ضمیر کی عدالت میں

ہماری سماجی معاشرتی ، سیاسی ، ثقافتی سوچ کی فکر اور خیالات ، ہمارے افعال و کردار میں یکسانیت کے فقدان کیا آخر کیا وجہ ہے ؟؟ اپنے آپ کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے ضمیر کی آواز بن کر ہمیں انسانیت کی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کرنا ہوگا۔
قارئین ! آج میں نے موضوع پر لکھنے کی جسارت کی ہے وہ کچھ ایسا ہے کہ جس کے اردگرد ہماری معاشرتی و سماجی فکری و شعوری ہمارا ماضی حال و استقبال اور ہماری خارجی اور باطنی دنیا محو گردش ہے، زندگی جب مسائل سے الجھتی ہے تو انسان کے اندر عدم اطمینانی خوف اور دیگر منفی خدشات جنم لیتے ہیں ۔ دراصل مسائلِ زندگی ہماری اپنی سے سوچ سے پیدا ہوتے ہیں، کہیں خیالات کے باہمی ٹکرائو سے تو کہیں ذاتی انا پرستی کے زیر اثر، ایک دانشور نے کیا خوب کہا تھا کہ '' ہر مصیب انسان کے صبر کا امتحان لیتی ہے '' ۔ لیکن یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ صبر کا مادہ اپنے اندر کیسے پیدا کیا جائے ؟ کون سے ایسے اسباب اختیار کیے جائیں کہ اس پیکرِ خاکی کو صبر کی دنیا سے روشناس کرایا جائے۔ قارئیں اگر ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں تو ہمیں اکثر مسائل اس بے صبری کی مرہون منت نظر آئیں گے ، ایک دوسرے کے جذبات کے ردعمل میں عدم برداشت کی کیفیت ، اپنی بات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی اندھی ہوس، اپنے آپ کا اہل حق اور دوسرے کو مردود قرار دینے کی تاولیں ، یہ تمام ایسے جذبات ہیں جوکہ ہمارے معاشرتی نظام کا خاصہ بن چکے ہیں اور ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں یہ دیمک ہمارے سماج کو کھا نہ جائے۔

اگر آپ ان مراحل سے گزرے نہیں تو یقینا آپ کا مشاہدہ ضرور ہوگا کہ ہر شخص دوسرے پر انگلی اٹھانے کی تگ و دو میں لگا ہوتا ہے کہ فلاں کے اندر یہ خامی ہے ۔۔۔ وہ خامی ۔۔ ایسے شخص کو ہم چغل خور بھی کہتے ہیں، جو ذاتی نمبر بنانے کے لیے دوسرے پر بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کردیتا ہے۔ لیکن سیانے کہتے ہیں کہ جب انسان دوسروں پر انگلی اٹھاتا ہے تو یہ بھول جاتا ہے کہ تین انگلیاں میری جانب بھی گھور رہی ہیں، کہ وہ ایسا نہیں بلکہ تو خود ایسا ہے ۔ آخر ہم کب تک ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا کر اپنے آپ کو اپنے دینی و دنیوی فرائض سے بری الذمہ کرتے رہیں گے ؟ کیا ایسا کرنے سے ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں؟ کیا ہماری قومی پسماندگی کا یہی حل ہے ؟ ۔۔ ہم ایک دوسرے کے گریبانوں میں جھانکنا تو اعزاز سمجھیں لیکن اپنے کھلے گریبان میں جھانکنے پر ہچکچاہٹ محسوس کریں، ۔۔۔ جس سے پوچھا جائے یہی ارشاد فرما رہا ہے کہ بھائی حکمران ہی '' ب اور غیر '' ہیں تو عوام پہ کیا گلہ ، افسوس یہ جملہ ایسا ہو کہ '' میں برا ہوں '' ، خامیاں میرے اندر ہیں، کوتاہیوں کا سراپا ہوں، اپنے فرائض سے غافل لوگوں کی فہرست میں شامل ہوں، اپنے مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دینے والا ہوں۔ اپنے معاشرے کی ترقی کے رستے میں رکاوٹ تو میں بنا ہوا ہوں۔ ۔۔۔۔۔ دولت کی آندھی ہوس نے تو مجھے اندھا بنادیا ہے۔ حقوق اللہ و حقوق العباد کی عدم ادائیگی کا ذمہ تو میری ذات ہے۔۔۔ میں ہی ہوں جس کے اندر غریب کی آہ کی کوئی وقعت نہیں۔۔۔ مجھے ہی مسکینوں کے آنسو پوچھنے کی فرصت نہیں، مجھے تو اپنی نفسیاتی خواہشات نے اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔۔۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میرا اس جہاں میں آنے کا مقصد کیا ہے ؟؟۔۔۔ ہاں ہاں ۔۔۔۔ میں غافلوں کے قبیلے کا سب سے غافل انسان ہوں۔

افسوس کہ ہمیں فرصت کے لمحات مل جائیں۔ آئیے اس کے متعلق سب مل کر کچھ سوچتے ہیں کہ ہم کیسے مقدمہ کی سماعت اپنے ضمیر کی عدالت میں کریں۔ انسانی زندگی میں ایسے لمحات بہت کم آتے ہیں جب انسان اپنی عدالت خود قائم کرتا ہے ، خود ہی ملزم ہو ، خود ہی مدعی ، خود ہی وکیلِ صفائی ، خود ہی منصف ، خود ہی اپنے اپ کو مجرم بھی ثابت کرے ، اور کبھی کبھار خود ہی اپنے آپ کو بری کردے ۔۔۔۔ معلوم ہے یہ کون سی عدالت ہے ؟؟ جی ہاں یہ ضمیر کی عدالت ہے ۔۔۔۔۔ احساس کی عدالت جہاں اپنی زندگی کو سنوارنے کا موقع ملتا ہے ۔۔۔ جہاں اپنی سابقہ زندگی پر غور و فکر کرنے کے لمحات نصیب ہوتے ہیں، جہاں اپنے ماضی کو سمجھنے اور اور اس سے کچھ حاصل کرنے کی جستجو ہوتی ہے ، جہاں حال کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔۔ جہاں مستقبل کی منصوبہ بندی تشکیل پاتی ہے ، پس ایک لمحہ جو لوگوں کی زندگیاں بدل دیتا ہے ، جو خدا اور اُسے کے پیاروں سے محبت کرنے کا درس دیتا ہے، اس لمحہ کو غنیمت جانتے ہوئے انسانیت سے پیار کا جذبہ عام کریں۔

بس ایک لمحہ جو ایک جوتے مرمت کرنے والے کے بیٹے کو 20 کروڑ لوگوں کا حاکم بنادیتا ہے ۔۔۔ ہاں یہی ایک لمحہ جو ترکی کی سڑکوں پر نان فروخت کرنے والے کو صدر بنادیتا ہے ۔۔ ہاں یہی ایک لمحہ جو اخبار فروش اوبامہ کو امریکہ کا صدر بنادیا ہے ، یہی ایک لمحہ دہی بھلے لگانے والے ممنون حسین کو صدر بنادیتا ہے، ہاں یہی ایک لمحہ جس میں ہر فتح و شکست کے فیصلے ہوتے ہیں، یہی وہ لمحہ جس میں موت و حیات کی تقدیر لکھی جاتی ہے ۔۔۔ ! ! تو چلیں آئیں ناں ، ہم کیوں نہ اس احساس کی عدالت میں پیشی کے لیے روانہ ہوں ، وقت بڑا ظالم ہے یہ کسی کی قدر نہیں کرتا ، ہاں اس کا ساتھ ضرور دیتا ہے جو اس کا احترام کرے ، جو اس کو سمجھے ، جو یہ سوچے کہ مجھے دن رات میں جو چوبیس گھنٹے ملے ہیں یہ محض چوبیس کا ہندسہ نہیں بلکہ 1440 منٹ ہیں جوکہ اپنے اندر 86400 سیکنڈز کا سمندر موجز کیے ہوئے ہیں، اور اس سیکنڈ کا بھی ہر حصہ ہم سے اپنے تقاضے کی بھیک مانگتا ہے ، کاش کہ ہم اس کی اس التجا کو سن سکیں کہ کیا کہہ رہا ہے یہ ۔۔۔۔۔ ؟؟

جب میں نے تصور کے کان سے اُس کی التجائوں پر غور کیا تو مجھ پر ایک عجیب سا انکشاف ہوا ، مجھے یہ معلوم ہوا کہ قومی کی زندگیاں کیسے موڑ لیتی ہیں ۔۔۔ ؟ یہ راز ملا کہ ایک انسانی زندگی میں بدلائو کیسے آتے ہیں جب یہ سرگوشی میری سماعتوں سے ٹکرائی کہ '' میں قدر دانوں کو ہمیشہ کامیابی کی صور ت صلہ دیا کرتا ہوں '' تو مجھے اس کا انکشاف ہوا کہ ہم ذلات کی اندھی وادی میں پہنچے کیسے ؟؟ آج ہی سے اپنا احتساب شروع کردیں ، رات کو سونے سے قبل تنہائی کے کچھ لمحات میں اپنے بستر پر اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہوکر اپنی گزشتہ زندگی کا مقدمہ لڑیں اپنے خلاف اور اپنے حق میں خود ہی دلائل دیں۔۔۔۔ خود ہی مجرم سے ملزم کا سفر طئے کریں، اور اپنے کل کی فکر کریں اس خوبصورت ملک پاکستان اور اس کے عوام کی فکر کریں ، اپنے فرائض کی ادائیگی کی فکر کریں۔
تم اپنی ذات کا پس خود ہی احتساب کرو
تمھارے بیچ زمانے کی کیا ضرورت ہے
واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 60 Articles with 90782 views i like those who love humanity.. View More