بیٹی ...اسلام...اور معاشرہ

 قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ”آسمانوںاور زمین کیسلطنت و بادشاہت صرف اللہ ہی کے لئے ہے وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتاہے بانجھ کر دیتا ہے اس کے ہاں نہ لڑکا پیدا ہوتا ہے نہ لڑکی پیدا ہوتی ہے لاکھ کوشش کرے مگر اولاد نہیں ہوتی ،یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی اور مصلحت پرمبنی ہے جس کے لئے جو مناسب سمجھتا ہے وہ اس کو عطا کر دیتا ہے“ قرآن کریم کی ان آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکے اور لڑ کیاں دونوں اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں مرد اور عورتیں دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں اللہ رب العزت نے اپنی حکمت بالغہ سے ایسا نظام قائم کیا ہے ۔قبل از اسلام قریش کے لوگ بیٹی کی پیدائش کو باعث ننگ و عار تصور کرتے تھے حتیٰ کہ اسے زندہ رہنے کا حق بھی نہیں تھا۔لڑکیوں سے نفرت کا یہ حال تھا کہ خود باپ اپنی بیٹی کو زندہ درگور کر دیتا تھا ۔یہ داستان صرف عرب تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ہندوستان میں بھی اسے ظلم وستم کا نشانہ بناےا گیا۔۔۔مگر جب حضورِ اکرم رحمت ِدوعالم دنیا میں تشریف لائے تو اس طرح کی تمام رسومات کا خاتمہ فرمایااور لوگوں کو بتایا کہ بیٹی باعث ِ رحمت ہے۔۔۔ترمذی شریف میں حضرت سعید خدری سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم نے فرمایا کہ” جس بندے نے تین بیٹیوں ،تین بہنوں یا دو ہی بیٹیوں یا بہنوں کا باراٹھایا اور ان کی اچھیتربیت کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور پھر ان کا نکاح کر دیا تو اللہ تعا لیٰ طرف سے اس بندے کے لئے جنت کا فیصلہ ہے“عورت کو اللہ تعالیٰ نے چار روپ عطا کئے ہیںبیٹی ،بہن،بیوی اور ماں۔۔۔ہر روپ میں انسانوںکے لئے وہ رحمت بن کر اترتی ہے جب وہ بیٹی و بہن کے روپ میں جلوہ افروز ہوتی ہے تو والد اور بھا ئیوں کو جنت میں لے جانے اور حضور اکرمﷺ کی رفاقت کا سبب بنتی ہے بیوی کا روپ اختیار کرتیہے تو شوہر کا آدھا ایمان مکمل کرنے والی قرار دی جاتی ہے اور جب ماں بنتی ہے تو جنت اس کے قدموں میں رکھ دی جاتی ہے بیٹیاں تو خدا کی رحمت ،برکت اور گھروں کیرونق ہوتی ہیں ۔۔۔ ایک صاحب لکھتے ہیں کہایک بار ایک دوست کہنے لگے کہ اللہ تمہیں اولاد ِ نرینہ سے نوازے تو میں نے اس سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بیٹا اور بیٹیدونوں سے نوازا ہے بتاﺅ کہ دونوں میں فرق کیاہے تو وہ کہنے لگا کہ جب شام کو گھر لوٹتا ہوں تو بیٹا بھی محبت سے ملتا ہے اور بیٹی بھی محبت سے ملتی ہے مگر بیٹی کی محبت کا انداز ہی نِرالا ہے میرے لئے پانی کا گلاس اس کے ہاتھوں میں ہوتا ہے پھر اسے میرے جوتوں کی فکر پڑ جاتی ہے وہمیرے لئے گھر کے جوتے لاتی ہے پھر میرے پاﺅں دباتی ہے اور اس کے اس پیار سے میں دن بھر کی تھکاوٹ بھول جاتا ہو ں ۔۔۔ بیٹیاں تو قدرت کا انمول تحفہ ہیںجس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے ۔امیرِ شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ فرماتے ہیں کہ”وہ بیٹیاں ۔۔۔تم جس کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دے دو،وہ اُف کئے بغیر تمہاری پگڑیوں اور داڑھیوں کی لاج رکھنے کے لئے ساتھ ہو لیتی ہیں ،سسرال میں جب میکے کی یاد آتی ہے تو چھپ چھپکر رو لیتی ہیں ،کبھیدھوئیں کے بہانے آنسو بہا کر جی ہلکا کر لیا ،آٹا گوندھتے ہوئے آنسو بہتے ہیں اوروہ آٹے میں جزب ہو جاتے ہیں ،کوئی نہیں جانتاکہ ان روٹیوں میں اس بیٹی کے آنسو بھی شامل ہیں،غیرتمند ۔۔۔ان کی فکر کرو یہ آبگینے بڑے نازک ہیں“ اسلام میں بیٹی کو اتنی اہمیت سے نوازا گیا ہے مگر آ ج کے معاشرے میں بیٹی کو اتنی حقارت سے کیوں دیکھا جاتا ہے اس کو اتنی عزت و اہمیت کیوں نہیں دی جاتی اسے جینے کا حق کیوں نہیں دیا جاتا۔۔ چودہ سو سال پہلے کے زمانہ کو تو ہم جاہلیت کادور کہتے ہیںاور آ ج کے دور کو پڑھا لکھا اور ماڈرنایزم کا نام دیتے ہیں مگراس ماڈرن دور میں بھی جہالت کی طرح یہ ایک عام رویہ ہے کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دی جاتی ہے لوگ الٹرا ساﺅنڈ امشین کے ذریعے بچے کی جنس کا پتا لگاتے ہیں اگرجنس لڑکی ہو تو اسے اسقاطحمل کے ذریعے مار دیا جاتاہے۔بیٹی پیدا ہونے پر شرمندگی محسوس کیجاتی ہے بیٹی کو مصیبتو ذلت سمجھا جاتا ہے۔اور اکثر جاہل گھرانوں میں بیٹی پیدا کرنے پر بیوی کو خاوند کی طرف سے طلاق بھی دے دی جاتی ہے۔طلاق سے ےاد آیا ایک شخص کے ہاں صرف بیٹیاں تھیں ہر بار اسے امید ہوتی کہ اب بیٹاپیدا ہو گا مگر ہر بار بیٹی پیدا ہوتی اور اس طرح اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھے بیٹیاں پیدا ہو گئیںاس کی بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی اسے ڈر تھا کہیں لڑ کی پیدا نہ ہو جائے شیطانملعو ن نے اسے بہکایا اس نے ارادہ کیا کہ اگر بیٹی پیدا ہو گی تو وہ بیوی کو طلا ق دے دے گا۔رات کو جب وہ سویا تو اس عجیب و غریب خواب دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جس کے سبب فرشتے اسے پکڑ کر جہنم کی طرف لے گئے پہلے دروازے پر گئے تو دیکھا اس کی ایک بیٹی کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں لے جانے سے روک دیا فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر لے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی اب فرشتے اسے تیسرے دروازے پر لے گئے وہاں بھی اس کی بیٹی رکاوٹ بنی،اس طرح فرشتے اسے جس دروازے پر لے جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی تھی جو اس کا دفاع کرتی غرضیکہ فرشتے اسے جہنم کے چھے دروازوں پر لے گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی۔اب ساتواں دروازہ باقی تھا فرشتے اسے لے کراس دروازے کی طرف چل دئیے،اس پر گھبراہٹ طاری ہو گئی کہ اب اس دروازے پر میرے لئے کون رکاوٹ بنے گااسے معلومہو گیا کہ اس کی جو نیت تھی غلط تھی،اسی خوف کے عالم میں اس کی آنکھ کھل گئی اوراس نے فوراََاللہ رب العزت کے حضور دعا مانگی’اے اللہ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما۔ کچھ لوگ اس وجہ سے بھی بیٹوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیںکہ باپ کی میراث میں بیٹے کا حصہ بیٹی کی نسبت زیادہ مقرر کیا گیا ہے جس کیاصل وجہ یہ ہے اکثر باپ کی زندگی میں بیٹے ہی بیٹیوں کی نسبت زیادہ نافع ہوتے ہیںبڑھاپے میں والدین سارا انحصار اولاد پر کرتے ہیں وہ بیٹیوں کی بجائے بیٹوں کے ساتھ رہنے کو زیادہ ترجیح دیتےہیںبیٹے کے پاس رہنے کی وجہ عام سی ہے کہ بیٹے کوئی بھی فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتے ہیں جبکہ بیٹیاں شادی کے بعد اپنے شوہروں پر منحصر ہو جاتی ہیں وہ اپنے معاملات میں اتنا آزاد نہیں ہوتیں جتنے بیٹے ہوتے ہیںاگرچہ اس بنیاد پر میراث میں بیٹیوں کا حصہ بیٹوں کی نسبت کم ضرور ہےمگر اس کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ اسے جینےکا حق بھی نہ دیا جائے۔ آج کل ہمارے ہاں یہ رواج عام ہے کہ جونہی شادی شدہ لڑکی حاملہ ہوتی ہے تو پھر ”ٹیوے“لگنے شروع ہو جاتے ہیں کہ بیٹا ہوگا یا بیٹی،کوئیاس کی چال دیکھ کر کہتا ہے کہ بیٹا پیدا ہو گا تو کوئی یہ ’ٹیوا‘ لگاتا ہے کہ اس کی آنکھوں سے ظاہر ہوتاہے کہ بیٹی ہو گی۔ موقع،بے موقع اس بارے باتیں چلتی رہتی ہیںپیدائش کے وقت تک ٹیوتے چلتے رہتے ہیں یہاں تک کہ پیدائش کا وقت آجاتا ہے اگر بیٹا پیدا ہو تو خوشی کا شوراور مبارکبادوں کے پیغامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں لیکن اگر بیٹی پیداہو جائے تو مایوسی ظاہر کی جاتی ہے منہ بنائے جاتے ہیں یہ کتنیبڑی ناانصافی اور ناشکری ہے کہ اسی خدا نے بیٹی کو پیدا کیا توگھر خاموشیوں میں ڈوب گیا ۔ارے یہی تو جاہلانا رویہ ہے اسی لئےاللہ پاک نے اپنے کلام میں ارشاد فرمایا کہ” اورجب ان میں سے کسی کو بشارت دی جائے کہ تمہارے ہاں بیٹی پیدا ہو گی تو غم اور پریشانی کے مارے اس کاچہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اوروہ ظاہر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے“ہمیں تو ہر وقت خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اور صحتمند بچے کے پیدا ہونے کی دعا کرنی چاہئے ،خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی۔۔۔دونوں کی پیدائش پر صدقہ، خیرات اور خوشی کرنی چاہئے۔بعض گھروں میں رواج بھی عام ہے کہ اگر کسی عورت کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہو جائیں تو اسے سسرال کی طرف سے اشارةََ پیغام ملنا شروع ہو جاتےہیں کہ آئندہ بیٹا ہونا چاہئے وہ شاید سمجھتے ہیں کہ یہ سب اس بیچاری کے اختیار میں ہے۔ آخر بیٹوں کا والدین کے لئے کون سا ایسا فائدہ ہے جو بیٹی کا نہیں ۔۔اگر بیٹی کی کوئی اہمیت نہ ہو تی تو اللہ اپنے پیارے رسولﷺ کی نسل کو حضرت فاطمہؓ کے ذریعے کیسے برقرار رکھتا۔اگر بیٹی کی اچھی پرورش کریں گے تو وہ ہرگزبیٹے سے پیچھے نہ رہے گی عورت کو اپنا مقام شرم و حیا سے بنانا ہوتا ہے اگر اس میں شرم وحیا قائم رہے گی تو اس کو اس کے مقام سے کوئی نہیں گرا سکتا۔ایک دفعہ حضورپاکﷺ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے تو کسی نے آپﷺ کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی،رسول کریم ﷺاس پر خوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایاکہ اللہ نے مجھے پھول عطا کئے ہیںجس کی میں مہک سنتا ہوں اور اللہ نے اس کا رزق دیا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں لوگ جہیز اور لین دین سے بھی لڑکیوں کی پیدائش سے گھبراتے ہیں ۔۔۔۔۔دعا ہے اللہ پاک ان معاشرتی بوجھوں سےمحفوظ رکھے اور ہم اسوہ رسولﷺ پر عملکرتے ہوئے انسانیت کے لئے بہترین نسلیں پیدا کرنے والا بنائے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق بیٹیوں کو زحمت کی بجائے رحمت ہی سمجھنے والا بنائے،آمین۔
Habib Ur Rehman
About the Author: Habib Ur Rehman Read More Articles by Habib Ur Rehman: 2 Articles with 1448 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.