کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے چار
بنیادی سہولتوں کا ہونا از حد ضروری ہے ۔جو حاکم قوم پر واجب ہیں کہ اپنی
قوم کو بہم پہنچائے مگر شومئی قسمت سے ہماری عوام ان ساری سہولیات سے محروم
ہے ۔جو سہولتیں اسے حکومت سے ملنی چاہئیں تھیں اسے خریدنا پڑ رہی ہیں ۔وہ
سہولتیں درج ذیل ہیں ۔۱ تعلیم ،۲ صحت ،۳ پینے کا صاف پانی ،۴ روزگار ۔آپ
بنظر تحقیق دیکھ لیں کہ اول الذکرسہولت اگر عوام کو حکومت کی جانب سے مہیا
کی جاتی تو جنرل سٹوروں کی طرح گلی گلی میں سکول نا کھلنے پاتے ایک ایک
محلے میں ۲۰ سے زائد سکول کھلے ہوئے ہیں جو عوام کی جیبوں پر اپنی مرضی سے
ہاتھ صاف کرنے میں شب و روز مصروف عمل ہیں ۔من مانی فیسیں ،آئے دن نت نئے
حربوں سے والدین سے رقوم کا مطالبہ کبھی فلاں ڈے کبھی فلاں ڈے ،سٹیشنری اور
کتب بھی سکول مالکان خود دیتے ہیں ۔وہ بھی والدین کو باہر سے خریدنے کی ۃر
گز اجازت نہیں ۔والدین بیچارے اپنے بچوں کا سہانا مستقبل آنکھوں میں سجائے
یہ قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں ۔قارئین محترم آپ شائید جانتے ہی ہوں کہ جو
نصاب یہ پرائیویٹ سکول دے رہے ہیں ان پر اس پر وہ چالیس سے پینسٹھ فیصد تک
منافع کما رہے ہیں ۔اگر حاکمین وقت کی نظر میں عوام ایک قوم ہوتی تو اس کا
سربراہ تمام قوم کے بچوں کے لئے تعلیم کا ذمہ اپنے سر لیتا اور خود پر یہ
فرض نہیں بلکہ ملک و قوم کی طرف سے خود پر قرض سمجھتا ۔صرف شیخوپورہ شہر ہی
کی مثال لے لیں کہ گزشتہ تیس سالوں سے کوئی نیا سرکاری سکول نہیں بنا
ماسوائے چند ایک سکولوں کی اپ گریڈیشن کے ۔ آبادی بڑھتی چلی جا رہی ہے اور
تعلیمی ادارے جو سرکاری ہیں ان میں بچوں کی تعداد بھی انتہاؤں کو چھو رہی
ہے ۔اب آپ خود سوچیں اگر ایک کلاس میں ۸۰ سے ۱۱۰ تک بچے ہوں گے تو ٹیچر کیا
خاک ان کو سمجھا پائے گا اور اتنے زیادہ بچوں سے کس رزلٹ کی امید رکھے گا
۔صاحبان عقل و فہم ایک کمرے میں زیادہ سے زیادہ پچیس نہیں تو تیس بچے اگر
بیٹھیں تب تو استاد ان پر یکسوئی سے محنت بھی کر پائے اگر اسی کمرے میں سو
سے زائد بچہ بیٹھے گا تو گھٹن اور شور میں کون پڑھا پائے گا اور کون لیکچر
سمجھ پائے گا ؟نئے سکول نہ بننے کی وجہ سے پرائیویٹ سکول روز افزوں بڑھتے
چلے گئے ۔اور سرکاری سطح پر بھی ان کاروباری اداروں کی روک تھام کرنے کی
بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔یہ ادارے تب نا کھل پاتے اگر سرکاری
ادارے زیادہ سے زیادہ بنتے اور ان میں یکساں سہولتیں ملتیں نئے سکولز اور
کالجز بنانے سے دو مسئلے خود بخود حل ہو جاتے عوام کو مفت تعلیم مہیا ہوتی
اور دوسرا پڑھے لکھے بچے بچیوں کو روزگار مل جاتا اس طرح بیروزگاری کے حجم
میں بھی کمی واقع ہوجاتی ۔اب حال یہ ہے کہ تعلیم عوام کو سرکار کی طرف سے
نہیں بلکہ اپنی جیب سے خریدنا پڑ رہی ہے ۔دوسری سہولت جو حکومت کی طرف سے
قوم کو دینا فرض ہے وہ ہے صحت ،حکومت کا فرض ہے کہ سرکاری طور پر عوام کو
مفت طبی سہولیات فراہم کرے اور کون نہیں جانتا کہ سرکاری BHUسے لیکر بڑے سے
بڑے اسپتال کی حالت زار کیا ہے ۔جہاں دوائیاں ناپید ہوں ،ڈاکٹرز کی کمی ہو
،سرکاری لیب سے عوام کو ٹیسٹوں کی سہولت نا ہو ایکسرے الٹرا ساؤنڈ مشینیں
خراب ہوں ،ایک ایک بیڈ پر چار چار مریضوں کو ٹھونسا ہوا ہو ۔ماسوائے چند
ایک کے باقی ڈاکٹرز جہاں صرف مریضوں کو اپنے پرائیویٹ اسپتالوں کا ایڈریس
سمجھانے اسپتال آتے ہوں ،اور وہاں لا کر ان کو اپنے قائم کردہ اصولوں کے
مطابق لوٹنے میں کوئی قباحت نا سمجھتے ہوں ،اگر سرکاری اسپتالوں میں
ایمانداری اور فرض شناسی سے پاکستانی قوم کو قوم سمجھ کر دیکھا جاتا تو گلی
گلی محلے محلے آپ کو پرائیویٹ کلینکس اور اسپتال کبھی دیکھنے کو نا ملتے
۔میں سمجھتا ہوں کہ سرکاری اسپتالوں میں عوام پر توجہ نہیں دی جاتی اور
پرائیویٹ اسپتالوں میں عوام علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتی یہی بڑی وجہ ہے
کہ انہی بڑے ڈاکٹرز اور سرجنز کے ڈسپنسر اور کمپاؤنڈرز ہر محلے میں اپنا
کلینک کھول کر بیٹھ گئے ہیں جن کے پاس جا کر عوام کو پچاس روپے سے لیکر سو
روپے تک دوائی بھی مل جاتی ہے اور چیک اپ بھی ۔جناب من جب تک سرکاری
اسپتالوں اور ڈاکٹروں کا قبلہ درست نہیں ہوتا یہ عطائیت ختم نہیں ہو سکتی
۔فروغ عطائیت میں بھی تو ان بڑے معالجوں کا ہاتھ ہے اگر اسپتالوں کا قبلہ
درست ہو جاتا ہے تو عوام کو سرکاری اور مناسب فیس میں تمام ٹیسٹ چیک اپ اور
ادویات ملیں گی ۔اور کسی طور پر بھی بڑے بڑے نام نہاد کمرشل ڈاکٹرز ہونے
نہیں دیں گے ۔ایسا ہونے سے ان کی کمیشن بند ہو جائے گی ۔جو باہر کی ادویات
لکھنے سے ،باہر سے ٹیسٹ کروانے کی مد میں ان کے اکاؤنٹس میں رقوم آتی ہیں
بھلا کیسے گوارہ کریں گے کہ بند ہو جائیں ؟اگر حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان
مسیحاؤں کے ذہن میں عوام کی بجائے قوم آجائے کہ یہ میری قوم ہے اور ان کو
دیکھنا میرا قومی فریضہ تو قسم بخدا عطائیت اپنی موت آپ مر جائے گی ۔یہ وہ
دوسری سہولت ہے جس کا قوم کو مفت فراہم کرنا حاکم کا فرض ہے مگر ہم لوگ یہ
بھی خریدنے پر مجبور ہیں تیسری سہولت جو عوام کو دینا حکومتی ذمہ داری ہے
وہ ہے پینے کا صاف پانی۔ یہ حکومت کو فراہم کرنا تھا نا کہ نیسلے ،کینلے یا
دیگر پانی فروش کمپنیوں نے پینے کا پانی بھی سرکار نہیں دے پا رہی بلکہ کہا
جاتا ہے کہ منرل واٹر پیؤ،خرید کے پیؤ اپنے سہارے پر جیؤ۔ہمیں تمہاری صحت
کی نہیں اپنے اقتدار کی صحت کی فکر ہے ۔خدارا ان تمام امور کی انجام دہی کو
سمجھو ۔یہ نہیں کہ صرف نواز حکومت بلکہ اس پاک دھرتی پر جس کسی کی بھی
حکومت ہو جو کوئی بھی اقتدار میں آئے اسے پاکستانی انسانوں کو عوام نہیں
قوم سمجھنا ہو گا اور اس کے بنیادی حقوق کی ادائیگی کے لئے کچھ کرنا ہو گا
جب تک ایسا نہیں ہو گا دھرتی ماں کسی حاکم پر راضی نہیں ہو گی ۔چوتھی سہولت
جو حکومت وقت پر دینا لازم ہے اسے روزگار کہتے ہیں جونہی میرے وطن کا کوئی
نوجوان بیٹا یا بیٹی اپنی تعلیم مکمل کرے ادھر روزگار کا پروانہ اسے گھر
بیٹھے مل جائیتو سارے معاملیخود بخود سیدھے ہو سکتے ہیں ۔مگر ہوتا اس کے
برعکس ہے ۔تعلیم کے لئے والدین اپنی اولاد پر اپنی تمام تر جمع پونجی صرف
کر دیتے ہیں جب وہ بچہ نوکری کے لئے جاتا ہے تو اسے وہاں بھی قیمت کی
بازگشت سنائی دیتی ہے خواہ وہ بولی ادارے کے ملازمین لگائیں یا ان کے ایجنٹ
۔اور اگر ایم پی اے ،ایم این ایز کو کوٹہ دیا جائے تو نوکری کے لئے وہاں
بھی نذرانہ دیئے بغیر کام نہیں ہوتا بلکہ نائب قاصد کی بھرتی کے لئے ڈیڑھ
سے ٹین لاکھ کی ڈیمانڈ کر دی جاتی ہے اگر یہ انسان جو پاکستان میں بستے ہیں
عوام کی جگہ قوم ہوتے تو ان کے نمائیندے ان کا کام فرض نہیں قرض سمجھ کر
کرتے ۔جب رشوت دیئے بنا کام نہیں بنتا ، سفارش بھی بغیر فیس کے نہیں ملے گی
تو معاشرہ ملک و قوم کا خدمت گار نہیں بلکہ باغی پیدا کرے گا اور پھر وہ
باغی معاشرے کے لئے زہر قاتل ثابت ہو گا ۔جرائم کی شرح بڑھے گی ۔خدا کے لئے
سڑکوں ، میٹرو ، اورنج ٹرینوں سے بڑھ کر یہی ہے کہ آپ خلوص نیت سے یہ چاروں
سہولتیں دے دیں تو قوم ہمیشہ کے لئے آپ کی گرویدہ ہو جائے گی ۔دھاندلی
دھاندلی کا شور کبھی نہیں اٹھے گا ۔گو ،گو کے نعرے کہیں نہیں لگیں گے ۔اب
بھی وقت ہے قوم کو قوم سمجھ کر قومی فریضے سرانجام دے ہی ڈالیں ۔
|