مثل مشہور ہے کہ جہیز ایک لعنت ہے، جس کی
وجہ سے گھروں کے گھر تباہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن اصل میں قصوروار تو جہیز لینے
والے ہیں جو انسان کی بجائے مال و دولت کی ہوس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اخباروں
میں رشتوں کے لئے دیئے گئے اشتہارات کو پڑھیں تو بڑی بے حیائی کے ساتھ
ایم۔فل، پی۔ایچ۔ڈی، ڈاکٹر، برسرروزگار، مالی طور پہ مستحکم، اور سرکاری
ملازمتوں والی لڑکیوں کی ڈیمانڈ کی جا رہی ہے۔ منگنی اور نکاح کے بعد لڑکے
لڑکی کو اپنے گھر والوں کی مجبوریاں بتا کے فرمائشی لسٹیں فراہم کر رہے ہیں،
جبکہ والدین ـ ـ ــ․ہمیں کچھ نہیں چاہئے کی رٹ لگا کے لڑکی کے والدین کے
سامنے تکبر سے بیٹھے رہتے ہیں۔ اب تو شریف والدین بجائے اپنی بیٹیوں کی
تعلیم بتانے کے، ڈائریکٹ گاڑی اور ساس کو سونے کے تحفے دینے کے وعدے کر کے
رشتے تلاش کر رہے ہیں۔ لڑکے بھی اپنے خاندان میں بڑی لاٹری نکلنے کی خوشی
میں پھولے نہیں سماتے اور اپنے اس فعل پہ ذرا برابر بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔
ایسے حالات میں بیروزگار اور شریف لڑکیوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ وہ
اپنے آپکو والدین کے گھر میں مجرم سمجھنے لگ گئی ہیں۔
ان حالات میں لالچی والدین اور لالچی لڑکوں کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔
تمام کے تمام اداروں میں جہیز لینے والوں اور لالچی لوگوں کو مجرم اور
لٹیروں جیسے خطابات سے نوازہ جائے تا کہ لالچی لوگوں کو معاشرے میں سزا مل
سکے۔ ایسا کرنا ہمارے معاشرے میں ضرورت بن چکا ہے، کیونکہ یہ ظلم آجکل عروج
پہ ہے۔ |