کس سے منصفی چاہیں ؟
(Irfan Mustafa Sehrai, Lahore)
ہمارے عوام نے کچھ سیکھا ہو یا نہیں ،مگر
سیاستدانوں نے حکمرانی کرنے کے نت نئے انداز ضرور سیکھ لئے ہیں ۔آج میڈیا
ہو یا پھر سیاستدان ،عوامی ایشوز کو پس پشت ڈال کر سیاسی ایشوز کو نمایا
ںکیا جاتا ہے اور عوام اپنے مسائل بھول کر سیاسی شطرنج کی بساط میں الجھے
ہوئے ہیں،جبکہ حکمران عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے،انہیں
اپنے مقاصد کے لئے استعمال تو ضرور کرتے ہیں،مگر پھر فوراً انہیں ان کی
اصلیت بھی بتا دی جاتی ہے۔کیا کریں! ان بھولے بھالے اور مجبور عوام کا
جنہیں شاطر ”شکاری نما“سیاستدانوں نے اپنے نرغے میں لیا ہوا
ہے۔جلسہ،جلوس،ریلی یا دھرنا ہو،تو ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر اکھٹا
کر لیا جاتا ہے،اس کے بعد انہیں کسی ”چرواہے “کے بغیر ریوڑ کی طرح بے یارو
مدد گار چھوڑ دیا جاتا ہے ۔عوام کو استعمال کرنے کا گُر آ گیا ہے کہ
انہیںکسی بھی نئے ایشو کا”لولی پاپ“دو اور انہیں آسانی سے بے وقوف بنالو۔
سیاستدان ہوں یا فوجی جرنیل ہر کسی نے تبدیلی کا نعرہ لگایااور یقین دلایا
کہ عدل و انصاف کا شفاف نظام ،امن امان ،معیاری تعلیم و صحت،روٹی،کپڑا
،مکان،روزگار کے عام مواقع ، مہنگائی کو دنوں میں کچلنے،ہر شخص کے حقوق
دینے کے بلندو بانگ دعوے کئے،مگر وہ وعدے ہی کیا جو وفا ہوں۔سیاست کا یہ
سارا کھیل محض اقتدار کی خاطر ہی کھیلا جاتا ہے ، مگر اقتدار کے شوقین اور
رسیا کچھ سیاستدان اپنی نا تجربہ کاری یا نا اہلی کی وجہ سے اقتدارکے
ایوانوں تک اس وجہ سے نہیں پہنچ پاتے کہ ان میں مطلق قابلیت نہیں ہوتی،وہ
صرف عوام کے ذہنوں،جذبات اور احساسات سے کھیلنے میں مزہ لیتے ہیں اور اپنے
آپ کو ہیرو سمجھتے ہیں۔ان کے سامنے عوام حشرات سے بڑھ کر کچھ نہیں۔کچھ
سیاسی لوگوں میں قابلیت تو ہوتی ہے، لیکن ان کی خواہشات اور دولت کی ہوس
انہیں اس قدر پستی میں گرا دیتی ہے کہ انہیں احساس ہی نہیں رہتا کہ اللہ
تعالیٰ نے ہمیں کس منصب سے نوازا ہے،وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نا شکر گزار
اور عوام کے احسان فروش ہوتے ہیں ۔یہی تو ہماری ملکی قیادت کے اوصاف ہیں،جس
کی وجہ سے عوام بد حال ہیں،جبکہ حکمرانوں کی دولت کے انباربڑھتے جا رہے ہیں
۔عوام خطِ غربت کی نچلی سطح تک پہنچ چکے ہیں ،نوجوان بڑی بڑی ڈگریاں ہاتھوں
میں لے کر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
بے روزگاری بہت بڑا عذاب ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے انسان ذہنی واخلاقی اور
جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔آس پاس کے ماحول پر طائرانہ سی نظر
ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عوام اپنے مسائل میںجکڑ ئے ہونے کی وجہ سے
شدید الجھنوں کے شکار ہیں۔ہر فرد کو اللہ تعالیٰ نے مختلف صلاحیتوں سے
نوازا ہوتا ہے ، مگربدقسمتی سے انہیںاپنے ملک میں وہ مواقع میسر نہیں،جہاں
وہ اپنی صلاحیتوں سے ملک و قوم اور اپنے گھر والوں کے لئے کچھ کر سکیں
۔حکمرانوں کے ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے دعووں کے باوجودملک 70 ارب
ڈالر کا مقروض ہے،صحت کا معیار یہ ہے کہ 1000 افراد کے لئے ایک بھی ڈاکٹر
میسر نہیںاورہسپتالوں میں بسترتک نا پید ہیں، خواندگی کی شرح 55فیصد تک
پہنچ چکی ہو،امن و امان کی بدترین صورت حال ہو،آئے روز بچے اغوا ہو رہے ہوں
،رشوت عروج پر ہو، کسی غریب کی فریاد سننے والا کوئی نہ ہو، ہر چیز میں
سرعام ملاوٹ ہو،جعلی ادویات کا کاروباری مافیا کی صورت اختیار کر گیا ہواور
ان پر کوئی ہاتھ تک ڈالنے والا نہ ہو،تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے ،کہ کہاں
گئی اچھی حکمرانی ، کہاں گئے گڈ گورننس کے بلندو بانگ دعوے....؟ غربت کی
چکی میں پسے ہوئے ،پڑھے لکھے بیروزگار، اقتدار کے ان پجاریوں کے وعدوں کے
سہارے آج بھی بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
حکمران توآپس میں ”مک مکا“ کر کے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں
اور بے چاری عوام اپنے مسائل میںاس بری طرح سے الجھے ہوئے یا الجھائے گئے
ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے حصول سے بھی قاصر ہو چکے ہیں ۔ انہیں تو ہر لمحے
صرف یہی سوچیں گھیرے رکھتی ہیں کہ وہ اس اذیت ناک مہنگائی کے دور میں اپنے
بچوں کی تعلیمی اخراجات کا بندوبست کریں یا گھر کے اخراجات کا،وہ بیماری کا
مہنگا علاج کروائیں یا روزگار تلاش کریں ،وہ پانی ، بجلی کے بھاری بل ادا
کریں ،نا انصافی کا دکھ کریں یا اداروں کے ناروا سلوک کا ماتم کریں ،بے
چارے عوام جائیں تو کہاں جائیں؟اس کی مثال یہ ہے کہ اکثر شہریوں کا بجلی کا
بل واپڈا اہلکاروں کی غلطی کی زدآجاتاہے ، 2ہزار کے بل کو 2لاکھ کا بنا کر
بھیج دیا جاتا ہے،اسے درست کرنے کے لئے دس ہزار رشوت طلب کی جاتی ہے اور آپ
کے پاس کوئی دوسری صورت نہیں کہ آپ اس مسئلے سے آسانی سے نکل سکیں ۔افسران
دفاتر میں دکانیں لگا کر بیٹھے ہیں ، انہیں نہ کسی کا ڈرہے نہ ہی خوف،مادر
پدر آزاد واپڈا اہلکاروں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے ہوتے ہیں،نچلے عملے
سے لے کر بڑے عہدیدار تک ایک زنجیرہے،اگر اس زنجیر کو کوئی ستم ظریف توڑنے
کی کوشش کرے،تو اس اندھیرنگری میں وفاتر کے چکر لگوائے جاتے ہیںاور باور
کروایا جاتا ہے کہ آپ کا کام تب ہی ہو گا ،جب آپ ان کی مٹھی گرم کریں
گے،لیکن گڈ گورننس کے دعویدار ان حالات پر کچھ نہیں کر رہے،کیونکہ ان کے
درباری قصیدہ گو انہیں” سب اچھا ہے“ کی رپورٹ دیتے ہیں۔
ہمارے خادم اعلیٰ پنجاب کی اپنی ہی عادت ہے،جب کبھی عوامی خدمت کا بھوت
سوار ہوتا ہے تو کہیں بھی چکر لگا لیتے ہیں ،انہیں کبھی اینٹوں کے بھٹے پر
بچوں سے پیار کرنے کا جوش آتا ہے،کبھی بازاروں میں مہنگائی جانچنے کا
خیال،کچھ اور نہیں تو کسی ہسپتال میں چھاپہ مار لیتے ہیں ،لیکن کیا کبھی
ایسا ہوا کہ جہاںچھاپہ مارا،وہاں کسی کو ایک فیصد ہی بہتری نظر آئی ہو ؟کم
سن بچے ویسے ہی ہر جگہ کام کر رہے ہیں،بازاروں میں ریٹ لسٹ نام کی کوئی چیز
نہیں،اپنی من مرضی کے ریٹ پر اشیاءفروخت ہو رہی ہیں،ہسپتالوں کی زبوں حالی
کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیوریج کا پانی وارڈوں میں سے گزر
کر جاتا ہے ، ہر جانب چوہے اٹھکیلیاں کرتے پائے جاتے ہیں، ہسپتالوں میں
صفائی کے ناقص انتظامات کو خود وزیر اعلیٰ نے دیکھا ہے، ہاﺅس جاب کرنے والے
ڈاکٹروں سے پورے ہسپتال کے کام لئے جا رہے ہیں، ، پروفیسر حضرات ہسپتال میں
آنا اور غریب مریض کو دیکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں،سرجری کے مریض کئی کئی
ماہ تک انتظار کرتے ہیں کہ کب بستر میسر آئے اور آپریشن کا وقت ملے۔جعلی
ادویات ہسپتالوں سے کئی بار بھاری مقدار میں بھی پکڑی گئیں ، ،لیکن جب وزیر
اعلیٰ سے پوچھا جائے توبقول ان کے صوبہ پنجاب میں عوامی خدمت کا ان سے
زیادہچیمپئن کوئی اورنظر نہیں آئے گا۔
وزیر اعلیٰ صاحب !آپ نے اپنا نام کے ساتھ خادم اعلیٰ کاخوبصورت ”لقب“ تو
لگا لیا ،مگر کبھی واپڈا کے دفتر کے سامنے سارا سارا دن کھڑے غریب مظلوم
شہریوں کا حال بھی پوچھا ہے،جن کو نا کردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے، ایک
عام شہری کی طرح کبھی ہسپتال میں داخل ہو کر دکھائیے،کسی پروفیسرڈاکٹر سے
علاج کرواکر دکھائیے،کبھی پولیس تھانے میں اپنا مسئلہ لے جا کر دیکھیں کہ
ایک عام شہری کس طرح ذلیل و خوار ہوتا ہے۔اس ملک میں حکمرانوں کی غلطی کا
خمیازہ بھی غریب عوام ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور ان کی فریاد سننے
والابھی کوئی نہیں ہوتا۔ہمارے معاشرے میںہر طاقت ور ،کمزور کو چیونٹی کی
طرح مسل دیتا ہے اورکوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ایسے حالات میں زیادہ تر لوگ
نہ صرف حکمرانوں سے بلکہ ہر ادارے سے بھی نفرت کرنے لگتے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اپنے مفادات اور خواہشات کے لئے
جھوٹ کے کلچر کو اتنا فروغ نہ دیں کہ عوام بھی اندھا دھند ان کی پیروی میں
لگ جائیں ،انہیں اتنا ہی جھوٹ بولنا چاہیے کہ وہ سچ نہ لگنے لگے،ورنہ وہ
اپنی بقاءکی جدوجہد میں ناکام ہو جائیں گے ۔موجودہ حکمرانوں کا طویل عرصے
تک برسرے اقتداررہنے کا خواب بہت اچھا سہی ،مگر اس کے لئے عوامی مسائل حل
کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ ڈلیور کر نا وقت کی اہم ضرورت ہے ،اگر اس
حقیقت سے روگردانی کی گئی تو” بادشاہی “کایہ خواب ہرگز شرمندہ تعبیر نہیں
ہو سکے گا۔ |
|