ہماری پولیس کا بودہ نظام
(Syed Anis Bukhari, Karachi)
جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے ہر آنے
والی حکومت نے اپنی بساط کے مطابق پولیس میں اصلاحات لانے کی کوششیں کی ہیں
مگر تا حال اسکے کہ پاکستان کو بنے ہوئے 69سال ہو چکے ہیں نہ تو اسمیں کوئی
کامیابی حاصل ہو سکی ہے اور نہ ہی اسکے ثمرات عوام تک پہنچ پائے ہیں۔ اسکی
سب سے بڑی وجہ ہمارے معاشرے کا طبقاتی ڈھانچہ اور ہماری حکومتوں کا اپنی
عوام سے مخلص نہ ہونا ہے اور اپنی حکومت کو ہر جائز و ناجائز حرکت سے دوام
دینا ہے۔ جو حکومتیں اپنی قوم اور ملک سے مخلص نہیں ہوا کرتیں وہ ہمیشہ
اپنے پائے لغزش کو استقامت دینے کیلئے قانون اور انصاف کو صرف ایک طبقے تک
محدود کرکے محنت کشوں، غریبوں، بے سہارا اور پسے ہوئے طبقات کیلئے اپنی
حکومت کی پائیداری اور اپنے سیاسی نمائیندوں کو تقویت دینے کیلئے طاقت کا
استعمال کرتے ہوئے ریاست کے انتہائی مظبوط سول ادارہ جسے ہم پولیس کہتے ہیں
کو اپنے مذموم مقا صد کیلئے استعمال میں لاتے ہوئے ان پر جبر و تشدد اور
ظلم و جور روا رکھا کرتی ہے جسے ہم عام اصطلاح میں ریاستی جبر کہتے ہیں۔ ہم
یہاں پر صرف پنجاب حکومت کا ذکر کرینگے کیونکہ ہمارا آج کا موضوع پنجاب کے
گرد گھومتا ہے۔ اکیسویں صدی میں داخل ہونے والے اس پنجاب کو جسے پنجاب کی
حکومت پڑھا لکھا پنجاب کہتی ہے ۔ ہمیں یہاں کے حالات دیکھتے ہوئے ایسے پڑھے
لکھے ہوئے پنجاب پر شرم آتی ہے۔ ہم انتہائی افسوس سے کہتے ہیں کہ جو معاشرے
پڑھے لکھے ہوا کرتے ہیں انہیں نہ صرف اپنے حقوق کے بارے میں علم ہوا کرتا
ہے بلکہ وہ اپنے حقوق کی خاطر جدو جہد کیا کرتے ہیں مگر پنجاب میں ہمیں
ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ ہم نے جدہ جہد کرنے والوں کودیکھا کہ پنجاب
میں ہونے والے نابیناؤں، ڈاکٹروں، نرسوں، کلرکوں، اقلیتوں، ماڈل ٹاؤن لاہور
کی لرزہ بر اندام پولیس کی واردات جو آج بھی لوگوں کے ازہان سے چپکی ہوئی
ہے، مقتولین کے ورثاء اور اسی طرح دوسرے متاثرین جنکی حقوق زنی ہوتی رہی
اور وہ پنجاب حکومت کے خلاف جب بھی سڑکوں پر آئے ان کے پر امن احتجاج پر
ہمیشہ شب خون مارا گیا اور گولیوں کی برسات کی گئی، آنسو گیس کے گولے
برسائے گئے اور لاٹھی چارج کرکے نہتے لوگوں کو خون میں نہلایا گیا، انکے
ہاتھ اور پاؤں توڑ دئے گئے اور یہانتک کہ انہیں جان سے مارنے سے بھی دریغ
نہ کیا گیا اور یہ بات ہماری اس بات کو تقویت پہنچانے کیلئے کافی ہے کہ
پنجاب حکومت نے انسانوں کو جانوروں کی طرح تہہ و تیغ کرکے ہٹلر کی یاد تازہ
کردی جو تاریخ کے اوراق پر سیاہ باب کی حیثیت سے رہتی دنیا تک انسانیت کا
منہ چڑاتی رہیگی۔
جہاں پنجاب پولیس میں بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے وہیں اس امر کو بھی صرف
نظر نہیں کیا جا سکتا کہ پنجاب میں جہاں پولیس نے اپنے ٹارچر سیل اور عقوبت
خانے مرتب کئے ہوئے ہیں وہیں پنجاب کے سیاسی رہنماؤں اور ورکرز نے بھی
پولیس کی چھتری تلے اپنے نجی ٹارچر سیل اور عقوبت خانے بنا رکھے ہیں اور ان
نجی ٹارچر سیلوں اور عقوبت خانوں کو مکمل طور پر پولیس اور پنجاب حکومت کی
مدد حاصل ہوتی ہے جہاں ما ورائے قانون و عدالت اپنے مخالفین پر تشدد کیا
جاتا ہے، انہیں ننگاکر کے انکے اعضاء کو سگریٹوں سے داغا جاتا ہے، انکی عزت
پامال کی جاتی ہے اور ان سے شرمناک حد تک ایسے ایسے افعال انجام دئے جاتے
ہیں کہ ایک انسان سوچتے ہوئے بھی کانپ جاتا ہے، یہاں پر لائے جانے والے بے
دست و پاء لوگوں کی دلدوز اور دلخراش چیخیں نہ تو ان ظالموں پر اثر انداز
ہوتی ہیں اور نہ ہی انہیں کسی قسم کا خوف ہوتا ہے اور یہ متشددانہ اذہان کے
مالک سیاسی اور قانون نافذ کرنے والوں کی پناہ میں ہوتے ہیں لہٰذا یہ بلا
خوف و خطر ہر وہ غیر انسانی فعل ان ٹارچر سیلوں اور عقوبت خانو ں میں انجام
دیتے ہیں جسکے بارے میں انسانیت بھی سوچ کر شرما جاتی ہے۔بے بس اور بے کس
لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے، جرائم پیشہ افراد کو پناہ فراہم کرنا، پولیس
کے مکروہ اور بدکار اہلکاروں اور افسروں کیلئے عیاش گاہیں ہیں جہاں وہ ہر
قسم کے وہ جرائم سر انجام دیتے ہیں جس سے انسانیت کی نہیں بلکہ حیوانیت کی
بو آتی ہے۔
ہمارے پنجاب کی پولیس ہمیشہ عوام کی نکتہ چینی اور نقاد وں کا ہدف نظر رہی
ہے ، پولیس میں با اثر لوگوں اور سیاسی عمائدین نے ہمیشہ پولیس کو اپنے
مقاصد کیلئے استعمال کرکے جہاں قانون کا مذاق اڑایا وہیں آئین کی دھجیاں
بھی اڑائیں ہیں۔ مگر آئین اور قانون ہمیشہ ان معاشروں میں اپنی جڑیں رکھتے
ہیں جہاں ہر طبقہ آئین اور قانون کا نہ صرف احترام کرتا ہو بلکہ مکمل طور
پر ان پر عمل بھی کرتا ہے اور وہی قومیں انصا ف سے ہمکنار ہو ا کرتی ہیں
جہاں قانون کی عملداری ہر ایک لئے برابر ہو۔ تا حال پنجاب پولیس کی جانب
کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے مختلف غیر سرکاری انجمنوں نے اس بات کی
نشاندہی کی ہے کہ پولیس قوانین میں اصلاحات اور تبدیلیوں اور سخت سزاؤں کی
ضرورت ہے مگر تا حال ان پر کوئی نظر ثانی نہ کرتے ہوئے پولیس کو بے لگام
چھوڑا ہوا ہے اور پولیس کی ناک کے نیچے ہر قسم کے نجی ٹارچر سیل اور عقوبت
خانے قائم ہیں جہاں پر ہر طرح کی نا انصافیاں طاقت کے بل بوتے پر کی جاتی
ہیں مگر پولیس تا حال انہیں ختم کرنے میں ناکام ہے کیونکہ ان نجی ٹارچر
سیلوں اور عقوبت خانوں کو حکومتی اور سیاسی حمائت حاصل ہے۔
پنجاب پولیس کو اگر ہر طرح کے سیاسی دباؤ اور حکومتی دباؤ سے آزاد کر دیا
جائے تو وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے اور جرائم پر قابو پانے میں کامیاب ہو
سکتی ہے۔ پولیس کے اختیارات و وسائل اور اسکی تعمیری استعداد کار کو بڑھا
یا جائے ۔ گو کہ پولیس کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اٖافہ ہو چکا ہے مگر
کرپشن سے تا حال جان نہیں چھڑوائی جا سکی جو اس بات کی غماز ہے کہ اس جانب
کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ پولیس کیلئے ایسے اسکولوں کا قیام عمل
میں لایا جائے جہاں پر انہیں اخلاقی تعلیم دی جائے اور انہیں اس بات کا
پابند بنایا جائے کہ وہ عوام دوست ہو ں اور قانون پر جہاں عوام سے عملدرامد
کروانا ہے وہیں وہ خود بھی اسکے پابند ہوں۔ اور عوام کو پولیس کے خوف سے
آزادی دلانا تاکہ ہر ایک پولیس سے بلا خوف و خطر مالمشافہ مخاطب ہو کر اپنی
بات کہہ سکے۔ پولیس افسران کو قوانین کے مطابق انکی مدت پوری ہونے پر انکا
تبادلہ کیا جائے تاکہ وہ ایک ہی جگہ پر رہ کر اپنی من مانیاں نہ کر سکیں۔
پولیس افسران کو انکے اضلاع سے دوسری جگہوں پر تعینات کیا جائے تا کہ وہ
اقربا ء پروری سے دور رہیں۔ پولیس کو حکومت کے نہیں بلکہ ریاست کے زیر
انتظام ہونا چاہئے۔ پولیس قوانین پر سختی وے عمل درآمد کروا یا جائے۔
اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ اسوقت کی بات ہے جب ہم انگریز کے زیر
نگیں تھے اور پولیس کے یہ قوانین 1861میں بنائے گئے تھے جنہیں وہ ہمارے ہی
پالتو لوگوں اور اپنے دلالوں کے ذریعے ہم پر لاگو کرتے تھے مگر ایک لمبا
عرصہ گزر جانے کے باو جود بھی ہم انہیں قوانین پر عمل پیرا ہیں جبکہ یہ
قوانین برٹش راج نے اپنے فائدے کیلئے بنائے تھے اور ان میں ہمارے علاقے کے
عوام کی اصلاح یا پھر ترقی کیلئے کوئی خاص مقاصد نہیں تھے۔ اب ہمیں ہر طرح
کے چیلنج سے نبٹنے کیلئے خواہ وہ سیاسی ہوں یا معاشرتی ہوں پولیس کے نظام
کو انتہائی مربوط بنا کر اسے ہر طرح کے سیاسی اور حکومتی دباؤ سے آزاد کر
نا ہے کہ انہیں آزاد کرکے ہی ہم قوانین اور انصاف کا بول بالا کر سکتے ہیں۔
جہانتک شہریوں کا تعلق ہے تو پولیس کو شہریوں کے تابع کیا جائے تاکہ پولیس
قوانین 2002کو اسکی اصل شکل میں لاگو کرکے اس سے استفادہ کیا جا سکے ورنہ
پولیس اور نجی ٹارچر سیل اور عقوبت خانے ہم پر یونہی مسلط رہینگے، لا
قانونیت کا دور ورہ رہیگا اور ہماری انا اور عزت ایسے ہی تار تار ہوتی
رہیگی۔ ہمیں انتہائی خوفناک چیلجنز کا سامنا ہے جسکا مقابلہ کرنے کیلئے
ہمارے حکمرانوں کو اپنے ذاتی مفادات کی قربانی دینا ہوگی تاکہ یہ قوم صحیح
معنوں میں بغیر کسی ایک لمحے کو ضائع کئے اپنے قانونی مقاصد حاصل کرنے میں
کامیاب ہو جائے۔ کہتے ہیں کہ ہزاروں میل کا سفر طے کرنے کیلئے ایک قدم کو
اٹھانے سے ہی اسکی شروعات ہوا کرتی ہے۔ اب ہمارے پاس ضائع کرنے کو کچھ نہیں
ہے۔
|
|