی دعا دنیا میں اور ان کی خوشنودی و اطاعت آخرت میں کامیابی کا زینہ ہے ماں کے قدموں تلے جنت کا بتایا گیا ہے تو وہیں پر والد کو جنت کے دروازے کی مثل کہا گیا ہے جنت میں جانے کیلئے دروازے کا استعمال ضروری ہے والد کی ناراضگی کو اﷲ تعالی کی ناراضگی کا سبب بھی مانا جاتا ہے الغرض والدین کی فرمانبرداری اور خدمت گزاری ہی میں سب پوشیدہ ہے لیکن جب ہم معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو کچھ تضادات اور پریشان کن حالات سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو انسان کو سوچنے پرمجبور کردیتا ہے کہ کوئی ماں یا باپ بھی اس حدتک جاسکتے ہیں اور اگر ہاں تو پھر اس کے پس پردہ کیا حقائق ہوتے ہیں اس کیلئے دو تین باتوں سے وضاحت کرنا چاہوں گا-

اس نے عجیب سی شرط رکھ دی تھی کہ اگر اپنی ماں کا کلیجہ نکال کر پلیٹ میں رکھ کر پیش کروگے تو میں تم سے شادی کرنے کو تیار ہوں ورنہ نہیں۔ وہ بڑا پریشان تھا وہ اس عورت کو ٹوٹ کر چاہتا تھا اور کسی بھی طور حاصل کرنا چاہتا تھا جب کہ اپنی ماں کو بھی نہیں کھونا چاہتا تھا۔اس کی پریشانی ماں نے بھانپ لی اور اس بابت پوچھا تو وہ ٹال گیا۔دوسرے تیسرے دن پھر ماں نے مامتا سے مجبور ہوکر پھر پوچھ لیا تو اس نے چار و ناچار بتایا کہ وہ جس عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے دنیا کی حسین ترین عورت ہے لیکن اس نے آپ کے کلیجے کے عوض سے مشروط کیا ہے۔میں آپ دونوں کو کھونا نہیں چاہتا۔ماں بھی یہ سن کر خاموش ہوگئی ۔ کچھ عرصہ بڑا اضطراب اور بے سکونی میں گزرا اور آخر کار محبوبہ کی محبت جیت گئی اور اسی غلبے کے تحت ایک رات اس نے اپنی سوئی ہوئی ماں کو خنجر سے ما ر کر اس کا کلیجہ نکال لیا اور پلیٹ میں رکھ کر محبوبہ کے دولت کدے کی جانب چل پڑا ۔ کچھ دور چلنے کے بعد اسے ٹھوکر لگی اور وہ طشتری سمیت زمین پر گر گیا ۔ اس نے زمین سے اٹھ کرکلیجے کو طشتری میں رکھا تو اسے ماں کے کلیجے سے آواز آئی ’’بیٹا چوٹ تو نہیں لگی‘‘ اﷲ اکبر۔یہ ہے ماں کی ممتا اپنی اولاد کیلئے اور ایسی بہت سی مثالوں سے دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ ماں کوکھ میں رکھنے سے جنم دینے تک اور پھراس کی پرورش سے لیکرجوانی تک اولاد کیلئے ہزاروں صعوبتیں برداشت کرتی ہے اور کوئی بھی شخص دنیا وآخرت میں ماں کی ایک دن کی پرورش اور تکلیف کا قرض ادا نہیں کرسکتا۔ وہ ہستی ہے جو اولاد کی ذرا سی تکلیف برداشت نہیں کرسکتی حتی کہ ایک کانٹے کی نوک اور سلی (پھانس) کے چھبنے پر بھی تڑپ اٹھتی ہے ۔ گرمی و سردی کی پرواہ کئے بغیر اپنا حسن و شباب جوانی اپنی اولاد پر نثار کردیتی ہے۔

اسی طرح باپ کی اولاد سے محبت کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ ایک باپ اپنی اولاد کی خاطر شب و روز کمانے میں گزار دیتا ہے۔ اپنی خوشیاں،راحتیں،اپنی جوانی کو اولاد کیلئے اچھا مستقبل دینے کی تگ و دو میں جھونک دیتا ہے۔بسا اوقات اپنی اولاد کی خاطر نفع و نقصان کی پرواہ کئے بغیر دنیا سے ٹکرا جاتا ہے اس کی ذراسی کی تکلیف پر باپ اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہوجاتا ہے اگر کوئی اولاد کو انگلی بھی ٹچ کردے تو اسکی جان لینے پر اتارو ہوجاتا ہے اور اسکی اکثر مثالیں کتاب دنیا کی صفحات کی زینت بن چکی ہیں کہ بچوں کی آپس کی لڑائی میں خاندان کے خاندان صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں اولاد کی محبت میں جائز و ناجائزکو پرکھے بنا والدین نجانے کیا کچھ کرنے پرتیار ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے حقیقی جذبہ ہے بناوٹ و تصنع سے پاک احساسات صرف والدین ہی سے منسوب ہوتے ہیں

اوپر نذر خدمت کی گئی مثالیں یقینا شاہکار مثل ہیں مگر ان کو بیان کرنے کا مقصدانہی والدین کا دوسرا رخ دکھانا اور ڈسکس کرنا ہے جب یہی خلوص و وفا کے پیکر ،ممتا اور پدرانہ محبت و شفقت کے مجسم کیوں اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کو کاٹ ڈالتے ہیں؟ کیا مجبوری آڑے آتی ہے کہ فاختہ دل رکھنے والہ باپ ایک جنگلی بھیڑیے کے روپ میں اپنی ہی اولاد کو چیڑ پھاڑ کر رکھ دیتا ہے؟کیوں ایک تعلیم یافتہ شخص ایک سکول ٹیچر اپنے چار جگر گوشوں کو ان کی ماں سمیت کاٹ ڈالتا ہے اور پھر خود بھی خود کشی کرلیتا ہے؟ کیوں ایک ملازمت پیشہ شخص اپنے تین بچوں کوموت کی نیند سلادیتا ہے ؟ کیوں ایک ماں کسی ایک شخص کی جھوٹی محبت کی بھینٹ چڑھ کر اپنے معصوم بچوں کو زہر ددے کر مار ڈالتی ہے ؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دولت کی چمک اور دنیاوی ہوس اس ممتا کی پاسدار ماں کو اندھا کردیتی ہے اور اپنے بچوں کو ایسے سفر پرروانہ کردیتی ہے کہ جہاں سے واپسی نا ممکن ہوتی ہے۔

دراصل یہ ہمارے سماجی اور معاشرتی رویے ہیں۔ غیر منصفانہ تقسیم کا عمل ہے کہ کہیں پر کتے مکھن اور مربے کھارہے ہوتے ہیں اور کہیں پر انسان کتوں کے ساتھ کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے وہ اتنا بے بس و بیکس ہوجاتا ہے کہ اس کی عقل ماوف ہوجاتی ہے صحیح و غلط کی تفریق مٹ جاتی ہے ۔ اور پھر وہ ہوجاتا ہے کہ آسمان دنگ رہ جاتا ہے زمین بے کل ہوجاتی ہے کہ جب ایک باپ اپنی بے بسی کو ،دنیا کی بے ثباتی کو ،حکمرانوں کی بے حسی کو خراج او ر بھینٹ دینے کی غرض سے اپنی بے گناہ اولاد کو اور خود کو موت کے سپرد کردیتا ہے کیونکہ اس کا ہاتھ ان گریبانوں تک نہیں پہنچ پاتا پس اپنی گردن میں پھندا ڈال کرلٹکالیتا ہے۔اس کاشعور لاشعوری کے تحت بے شعوری کی منازل طے کر جاتا ہے اور وہی والدیا والدہ ایک ایسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں کہ جس سے معاشرہ براہ راست شدید متاثر ہوتاہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور حکمرانوں کو ایسے واقعات کے سدباب کیلئے کوئی ٹھو س لائحہ عمل بنانا چاہئے کہ کم از کم کئی والد یا والدہ اپنے جگر گوشوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل نہ کریں۔یہ سب مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں بس توجہ اور اخلاص کی ضرورت ہے-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 191995 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More