کراچی جرائم پیشہ ا فراد کی جنت
ہے۔ یہاں ہر روز ہونیوالے سیاسی قتل کے علاوہ بھی ایسے جرائم بڑھتے جارہے
ہیں۔ جو معاشرے کو تباہی کی جانب لے جارہے ہیں۔ ان میں معصوم بچوں سے
زیادتی اور ان کے قتل کے ہولناک واقعات ہیں، جن کی تعداد روز بروز بڑھ رہی
ہے۔ آج بھی اخبارات ایک پانچ سالہ بچی کے اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کے
لرزہ خیز واقعے سے مزین ہیں۔ کراچی میں ایسے ہولناک جرائم میں تیزی سے
اضافہ ہورہا ہے۔ بچوں کے اغوا کے واقعات بھی سر فہرست ہیں۔ لیکن اس سلسلے
اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ بچوں پر جنسی تشدد کے خلاف کام کرنے والی
غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ پانچ برس کے اعداد و
شمار کے مطابق مجموعی طور پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں اضافہ ہوا ہے۔
پچھلے پانچ سال کے اعداد و شمار کے مطابق آٹھ ہزار بچوں کے ساتھ جنسی
زیادتی ہوئی اور اٹھارہ سو لڑکوں اور لڑکیوں کو اس عمل کے بعد قتل کر دیا
گیا۔ غیر سرکاری طور پر کہا جاتا ہے کہ رپورٹ میں صرف ان واقعات کا ذکر کیا
جاتا ہے۔ جو ذرائع ابلاغ میں سامنے آئے ہیں جبکہ زیادتی کا شکار ہونے والے
بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ معاشرے میں اس طرح کے موضوعات پر کھل
کر بات نہیں ہوتی اور نہ ہی اس بارے میں سنجیدگی سے کوئی قانونی کاروائی
ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس طرح کے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کو
چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں سخت قانون سازی کرے اور اس جرم میں مرتکب لوگوں
کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ کراچی میں بھی ایسے واقعات میں اضافہ ہورہا
ہے۔ اس طرح کے واقعات میں ہونے والی تحقیقات میں عام طور پر محلے کے ہی لوگ
ملوث پائے جاتے ہیں جو فطری طور پر تشدد پسند ہوتے ہیں۔ ان واقعات کا ایک
اہم سبب ملک کا قانونی نظام ہے جس میں مقدمات کے فیصلے ہونے میں کئی کئی
مہینے لگ جاتے ہیں اور ان میں ملزمان کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔
اس طرح کے واقعات کا ایک اہم سبب ملک کا قانونی نظام ہے جس میں مقدمات کے
فیصلے ہونے میں کئی کئی مہینے لگ جاتے ہیں اور ان میں ملزمان کو کیفر کردار
تک نہیں پہنچایا جاتا۔’بچوں کے اغواء اور ان کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے
واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ ایسے مقدمات کی
فوری سماعت کو یقینی بنائے اور ملزمان کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔‘
کراچی میں کئی ماہ پہلے ایک تین سالہ بچی ثناء کو بھی اغواء کر کے جنسی
زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ انسداد دہشت گردی کی ایک
خصوصی عدالت نے اکتیس اگست کو مقدمے میں نامزد ٹریفک پولیس کے دو اہلکاروں
کو سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ لیکن یہ مقدمہ تا حال چل رہا ہے۔ ستر فیصد
واقعات میں ملزمان متاثرہ بچوں کے خاندانوں سے واقفیت رکھتے تھے۔ ملک میں
ہزاروں جنسی تشدد کا شکار غریب خاندان با اثر اور دولت مند ملزمان کے
مقابلے میں انصاف نہ ملنے کی سوچ میں جنسی تشدد کے واقعات پولیس میں رپورٹ
نہیں کرواتے ہیں۔ پاکستان میں ناقدین کا کہنا ہے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ
کے لیے موجودہ قوانین ناقص ،ناکافی اور غیر مؤثر ہیں جس کی وجہ سے ملک کی
یہ نصف آبادی مسلسل جنسی، جسمانی اور نفسیاتی زیادتیوں کا شکار ہورہی ہے۔
معاشرہ میں انصاف کے لئے ایک ایسا جامع اور مفصل قانون وضع کیا جائے جو
بچوں کے ساتھ تمام اشکال اور حالات میں ہونے والی زیادتیوں کا احاطہ کرتے
ہوئے مجرمان کے خلاف کڑی سزائیں عائد کرے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے
معاہدے میں تحفظ اطفال سے متعلق 41شقیں شامل ہیں جن میں سے اکثر پاکستان کے
آئین اور قوانین میں بھی موجود ہیں لیکن یہ قوانین بچوں کے ساتھ ہونے والی
تمام زیادتیوں کا احاطہ نہیں کرتے اور ان میں جرائم کے کئی پہلووؤں کے
حوالے سے ابہام بھی موجود ہے۔ بچوں کے ساتھ ہر طرح کی زیادتی کی روک تھام
کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل ان دنوں تحفظ اطفال بل کے مسودے پر غور کررہی
ہے۔اس قانون سازی کا مقصد پاکستان پینل کوڈ 1860 اور ضابطہ فوجداری 1898میں
مزید ترمیم کرکے مقامی ثقافت کے مطابق بچوں کے حقوق کو محفوظ بنانا ہے۔
مجوزہ قانون میں بچوں کے خلاف جرم کا ارتکاب کرنے والے فرد کے لیے کم ازکم
دس سال قید اور کم ازکم پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا عائد کرنے کی تجویز
ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر مؤثر قانون سازی کی جائے۔ |