سانحہ پشاور سے سانحہ کوئٹہ تک۔۔۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہے؟؟؟

نیک عمل اُتمانی

کل کا دن پاکستان کی تاریخ کا درناک اور المناک ترین دن تھا اور کالم لکھتے وقت سانحہ کوئٹہ میں شہدا کی تعداد ایک سو تک پہنچ گئی تھی،لیکن ہم کیا کریں ہمیں تو اب ایک عادت سی پڑ گئی ہے اسی طرح کے دن دیکھنے کی ،، یہ پہلا واقعہ نہیں ہم روزانہ اسی طرح کی لاشیں اُٹھاتے ہیں اور یہی وجہ ہیں کہ ہمارے حس اور ہمارے دل اب سُن ہوچکے ہیں نہ تو ماضی میں ہمیں کوئی فرق پڑا ہے اور نہ مستقبل میں پڑے گا کیونکہ پاکستان بد قسمتی سے ایک ایسا ملک ہے جس کے عوام اپنے حکمرانوں سے انتہائی بے زار ہیں اور ہمیشہ رونا رو تے ہیں کہ ہمارے حکمران ٹھیک نہیں اور انہوں نے اس ملک کو تباہی بربادی کی آخری نہج پر پہنچا دیا ہے ،لیکن یہاں عوام کے اپنے شعور پر بھی سوال اُٹھتا ہے کہ ایک چند خاندان ان کے اوپر پچھلے چالیس سال سے حکمرانی کر رہے ہیں اور اس ملک میں آج تک کوئی ایسی شخصیت پیدا نہیں ہوئی جو ان دو خاندانوں سے اس ملک کی حکمرانی چھین کر اس ملک کو صحیح سمت میں لے جائے کیونکہ عوام انہی کوبار بار خود اپنے حکمران منتخب کر لیتے ہیں، دونوں خاندانو ں کی غرض اس سے نہیں ہے کہ کون مر رہا ہے اور ملک میں کتنا خون بہہ گیا ہے بس ان کو حکمرانی کے چسکے چاہیے جو وہ آرام سے لے رہے ہیں، عوام غربت سے مریں ،دہشت گردی سے مریں یابم دھماکوں سے مریں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، نائن الیون میں تین ہزار کے لگ بھگ لوگ مرگئے اور امریکہ نے پوری دنیا کو سر پر اُٹھا لیا آج تک اپنی دشمن کی پیچھے کھربوں ڈالر خرچ کرکے اپنے ہزاروں فوجی مروادیے پوری دنیا کو آگ کی بھٹی بنائی لیکن دنیا کو دکھا دیا کہ امریکی حکومت کو اپنی شہریوں کا خون کتناعزیز ہے،اور ایک ہے ہمارے پاکستان کے حکمران جن کے اپنے بچے تو ملک سے باہر سکون میں بیٹھے ہیں، مرتے ہیں تو غریب لوگ اور غریب شہری،کیونکہ ان کی خون کی کوئی قیمت نہیں ہے، ،، بھاڑ میں جائے یہ ملک اور بھاڑ میں جائے پاکستانی عوام بس ان کو اقتدار کی مزے لیکر سمندر پارپچاس ساٹھ فیکٹریا ں چاہیے، جب ان کی اقتدار کی باری آتی ہے تو سب ایک ہوکر جمہوریت کے نام پر دو خاندانو ں کی حکمرانی بچانے کیلئے پورے ملک کو سر پر اُٹھا لیتے ہیں، وزیر اعظم کو بخار ہوجاتا ہے تو لندن بھاگ کر اپنا علاج کرواتا ہے، اربوں روپے ان کے علاج معالجے اور اسائشوں آرائشوں پر لگا دیے جاتے ہیں لیکن جو لوگ دن رات اس ملک کے پودے کو اپنے محنت کی پسینے اور خون سے سیراب کررہے ہیں، جو لوگ صبح شام اس ملک کی ترقی کیلئے خون پسینہ بہاتے ہیں ، وہی معصوم لوگ روزانہ بموں کا نشانہ بنتے ہیں، ہر مہینے کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے جس میں سینکڑوں کے بے گناہ شہری شہید ہوتے ہیں پھر بھی حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے، کیونکہ ان کو یہ قوم نہیں بکریوں کا ریوڑ لگتا ہے ان کو پتہ ہے کہ یہ وہ قوم ہے جن میں نہ تو شعور ہے اور نہ عقل، ان کے رگوں میں غلامی کاخون دوڑ رہا ہے اور غلام قوم کی یہ نشانی ہے کہ چاہے ان کوجتنابھی ماریں،جتنے بھی بم دھماکوں سے شہید کیا جائے یہ اُٹھیں گے کبھی نہیں اور حکمرانو ں سے یہ پوچھنے کی جرات کبھی نہیں کریں گے کہ ان کو کیوں مارا جاتا ہے، یہ کبھی نہیں پوچھیں گے کہ ملک کے عام شہریوں کو تحفظ دینا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اگر حکومت سیکیورٹی نہیں دے سکتے تو چھوڑ دیں اس ملک کی حکمرانی کو،،، ہمیں نہیں ضرورت ایسے حکمرانو ں کی،، سو دو سو لوگ مر جاتے ہیں لیکن حکمرانو ں کاصرف ایک ہی بیان آتا ہے کہ ہمارے حوصلے پست نہیں ہو ں گے کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ یہ قوم سوئی ہوئی قوم ہے ان کوجتنا بھی مارویہ اتنا ہی لیٹ جائیں گے، سانحہ اے پی ایس سے لیکر ابھی تک کتنے سانحیات ہوئے ، نیشنل ایکشن پلان بنا ، کیا ہوا؟؟؟ کچھ نہیں بس آٹھ دس دن کا ڈرامہ ہوتا ہے لوگ بھول جاتے ہیں اور اگلے مہینے پھر کسی عوامی مقام پر سینکڑوں لوگوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے،، کون کرتا ہے کیوں کرتا ہے؟؟؟ اگر ان کو یہ پتہ نہیں کہ کون ہمارے ملک کے ان معصوم لوگوں کی خون بہا رہے ہیں تو ان کو پھر حکمرانی کا حق کس نے دیا ہے؟؟؟ ان کی حکمرانی پر تو شک اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب بھی حکومت کے خلاف کوئی آواز اُٹھتی ہے کوئی نہ کوئی سانحہ ہوجاتا ہے،کیا اس سے حکومت کی کردار پر سوال نہیں اُٹھتا؟؟؟ کیا اب بھی کسی کو شک ہے ؟؟ ؟ انڈیا میں کسی کی مرغی چوری ہو جائے تو الزام پاکستان پر، لیکن پاکستان میں ہر مہینے سینکڑوں لوگوں کا خون بہا دیا جاتا ہے لیکن ہمارے حکمران صرف اتنا کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ ہمارے حوصلے پست نہیں ہونگے اور ہم مزید لاشوں کو بھی اُٹھانے کیلئے تیار ہیں ،، ،، 2014 میں حکومت کے خلاف دھرنا ہوا جس کے ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ، جب حکومت کو خطرہ محسوس ہوا تو پشاور میں سینکڑوں بچوں کو شہید کیا گیا، اب جب دوسری مرتبہ حکومت کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو کہیں یہ ایک دفعہ پھر سینکڑوں لاشوں کی عوض لوگوں کی توجہ حکومت کی نا اہلی ، پانامہ لیکس ، تحریک احتساب اور تحریک قصاص سے ہٹانے کی سازش تو نہیں؟؟؟ کیا دونوں مرتبہ ایک جیسے نوعیت کے ایسے واقعات محض اتفاق ہیں؟؟؟ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ کون کر رہا ہے یہ سب کچھ؟؟؟ حکومت اپنی کرسی بچانے کیلئے اگر ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ معصوم بزرگ شہریوں اور خواتین کی لاشیں گرا سکتی ہے تو یہاں یہ بات سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ حکومت اپنی نا اہلی چھپانے اور دھرنوں سے توجہ ہٹانے کیلئے کچھ بھی کر سکتی ہے ؟؟؟ اگر دہشت گرد وں کی پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ایک سو پچاس بچوں کی خون بہا نے کے بعد حکومت کیلئے خطرہ ٹل جاتا ہے تو کیا یہ حکومت کے کردار کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا نہیں کررہا؟؟؟ کیا موجودہ حکومت اور مودی کی دوستی کسی سے پوشیدہ ہے؟؟؟ اگر حکومت واقعی مخلص ہے تو بلوچستان سے راء کا مبینہ ایجنٹ پکڑنے کے بعد حکومت نے ابھی تک کیا اقدامات اٹھائے ہیں ؟؟؟ ماضی میں ذرا جانکھ لیں تو خود بخود سمجھ جائیں گے کہ جب ان کی حکومت کو دھرنے سے خطرہ محسوس ہوا تو اے پی ایس کا سانحہ ہوا اور آج ایک دفعہ پھر ان کی کرسی کو خطرہ محسوس ہوا تو کوئٹہ میں بے گناہ وکیلوں اور عام لوگوں کو شہید کیا گیا، کیا اب بھی کسی کو شک ہے ؟؟؟؟ ذرا طریقہ واردات تو دیکھ لیں، سب سے پہلے وکلاء تنظیم کے سربراہ کو ماردیا گیا اور جب ان کی لاش کے ارد گرد وکلاء اور عام لوگ جمع ہوگئے تو خود کش حملہ کیا گیا ، کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ اس واقعے میں گھر کا بندہ ملوث نہیں ہوسکتا؟؟؟ سوال یہ ہے کہ اخر وکیلوں کے ساتھ کسی کی کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟؟؟ اے پی ایس کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟؟؟ چارسدہ یونیورسٹی کے معصوم طلباء سے کسی سے کیا دشمنی تھی ؟؟؟ میں تو کہتا ہوں کہ اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنی صفوں میں موجود اپنی دشمن پہچانیں، ابھی وقت ہے کہ اُٹھ جائیں اور انہی حکمرانوں کے گریبان پکڑیں ورنہ اسی طرح اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھاتے رہیں گے اور حکمران ہمارے اوپر حکمرانی کرتے رہیں گے، ،، افسوس کہ یہ سوئی ہوئی قوم ہے اور میں سوئے ہوئے قوم کیلئے صرف اتنا ہی کہ سکتا ہوں کہ اس ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھیں گے اتنی ہی زیادہ نقصان ہوگا، اگر کسی کو اب بھی شک ہے کہ سانحہ اے پی ایس سے لیکر سانحہ کوئٹہ تک تمام واقعات کی کڑیاں حکومت کی ناکامی کے ساتھ نہیں ملتی، تو وہ اپنے علاقے کے دماغ کی کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع فرمائیں اور اپنی دماغ کی مکمل چیک اپ کروائیں یا نواز شریف کا وہ دن یاد کریں جس دن اُن کا آپریشن ہورہا تھا تو آپریشن تھیٹر جانے سے پہلے انہوں نے اپنے آقا مودی لعنتی کو فون کیا کہ میرے لئے دعا کریں ،،،، مودی اور ہمارے وزیراعظم کی قربتیں اور دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور مودی کیلئے اپنے کسی بھی دوست کو بچانے کی خاطر سو دو سو لوگوں کا خون بہانا کوئی بڑی بات نہیں، وہی مودی تو پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بات کر رہے ہیں، وہی مودی جو براہ راست پاکستان کو دھمکیا ں دے رہا ہے کہ ہم پاکستانی عوام کی اتنی خون بہائیں گے کہ وہ خود سوچیں گے کہ کیا کریں، راء کے ایجنٹ پکڑنے کے بعد بھی کیا کسی کو کوئی شک ہے؟؟؟ میری اپیل ہے کہ خدارا اُٹھیے ابھی وقت ہے اپنے خون کے حساب لینے کا،،، عوام کی جان و مال کی تحفظ کی ذمہ دار حکومت ہے اور اپنی خون کاحساب حکومت سے مانگئے، ،، خدانخواستہ کل ایسا نہ ہوں کہ پھر ہم خود اُٹھنے کی قابل رہے اور نہ لاشیں اُٹھانے کے۔
Nek Amal Utmani
About the Author: Nek Amal Utmani Read More Articles by Nek Amal Utmani: 2 Articles with 1527 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.