بچوں کو بچانا ہے
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
کسی بھی معاشرے میں مجرمانہ سرگرمیوں
کاناخواندگی اورپسماندگی سے گہراتعلق ہوتا ہے جبکہ حکمرانوں کے ناقص فیصلے
ان کے اورعوام کے درمیان بداعتمادی اور فاصلے پیداکرتے ہیں۔جس معاشرے میں
انسانوں کوان کے بنیادی حقوق نہیں ملتے وہاں احساس محرومی کاانتقام اپنے سے
زیادہ کمزورسے لیاجاتا ہے ۔بیروزگاری اوربے راہ روی سے متاثرہ انسان کس وقت
حیوان بن جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔حد سے زیادہ بھوک ،نفرت اورناانصافی
بھی معصوم انسانوں کو مجرم بنا سکتی ہے۔جہاں آئین وقانون کی حکمرانی قائم
ہونے کی بجائے افراد کا فرمان چلتاہو ،جہاں اداروں کی بجائے
اقتداراورافرادکوطاقت کامرکز بنایاجائے وہاں قانون شکنی اورعہدشکنی عام
ہوجاتی ہے۔ان سب کے باوجودجرم کرنے کاکوئی جواز ہے اورنہ مجرم قابل رحم
ہیں۔جہاں ڈھونڈنے پربھی دوردورتک حکومت کانام ونشاں نہ ملے وہاں معصوم بچوں
کا اغواء ہونا فطری امر ہے۔حکمرانوں نے پولیس اوراس کے دوسرے شعبہ جات میں
کام کرنیوالے اہلکاروں کواپنے محلات کی چوکیداری اورپہرے داری پرلگایا ہو
اہے جبکہ سماج دشمن عناصر شہروں میں اورشاہراہوں پردندناتے پھرتے ہیں۔جس
ریاست کے حکمران لاپتہ ہوں وہاں بچے کس طرح لاپتہ نہیں ہوں گے ۔جہاں حکمران
اپنی ناکامیوں کابوجھ اپنے ماتحت سرکاری آفیسرز اوراہلکاروں پرڈال کرانہیں
سخت سزائیں دیں وہاں امن، انصاف اورانسانیت کادم گھٹ جاتا ہے اورلوگ اپنے
حال سے سمجھوتہ کرکے مستقبل سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ اگرکسی دریا میں پڑنے
والے والے شگاف کوفوری بندنہ کیا جائے توپھر'' بند''ٹوٹ جاتااورسیلاب
امڈآتا ہے ۔پاکستان میں مجرمانہ سرگرمیوں کوبروقت روکنے اورجرائم پیشہ
عناصر کاسر کچلنے کارواج نہیں بلکہ جس وقت پانی سرتک آجاتا ہے پھر ارباب
اقتدارواختیار ہڑبڑاکربچاؤ کیلئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں مگراس وقت تک پلوں کے
نیچے سے بہت ساراپانی گزرچکاہوتا ہے ۔جس وقت لاہورسمیت پنجاب بھر سے معصوم
بچے لاپتہ یعنی اغواء ہونا شروع ہوئے تھے اگراسی وقت حکمران، سکیورٹی
اورانتظامی ادارے ایکشن میں آتے توآج مغوی بچوں کے اعدادوشمار یقینا مختلف
ہوتے اوریہ سلسلہ تھم جاتا ،اس قدر بڑے پیمانے پربچوں کی پراسرار گمشدگی کے
باوجود حکمران خاموش رہے جس پرعدالت عظمیٰ نے سوموٹوایکشن کے تحت آئی جی
پنجاب مشتاق سکھیرا جس کااس منصب پرہونانہ ہوناایک برابر ہے کوطلب کیا
مگراس کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔عدالت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں
کرسکتی کیونکہ عدالتی احکامات کی تعمیل پولیس حکام نے کراناہوتی ہے ۔مشتاق
سکھیرا عدالتوں میں پیش ہونے کے عادی ہیں،اب تک ان کیخلاف ایک سوسے زائد
رِٹ دائر کی گئی ہیں ہوسکتا ہے ریٹائرمنٹ تک ان کی ڈبل سنچری ہوجائے ۔جس
وقت تک پنجاب پولیس آزاداورخودمختار نہیں ہوگی پنجاب میں اس قسم کے انتظامی
بحران پیداہوتے رہیں گے۔جس وقت سابق وزیراعظم اورسابق گورنر کے بچے اغواء
ہوتے ہیں توپوری ریاست اورحکومت ہل جاتی ہے ،سکیورٹی ادارے متحرک ہوجاتے
ہیں مگر عام شہریوں کے بچوں کے اغواء پراقتدار کے ایوانوں میں گہری خاموشی
طاری ہوجاتی ہے۔سابق وزیراعظم اورسابق گورنرپنجاب کے بیٹے اغواء ہوئے
توحکمران اورسیا ستدان اظہارہمدردی جبکہ بازیابی کے بعدمبارکباد کیلئے ان
کے گھروں میں گئے مگرعام شہریوں کے بچے اغواء یابازیاب ہوں توحکمرانوں
یاحکام میں سے کوئی ان کی خوشی غمی میں شریک نہیں ہوتا۔ہماری پولیس کو سماج
دشمن عناصر سے گولیاں جبکہ سماج سے گالیاں ملتی ہیں مگر وہ پھر بھی اپنی
ناکافی تعداداورمحدود استعداد کے باوجود شہریوں کوشر پسندوں کے شرسے بچانے
کیلئے اپناکرداراداکررہے ہیں۔سی سی پی اولاہور کیپٹن (ر)محمدامین وینس کی
نیک نیتی اورکمٹمنٹ پرمجھے بھرپوراعتماد ہے انہوں نے لاہورکے مغوی بچوں کی
بحفاظت بازیابی اورمزید بچوں کواغواء کاروں سے بچانے کیلئے جومنصوبہ تیار
کیا ہے وہ ضرور کارگر ہوگا۔اگرپولیس کوکچھ دنوں کیلئے عدالتوں میں صبح سے
دوپہرتک پیشی اورحکمرانوں کی چوکیداری سے مستثنیٰ قراردے کرانہیں اغواء
کاروں کیخلاف کریک ڈاؤن کاٹاسک اورٹائم فریم دیاجائے تویقینا صورتحال میں
بہتری آئے گی ۔ ریاست اہم شاہراہوں اورچوراہوں پرسی سی ٹی وی کیمرے لگائے
اورانہیں مسلسل انرجی کی فراہمی یقینی بنائے ۔وی آئی پی شخصیات اپنی حفاظت
کیلئے بیسیوں سکیورٹی گارڈ افورڈکرسکتے ہیں لہٰذاء ان کی حفاظت پرمامور
سرکاری اہلکاروں کووہاں سے ہٹاکرشہریوں کی حفاظت کاکام لیاجائے ۔سی سی پی
اولاہور کیپٹن (ر)محمدامین وینس نے اپنے منجھے ہوئے ٹیم ممبرز کواغواء
کاروں کی سرکوبی کا حکم دے دیاہے۔ محمدامین وینس نے سینکڑوں بغیروردی
اہلکاروں کو خصوصی ہدایات کے ساتھ اغواء کاروں کے تعاقب پرلگادیا ہے۔تاہم
شہریوں کے بھرپورتعاون سے ان کی کامیابی کاامکان بڑھ جائے گا ۔اس وقت سی
آئی اے لاہورکے سابق دبنگ سربراہ برادرم عمرورک کی کمی شدت سے محسوس ہورہی
ہے،اگر سی آئی اے کوپولیس کی ریڑھ کی ہڈی کہا جائے توبیجا نہ
ہوگا۔شولڈرپرچمکتے سٹارز نہیں بلکہ انسان کاکام اورکرداراسے سٹاربناتا ہے ۔عمرورک
کے کندھوں سے سٹاراتارے جاسکتے ہیں مگر وہ اپنے محکمے اورمعاشرے کاسٹار ہے
اوریہ اعزاز اس سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔سی سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین
وینس کی قیادت میں عمرورک اغواء کاروں کی گردن دبوچ سکتے ہیں،ان کی
آبرومندانہ واپسی ناگزیر ہے۔دوسروں کی زندگی سے کھیلنے والے قاتل خوداپنی
زندگی سے بہت پیارکرتے ہیں انہیں صرف موت کاڈر کشت وخون سے روک سکتا
ہے۔معاشرے میں پائیدارامن کیلئے قانون اورقانون نافذ کرنیوالی فورسز
کاڈربحال کرناہوگا ۔قاتل ،ڈاکو اوراغواء کارطبقہ صرف ''اِن کاؤنٹر''کی زبان
سمجھتا ہے۔
اب تک اغواء ہونیوالے بچوں کے اعدادوشمار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے
یہ اغواء برائے'' تاوان ''نہیں بلکہ اغواء برائے'' جان'' ہورہے ہیں کیونکہ
ابھی تک کسی مغوی بچے کے غمزدہ ماں باپ سے تااون نہیں مانگاگیاتاہم کچھ
واقعات افواہوں پرمبنی ہیں ۔ ہوس پرست درندے انسانی اعضاء فروخت کرنے کیلئے
معصوم بچوں کی جان لے رہے ہیں مگر پھربھی حکمرانوں کونیند آجاتی ہے ،ان کے
حلق سے نوالے بھی اترجاتے ہیں مگر مغوی بچوں کے بدنصیب ماں باپ اوربھائی
بہنوں کونیندآتی ہے اورنہ بھوک لگتی ہے بس وہ دن رات زاروقطارخون کے
آنسوروتے ہیں۔حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے کہا تھا اگردریائے فرات کے کنارے
کوئی کتا بھی پیاس سے مرگیا تومجھ سے پوچھاجائے گاجبکہ ہمارے ملک میں
توانسان بالخصوص معصوم بچے ناحق مارے جارہے ہیں مگرارباب اقتدار کوجوابدہی
کا ادراک اوراحساس تک نہیں ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا تھا
اگرکسی دشت میں کوئی خچر ٹھوکر لگنے سے ڈگمگا گیا تومجھے پوچھاجائے
گا''عمرراستہ کس طرح کابنایا تھا''۔مگرآج توشہروں میں شاہراہوں پرشہری
حادثات کے نتیجہ میں مارے جاتے ہیں مگر شاہراہوں پرتجربات ختم نہیں
ہورہے،لاہورمیں ان تجربات کے بعدشہری زیادہ پریشانی کاسامنا کررہے ہیں ۔میٹروبس
کے ٹریک کی تعمیر کے دوران بھی متعدد لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے تھے
اوراب اورنج ٹرین کاٹریک بھی شہریوں کی جان لے رہا ہے۔حضرت عمر فاروق رضی
اﷲ عنہ نے خودکوجوابدہ ٹھہرایا ،یہ نہیں فرمایا کہ کسی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ،ایس
ایچ اویاجیل سپرنٹنڈنٹ سے جواب طلبی ہوگی ۔مگرہمارے ہاں حکمران اپنے کرتوت
چھپانے کیلئے سرکاری آفیسرزاوراہلکاروں کومعطل کرتے ہیں مگراپنارویہ تبدیل
نہیں کرتے۔ جس طرح گذشتہ روز شہبازشریف نے لاہورجنرل ہسپتال کے میڈیکل
سپرنٹنڈنٹ کیپٹن (ر) نیاز کوناقص صفائی کی پاداش میں معطل جبکہ پرنسپل
کوتبدیل کردیا مگر آج تک کوئی ایم این اے یاایم پی اے اپنے حلقہ انتخاب میں
جابجا گندگی کے ڈھیروں،سرکاری عمارتوں کی زبوں حالی ،قحبہ خانوں،منشیات
فروشی اورجواء خانوں کی موجودگی کے باوجود معطل یا تبدیل نہیں ہواجبکہ ایس
ایچ اوآئے روزمعطل یاتبدیل ہوتے ہیں مگر اپنے اثرورسوخ کے بل پر انہیں وہاں
لگوانے والے وفاقی یاصوبائی وزراء اور ارکان اسمبلی سے بازپرس تک نہیں کی
جاتی ۔سرکاری اہلکاروں کی طرح منتخب عوامی نمائندوں کوبھی جوابدہ بنایاجائے
۔حکمران سرکاری ہسپتالوں پرچھاپے تومارتے ہیں مگر انہیں اپنے علاج کیلئے
پاکستان کے کسی سرکاری یانجی ہسپتال پراعتماد نہیں،جس وقت تک انہیں کوئی
سرکاری ہسپتال اپنے علاج کے قابل نہیں لگتا اس وقت ان کانظام درست نہیں
ہوسکتا ۔کئی بار خطرناک مجرم اوراشتہاری ارکان اسمبلی اورسیاستدانوں کے
ڈیرو ں سے گرفتار ہوئے ۔چھوٹو گینگ توپولیس کی گرفت میں آگیا مگراس کی
سرپرستی کرنیوالے سیاستدان آزاد ہیں ۔ بااثراشرافیہ کی آشیربادکے بغیر
بدمعاش اوربدقماش عناصرکسی کاکچھ نہیں بگاڑسکتے ۔پولیس کوامن وامان کی
بحالی کیلئے فری ہینڈدیاجائے ،سیاسی کلچر بدلے بغیر تھانہ کلچر کی تبدیلی
کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔میاں شہبازشریف سرکاری ہسپتالوں کی طرح
اتفاق ہسپتال سمیت نجی ہسپتالوں پر بھی چھاپے ماریں کیونکہ وہاں علاج کے
نام پرجس طرح انسانوں کی چمڑی اتاری جاتی ہے وہ گندگی سے بڑی گندگی بلکہ
درندگی ہے۔
حکومت کی مجرمانہ غفلت اورنااہلی چھپانے کیلئے یہ کہاجارہا ہے کہ بچے ڈانٹ
کے ڈرسے گھروں سے بھاگ رہے ہیں،ہوسکتا ہے دوچار بچے ماں باپ کاغصہ دیکھ کر
گھر سے بھاگ گئے ہوں مگراب تک لاہورسمیت پنجاب سے مجموعی طورپر سینکڑوں بچے
لاپتہ ہوچکے ہیں اوراس قدر ہولناک اعدادوشمار کے باوجود لاہورسمیت پنجاب سے
مسلسل بچے اغواء ہورہے ہیں۔بچوں کے اغواء میں نام نہاد ملنگ،نیم پاگل یانام
نہادپاگل، عامل یعنی جاہل لوگ اورمنشیات کے عادی لوگ بھی ملوث ہوسکتے
ہیں۔بچوں کوکالے علم اورجادوٹونے کی آڑ میں ''بلی'' کیلئے بھی اغواء کیا
جاتا ہے ۔جنسی خواہشات کیلئے بھی بچے آسان شکار ہوتے ہیں۔ معصوم بچیاں
اغواء کرکے قحبہ خانوں پرفروخت کردی جاتی ہیں۔بچوں کواغواء کرنا اورانہیں
معذوربناکران سے بھیک منگوانا بھی منفعت بخش کام ہے اوراس میں کئی طاقتور
مافیا ملوث ہیں۔بچوں کے بھیک مانگنے پرپابندی عائدکی جائے ۔اگریہ محض افواہ
ہے توحکومت دوٹوک الفاظ میں تردید کرے ۔جاتی امراء میں حکمرانوں کا مور کسی
بلے کے حملے سے ہلاک ہوجائے یاوہاں سے ٹرانسفارمرچوری ہوجائے توپولیس حکام
کی دوڑیں لگ جاتی ہیں اورکئی پولیس آفیسراوراہلکار معطل اوربرطرف کردیے گئے
لیکن اگرعوام کے بچے اغواء ہوں توکسی کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی ۔میرے
نزدیک مجرمانہ سرگرمیوں کوچھپانے اوران سے چشم پوشی کرنیوالے حکمران اور
حکام بھی بدترین مجرم ہیں۔عوام سے حقائق چھپانے کی بجائے انہیں اختیاطی
اورحفاظتی تدابیر سے آگاہ کیاجائے ،مجھے تعجب ہے اس قدر اغواء کی وارداتوں
کے باوجودزیادہ ترماں باپ بھی اپنے بچوں بارے مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کررہے
ہیں۔اب بھی معصوم بچوں کوتنہا گلیوں اوربازاروں میں بے مقصد گھومتے پھرتے
یاگھرکیلئے سوداسلف خریدتے ہوئے دیکھا جارہا ہے۔ماں باپ اورشہری اپنے آس
پاس اجنبی افراد پر نظررکھیں ۔اگرکوئی مشکوک فردیا افرادکسی ایسے بچے
یابچوں کولے جارہے ہوں جوبظاہر سورہے ہوں توانہیں ضرورچیک کیاجائے۔بچوں کی
شناخت کیلئے سرکاری سطح پرکسی شناختی کارڈیادستاویزات کااجراء جبکہ انہیں
دوران سفر چیک کیاجائے کیونکہ اغواء کارمعصوم بچوں کواغواء کے بعداپنے بچے
ظاہرکرکے ایک شہرسے دوسرے شہر منتقل کرتے ہیں۔ان نجی اورسرکاری تعلیمی
اداروں کے باہربھی صبح اوردوپہر کے وقت انتہائی حفاظتی انتظامات کئے جائیں
جہاں معصوم بچے زیرتعلیم ہیں ۔بچوں کے گھروں سے مادرعلمی آنے اور ان کی
بحفاظت گھروں کوواپسی تک پولیس اوردوسرے انتظامی اداروں کاگشت یقینی بنایا
جائے ۔صرف پولیس پرانحصار کرنامناسب نہیں کیونکہ پولیس نے اوربھی کئی اہم
کام کرنے ہوتے ہیں اسلئے سیاسی پارٹیوں کے کارکنان بھی رضاکارانہ خدمات
انجام دیں۔معصوم بچوں کااغواء روکنے اوراغواء کاروں کوکیفر کردارتک پہنچانے
کیلئے جہاں ریاستی اداروں کوآپس میں سرجوڑناہوگاوہاں شہریوں سمیت معاشرے کے
مختلف طبقات سے بھی تحریری تجاویز طلب کی جاسکتی ہیں اورجوتجاویززیادہ
معقول اورمناسب ہوں ان کے مطابق ہمارے سکیورٹی ادارے اقدامات کریں ۔یہ ہاتھ
پرہاتھ رکھ کربیٹھنے کاوقت نہیں بلکہ اغواء کاروں کی ''فیلڈنگ'' لگانے
اوران ناسوروں کاسر کچلنے کاوقت ہے ۔
|
|