پانی اور پاکستان

پاکستان اس وقت جہاں دوسرے بہت سے مسائل اور دہشت گردیوں کا شکار ہے وہیں اس کو پانی کی کمی بلکہ یوں کہیئے کہ پڑوسی آبی دہشت گردی کا سامنا بھی ہے۔ کچھ موسمی حالات بھی ہونگے کچھ زیر زمین پانی میں کمی بھی ہوگی اور بھارت تو یقیناً اس کوشش میں مصروف ہے کہ پاکستان کو خدانخواستہ صحرا میں بدل دے جس کے لیے اس نے کشمیر میں دریاؤں اور نالوں کا رخ سرنگوں کے ذریعے بدل کر بھی ڈیم بنائے۔ اس محاذ پر جنگ یقیناً اہم اور ضروری ہے اور ہمیں ہر صورت ایک بدنیت پڑوسی کا مقابلہ کرنا ہے لیکن پانی کی کمی کے مسئلے سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں کچھ اور اقدامات بھی کرنے ہونگے۔ زیر زمین پانی تو جو ہے سو ہے لیکن بالائے زمین بھی کچھ پانی اللہ نے اس ملک کو عطا کیا ہوا ہے جسے ہم اپنی نا اہلی کے باعث کھو رہے ہیں دریاؤں پر بند باندھنا اور بڑے ڈیم تو خیر بڑے منصوبے ہیں جو بد قسمتی سے قومی اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا اتفاق رائے پیدا ہونے تک ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہیں کہ فرشتے ہماری مدد کو آئیں گے یقیناً خدا فرشتے مدد کرنے کو بھیجتا ہے لیکن ان کے لیے جو اپنی مدد آپ بھی کرتے ہیں اور اپنی تقدیر بدلنے کے لیے اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں۔

پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پینے کی پانی سے لے کر غذائی اجناس کی پیداوار تک ہمارے مسائل پانی کی کمی سے وابستہ ہیں۔ اصول تو یہ ہے کہ جہاں ایک چیز کم ہو اسے انتہائی کفایت اور بچت سے استعمال کیا جائے اس کے لیے انتہائی سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کی جائے۔ جو ہم نہیں کر رہے ہمارے ملک میں اگر معمول کے مطابق ہو تو بارش کا موسم دو بار آتا ہے اور اگر یہ بارشیں معمول کے مطابق ہوں تو ان کا پانی ذخیرہ کر کے اسے باقی کے خشک دنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ہم ایسا کرتے نہیں ہیں چھوٹے ڈیم ہماری اس ضرورت کو کافی حد تک پورا کر سکتے ہیں۔

بڑے ڈیم اور بڑے منصوبے اپنی جگہ اہم ہیں لیکن چھوٹے ڈیموں کی اہمیت اور افادیت سے بھی انکار ممکن نہیں بلکہ یہ چھوٹے منصوبے کم پیسہ، کم لاگت، کم جگہ، کم وقت، کم کرپشن اور کم ماحولیاتی آلودگی کے باوجود ہماری ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ پاکستان اپنے زمینی خد و خال کے باعث وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں بے شمار ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں چھوٹے ڈیم بنا کر ہم نہ صرف اپنی بجلی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں بلکہ زراعت اور پینے کے پانی کے مسائل بھی حل کر سکتے ہیں۔ حکومت کئی بار ایسے منصوبوں کا اعلان تو کرتی ہے مگر اس پر عمل کم ہی نظر آتا ہے۔

ہمارے ہاں عموماً بھارت کو اس میں ہونے والی ترقی اور خاص کر اس کے جمہوری اداروں اور معلوم نہیں کہاں اور کیسے کیسے حوالوں کے لیے پیش کیا جاتا ہے جبکہ پانی کے معاملے میں ہم ایسا کرنے سے آنکھیں چرارہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی رو سے ہمیں ملنے والے دریاؤں پر بھی دھڑا ڈھڑ بڑے اور چھوٹے بلکہ بہت ہی چھوٹے ڈیم بھی بنا رہا ہے جس سے بہت معمولی مقدار میں بجلی کی پیداوار ممکن ہو سکے گی۔ میں بھارت کے چند ایسے ہی منصوبوں کا ذکر مناسب سمجھتی ہوں تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وہ کس طرح اپنی ضروریات پوری کرنے کی تگ و دو کر رہا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ ہماری ضروریات نظر انداز کر رہا ہے۔ بھارت راجوڑی میں در ہالی نالہ پر 3.00 میگاواٹ، استھان میں استھان نالہ پر 0.75 میگاواٹ، بانڈی پورہ میں ماڈ مٹی نالہ پر0.03میگاواٹ اور بیلینگ میں بیلینگ نالہ پر 0.1میگاواٹ کے منصوبے مکمل کر چکا ہے۔

یہ مکمل شدہ چند منصوبے ہیں جبکہ ایسے ہی کئی اور چھوٹے منصوبوں کے لیے منصوبہ بندی کی گئی ہے جن میں ہانسر کی پیداواری صلاحیت 1.3 جبکہ بارہ مولا میں ایرن کی صلاحیت 6میگاواٹ ہو گی بھارت نے ان منصوبوں کی طرح درجنوں منصوبے مکمل کر لیے ہیں یا کر رہا ہے جبکہ ابھی ہم سوچ ہی رہے ہیں کہ انہیں کیسے روکا جائے اور اسی اثنا میں ملک میں پانی کی قلت شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔پاکستان میں مون سون کے موسم میں اچھی خاصی بارش ہو جاتی ہے لیکن اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ہمارے پاس ذخیرے نہیں ہیں تاکہ بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکے۔ دریاؤں کے لیے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا پانی روکا جارہا ہے لیکن ہم آبشاروں اور پہاڑی ندی نالوں کے پانی کو بھی روکنے کا بندوبست نہیں کر رہے ہیں حالانکہ اگر اسی پانی کو روکا نہ بھی جائے اور ان کے بہاؤ پر ٹربائن نصب کیے جائیں اور اس سے پیدا ہونے والی بجلی کو مقامی سطح پر تقسیم کیا جائے تو بھی ہم توانائی کے اس سستے ذریعے سے بجلی پیدا کر کے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور پھر اس بہتے ہوئے پانی سے آبپاشی کا کام بھی لے سکتے ہیں۔ یوں ایک Renewable ذریعہ توانائی ہونے کی وجہ سے نہ تو پانی ضائع ہوتا ہے اور نہ ہی ماحول خراب ہوتا ہے۔ ماحولیاتی سائنس کے مطابق ایسے منصوبے ماحول کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتے۔ جبکہ اس کے برعکس جس طرح بھارت دریاؤں کا رخ موڑ رہا ہے وہ علاقے کے Flora اور Founa دونوں کو تباہ کر رہا ہے یعنی جنگلی حیات اور نباتات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

اب ذرا بات ہو جائے پاکستان کے چھوٹے بڑے مکمل شدہ اور چا لو ڈیموں اور کچھ منصوبوں کی۔ چالو ڈیموں میں تو تین بڑے ڈیم یعنی تربیلا، منگلا اور ورسک ہیں ان کے علاوہ کچھ چھوٹے اور درمیانے ڈیم بھی ہیں۔ لیکن بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ تعداد بہت کم ہے۔ ہمارے چاروں صوبوں میں ایسے کئی مقامات کی Feasibiliyy Study ہو چکی ہے اور اس پر لاکھوں روپیہ لگ چکا ہے لیکن ان منصوبوں پر کام شروع نہیں ہوا۔ مجھے کوئٹہ میں ولی تنگی ڈیم کو دیکھنے کا موقع ملا جو کہ انتہائی دشوار گزار اور آبادی سے میلوں دور ایک شا ہکارہے اگر اس مقام پر پانی ذخیرہ کرنے کا منصوبہ ستر کی دھائی میں تکمیل تک پہنچ سکتا ہے تو اس سے بہت سہل پوٹھوہار کے علاقے میں کیوں نہیں جہاں کم از کم 32ایسے مقامات کی نشاندہی ہو چکی ہے۔حکومت پنجاب نے 350 ڈیم بنانے کا اعلان تو کیا ہے لیکن عوام ان منصوبوں کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ہمارے ہاں بڑا مسئلہ حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ منصوبوں پر کام کا رک جانا بھی ہے۔ اور یوں خرچ شدہ رقم ضائع چلی جاتی ہے جبکہ پاکستان وہ ملک ہے جس کے پاس خرچ کرنے کو بھی پیسے نہیں ہیں کجا کہ ضائع کرنے کو۔ ایسے ہی کچھ اور منصوبے بھی ہیں جن کے اوپر کافی پیسہ خرچ ہو چکا ہےFeasibality Study ہو چکی ہے لیکن کام شروع نہیں کیا گیا۔ 2005 میں اورکزئی ایجنسی میں چھ ایسے مقامات کی نشاندہی کی گئی جو چھوٹے ڈیم بنانے کے لیے موزوں تھے۔ سہون شریف سندھ میں 1.3 ملین ایکڑ فٹ کے ذخیرہ آب کے لیے سروے پر 113000 ملین روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ بلوچستان میں بیس چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا حکو مت نے اعلان کیا ہے۔ شمالی علاقہ جات تو خیر پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے ایسے مقامات سے مالامال ہے۔

ہمارے بارے میں بجا طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہم منصوبے بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور پاکستانیوں کے بنائے ہوئے منصوبے جب دوسرے ممالک اپنے ہاں بروئے کار کاتے ہیں تو شاندار نتائج دکھاتے ہیں لیکن ہم اپنے بنائے ہوئے منصوبوں پر خلوص دل سے عمل نہیں کرتے۔منصوبے بنانا اپنی جگہ اہم لیکن اس کی تکمیل ہی ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔ اس وقت ہم پانی کے جس مسئلے سے دوچار ہیں اس کے حل کی ہر سطح پر کوشش کرنا ضروری ہے۔ بین الاقوامی طورپر بھارت کے مجرمانہ رویے کو اجاگر کرنا اور اسے مجبور کرنا تو مسئلے کے حل کی ایک کوشش ہے لیکن قومی سطح پر بھی ہمیں بہت کچھ کرنا ہے بڑے ڈیموں کی تعمیر بھی اپنی جگہ ضروری ہے لیکن چھوٹے ڈیموں کیطرف توجہ دینا بھی ازحد ضروری ہے اور اگر ان سے حاصل ہونے والی بجلی کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے کی بجائے مقامی طور پر ہی تقسیم کر دیا جائے تو یوں ہم قومی نظام پر بوجھ کو بھی کم کر سکتے ہیں اور ہماری بند ہوتی صنعتوں کے لیے بجلی مہیا ہونا بھی ممکن رہے گا یہ منصوبے ہماری زراعت پر بھی انتہائی خوش گوار اثرات مرتب کرینگے اور زرعی ملک کے عوام غذائی اجناس اور خوراک کی جس کمی کا شکار ہیں اس پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 555147 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.