منفی سوچ اوررویوں کے معاشرتی نقصانات

ضرورت اس امر کی ہے کہ افراد معاشرہ میں مایوسی کی بجائے امید کی کرن پیدا کی جائے، ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنے میں بخل نہ کیا جائے، جہاں اچھا کام دیکھیں اس کی تعریف کریں، اچھا کام چاہے کسی بھی مکتبہ فکر کا ہو یا کسی بھی جماعت یا گروہ کا اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔تنقید برائے تنقید نہ ہو،تنقید برائے اصلاح ہو۔مختلف مکاتب فکر ایک دوسرے کے پاس بیٹھیں ایک دوسرے کے خیالات سے استفادہ کریں، علمی حلقہ جات کا اہتمام کریں، علمی ڈائیلاگ کروائیں، معاشرے کو عقلی و ذہنی حوالے سے ترقی کی طرف لے کر چلیں، نوجوانوں کے اندر مطالعہ و تحقیق کا ذوق پیدا کریں، کتابوں سے محبت پیدا کریں، انسان دوستی کے افکار پیدا کریں، وسعت نظری اور تمام انسانوں کی خدمت کا جذبہ اورہمدردی پیدا کریں، فروعی اختلافات کو بنیاد بنا کر آپس میں جھگڑوں سے اجتناب کریں، علمی اختلافات کو عوامی سطح پہ بیان کرنے کی بجائے علمی حلقوں میں ان کو زیر بحث لایا جائے۔یقیناًمعاشرے کومایوسی سے نکالنے والے افراد یا جماعت ہی اجتماعی تبدیلی کے لئے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ایک دانشور چارلس ایف گلاسمین کا قول ہے’’کامیابی کے راستے میں سب سے بڑی واحد رکاوٹ منفی افکار پہ یقین رکھنا ہے‘‘عام زندگی میں ہم یہ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ جب انسان منفی سوچ و فکر کو اپنے اوپر حاوی کر لیتا ہے تو اس سے سر زد ہونے والے تمام اعمال بھی اس کی سوچ کے مطابق انجام پاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ منفی خیالات انسان کے دماغ اور جسم پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔اس کے علاوہ انفرادی سطح پہ شخصیت کے اوپر مختلف قسم کے اثرات پڑتے ہیں۔مثلاًجب انسان منفی خیالات اپنے دماغ پہ حاوی کر لیتا ہے تو وہ منفی چیزوں اور اعمال کے بارے میں ہی سوچتا ہے اور اس کی رغبت منفی کاموں کی طرف زیادہ ہو جاتی ہے۔یہ انسان کے بس میں ہے کہ وہ منفی خیالات کو مثبت خیالات میں کیسے تبدیل کر سکتا ہے اور اپنی زندگی کو مثبت طریقے پہ گذار سکتا ہے۔

میں یہاں پہ ان معاشرتی منفی رویوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو یقیناً منفی سوچوں کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں جنہیں ہم اپنے ارد گرد محسوس کر سکتے ہیں۔منفیت کا یہ سلسلہ انفرادی زندگی سے ہوتا ہوا اجتماعی زندگی تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ اگر ہم منفی رویوں کے حوالے سے تجزیہ کریں تو یقیناً ایسے روئیے جن سے معاشرے میں مایوسی، بے اطمینانی، ذہنی انتشار، تشدد پسندی، حرص و لا لچ، حسد ، بغض و کینہ ، غصہ وغیرہ پیدا ہو وہ منفی افکار کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔

عصر حاضر میں معاشرے میں افکار و نظریات کے پھیلاؤ میں سب سے بڑا کردار میڈیا ادا کرتا ہے اس کے بعد مختلف حلقہ درس و تدریس ، اجتماعات ، افراد معاشرہ کی آپس میں انفرادی گفت و شنید کے ذریعے مختلف افکار معاشرے کی زینت بنتے ہیں۔اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو منفیت کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے، معاشرے میں کام کرنے والے مختلف مکاتب فکر چاہے ان کا تعلق مذہبی گروہوں سے ہو، یا لسانی گروہوں سے یا سیاسی پارٹیوں سے یا سماجی حلقوں سے کسی نہ کسی سطح پہ معاشرے میں ایسے نظریات کو ہوا دی جاتی ہے جن کی بنیاد منفیت پہ ہوتی ہے۔یہ ایک دراز سلسلہ ہے جو چھوٹے حلقوں سے لے کر بڑے حلقہ جات تک پھیلا ہوا ہے۔

مذہبی حوالے سے ہر مسلک کے پیرو کار دوسرے مسالک کے لئے بغض و کینہ نہ صرف رکھتے ہیں بلکہ آئے دن اس کا پرچار بھی ہوتا ہے،علمی سطح کے مسائل کو عام عوام کے سامنے بیان کر کے انہیں مشتعل کیا جاتا ہے، یا ان کی اس طرح سے ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ منفی سوچ کے ساتھ معاشرے میں زندگی گذارتے ہیں، اس طرح قومیت و لسانیت کے نام پہ چلنے والی تحریکیں اور تنظیمیں بین الصوبائی تعصب اور نفرت کو ہوا دیتی ہیں، ایسا لٹریچر باقاعدہ شائع کیا جاتا ہے جس سے متشدد، اور متعصب نظریات پیدا ہوتے ہیں۔نفرتوں کا یہ سلسلہ معاشرے کی تہہ در تہہ میں سرایت کرتا چلا جاتا ہے، معاشرے میں بحث و مباحثہ، علمی اختلاف ہونا بہت ضروری ہوتا ہے، اس کی بدولت معاشرہ ذہنی و فکری حوالوں سے ترقی کرتا ہے لیکن، اختلاف برائے اختلاف اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور نفرتیں اور بغض کی بنیادیں رکھنے کے لئے ہو تو وہ معاشرے کے لئے وبال جان بن جاتا ہے، سیکولر ازم کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ سیکولر معاشرے میں رائے کی آزادی ہوتی ہے، اور ایک دوسرے پہ کسی قسم کی زبردستی کا جائز نہین سمجھا جاتا، لیکن ہمارے ہاں سیکولر ازم کے نام پہ بھی سیکولر ازم کو بد نام کیا جاتا ہے، خاص طور پہ سوشل میڈیا پہ’’ علماء سیکولر‘‘ کے نام پہ مذہب کے خلاف نازیبا الفاظ، اور نفرت انگیز زبان اور الفاظ کی گولہ باری کی جاتی ہے اور اس طرح سے معاشرے کے اندر بجائے رواداری کے ماحول کے پرچار کے نفرتوں اور دوریوں کو بڑھایا جاتا ہے۔

جمہوریت کا نام لینے والی جتنی بھی پارٹیاں اور گروہ معاشرے میں موجود ہیں، ان کے اندر جمہوری رویوں ، صبر و برداشت کا کہیں بھی نام و نشان نظر نہیں آتا، وہ بھی اپنی تحریر و تقریر سے منفیت کے اس سلسلے کو جاری رکھتے ہیں، دوسروں کے لئے برداشت کا مادہ نہ ہونے کے برابر ہے، ہمہ وقت تنقید برائے تنقید کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ رہتا ہے، اگر اقتدار میں ہیں تو اپوزیشن پہ کیچڑ اچھالنے کا رواج ہے اور اگر اپوزیشن میں ہیں تو اقتدار والوں کے خلاف منفی پرو پیگنڈے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایک دوسرے کے اچھے کاموں کو بھی برا ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش ہوتی ہے۔اگر کوئی الیکشن میں ہار جاتا ہے تو وہ اپنی شکست تسلیم کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔اس طرح اس منفی سوچ کے غلبے سے معاشرے میں صبر و برداشت کا مادہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے کئی مثالیں موجود ہیں جن پہ غور کیا جا سکتا ہے، مثلاً یورپ اور امریکہ میں اگر کوئی سیاسی جماعت الیکشن ہار جاتی ہے تو وہ خوشدلی کے ساتھ اقتدار دوسری جماعت کو منتقل کرتی ہے اور پھر تمام قومی امور اور منصوبہ بندی کے لئے یک جاں ہو کر کام کرتے ہیں۔لیکن ہمارے ہاں یہ روایت موجود نہیں ہے۔ہر حال میں اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے جھوٹ پہ جھوٹ بول کر ، نفرت کی فضا کو ہمہ وقت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
منفیت کی اسی سوچ کو دیگر ناموں سے بھی معاشرے میں رواج دیا جا رہا ہے، مثلادیو مالائی انقلاب کے نام پہ ہر شئے کو برا کہنے، ہر شخصیت کو سامراج کا یجنٹ کہنا، ہر ادارے کو مشکوک نظروں سے دیکھنا، ہر مکتبہ فکر کو مشکوک قرار دینے کی روش مزید نوجوان نسلوں کو مایوسی میں دھکیل رہی ہے۔ ملک میں موجود اداروں کی خرابیوں پہ بات کرنا،موجود پارٹیوں پہ تنقید کرنا، معاشرے کے اندر تبدیلی کی بات کرنا یقیناً ایک مثبت عمل ہے لیکن معاشرے کے اندر ہونے والے اچھے کاموں کی بھی تعریف ہونی چاہئے، چاہے وہ اقدامات کسی بھی مکتبہ فکر کسی بھی سیاسی یا مذہبی یا سماجی تنظیم کی طرف سے ہوں، اپوزیشن کی طرف سے ہوں یا اقتدار میں موجود طبقہ کی طرف سے ہو، ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے،تنقید ضرور ہونی چاہئے لیکن افراد معاشرہ کو نفرتیں سکھانے کی بجائے درسست شعوری حل کی طرف رہنمائی کرنی چاہئے۔بعض اوقات تو یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ نظام کی خرابیوں کو بیان کرتے ہوئے منفیت کی اتنی انتہا ہو جاتی ہے کہ، ملک کے ہر دانشور، عالم دین، سیاسی رہنما، سماجی شخصیت کی طرف سے معاشرے میں کئے جانے والے کسی بھی اچھے اقدام کی طرف سے آنکھیں بند کر کے صرف اسے ہدف تنقید بنایا جاتا ہے یا اس کے ان اچھے اقدامات پہ بجائے تعریف کرنے یا حوصلہ افزائی کرنے، اسے لوگوں کی نظروں میں مشکوک بنایا جاتا ہے،دیگرمکتبہ فکر کے بارے میں اس قدر بغض ذہنوں میں بھر دیا جاتا کہ ان کی کوئی بھی بات یا عمل بھلا نہیں لگتا،جو آپ کے نظریہ سے میل نہیں کھاتا اس کے بارے میں ایسا بدترین خاکہ بنا لیا جاتا ہے کہ ذہن منفیت کے علاوہ کچھ اور سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔اسی منفی سوچ کی آبیاری کا نتیجہ ہے کہ آج یونیورسٹی کا نوجوان ، مذہبی مدارس سے فارغ التحصیل سے نفرت کرتا ہے اور مذہبی مدارس سے نکلنے والا یونیورسٹی اور کالج سے بغض رکھتا ہے، ہر مسلک والا الگ سوچ ، الگ مسجد ، الگ ادارہ قائم کر کے بیٹھا ہوا ہے، الگ ادارہ ہونا، الگ مسلک ہونا یقیناً برا نہیں لیکن دلوں کو دور کرنا، آپس میں نفرتیں، بغض اور دوریاں پیدا کرنا یہ صحیح نہیں ہے، علمی اختلاف رکھنا، نظریاتی اختلاف رکھنا یقیناعلمی ارتقاء کے لئے ضروری ہے لیکن ایک دوسرے کی تحقیر وتکفیر کرنا، ایک دوسرے کا جانی دشمن بن جانا، ایک دوسرے کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچانا، یہ سب منفی سوچ کا نتیجہ ہے۔یہ بھی مشاہدے میںآیا ہے کہ اس طرح کی نفرت پھیلانے والے عناصر معاشرے میں کسی مثبت حل کی طرف رہنمائی کرنے کی بجائے فقط لوگوں کو انتشار ذہنی اور مایوسی کے اندر دھکیلتے ہیں۔ایسے لیڈران بھی موجود ہیں جو عوام کو تو ذہنی انتشار میں رکھنے کے لئے ان کے ذہنوں میں منفیت کے بیج بوتے رہتے ہیں لیکن در پردہ خود ان ہی قوتوں یا عناصر کے ساتھ شیر و شکر ہوتے ہیں جنہیں وہ ہدف تنقید بناتے ہیں، لہذا معاشرے میں ایسے افراد کو پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

اس حوالے سے میڈیا کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ سب سے زیادہ افکار ونظریات کا پرچار میڈیا کے ذریعے ہوتا ہے، میڈیا کو چاہئے کہ مایوسی پیدا کرنے والی، خوف و دہشت پیدا کرنے والی خبروں اور پروگراموں سے اجتناب کرے، برائیوں کو اچھالنے کی بجائے اچھائی کرنے والوں کو نمایاں کرے، لوگوں کو امید دلائے، اچھائیوں کو پھیلائے، اچھے کاموں کی تعریف ہو اور ان کو زیادہ سے زیادہ معاشرے میں پھیلایا جائے۔ معاشرتی خرابیوں کا شعوری حل پیش کیا جائے اور لوگوں کے اندر امید کی کرنوں کو روشن کیا جائے، لوگوں کو مل جل کر پریشانیوں اور مصائب سے نکلنے کے لئے ذہنی طور تیار کیا جائے۔آپس میں بغض وعناد کی بجائے انہیں مثبت ڈائلاگ کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔ہمارے معاشرے میں یہ بھی المیہ ہے کہ ایک گروہ، مکتبہ فکر دوسرے سے اگر نظریاتی اختلاف رکھتا ہے یا علمی اختلاف رکھتا ہے، اس کو بنیاد بنا کر معاشرتی تعلقات کو بھی آپس میں ختم کر دیا جاتا ہے، نتیجہ یہ ہے اس وقت گونا گوں فرقے، گروہ معاشرے کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذار رہے ہیں۔نئے انقلاب کا نعرہ لگانے والا اسی منفی سوچ کے ذریعے معاشرے میں ایک نئے فرقے کو جنم دیتا ہے۔نوجوان ذہنی انتشار اور مایوسی میں مبتلا نظر آتا ہے،وہ کسی بھی گروہ کی طرف لپکتا ہے تو اسے مختلف حوالوں سے تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایک میں شریک ہو تو دوسرا اسے راندہ درگاہ سمجھتا ہے،اور بعض اوقات تو نوجوانوں کی مایوسی کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ انہیں منفی افکار کے ساتھ ایسا برین واش کر دیا جاتا ہے کہ وہ ایک کامیاب سماجی زندگی گذارنے کے قابل بھی نہیں رہتا ،وہ چاروں طرف دیکھتا ہے تو اسے محبت کی بجائے نفرتیں اور بغض نظر آتا ہے، رواداری کی بجائے تنگ نظری و رجعت پسندی نظر آتی ہے، ہر شخص منفی سوچ کو اڑھنا بچھونا بنائے جی رہا ہے۔اسی منفی سوچ کا ہر سطح پہ نقصان ہو رہا ہے۔آج متشدد گروہ اسی منفی سوچ کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ افراد معاشرہ میں مایوسی کی بجائے امید کی کرن پیدا کی جائے، ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنے میں بخل نہ کیا جائے، جہاں اچھا کام دیکھیں اس کی تعریف کریں، اچھا کام چاہے کسی بھی مکتبہ فکر کا ہو یا کسی بھی جماعت یا گروہ کا اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔تنقید برائے تنقید نہ ہو،تنقید برائے اصلاح ہو۔مختلف مکاتب فکر ایک دوسرے کے پاس بیٹھیں ایک دوسرے کے خیالات سے استفادہ کریں، علمی حلقہ جات کا اہتمام کریں، علمی ڈائیلاگ کروائیں، معاشرے کو عقلی و ذہنی حوالے سے ترقی کی طرف لے کر چلیں، نوجوانوں کے اندر مطالعہ و تحقیق کا ذوق پیدا کریں، کتابوں سے محبت پیدا کریں، انسان دوستی کے افکار پیدا کریں، وسعت نظری اور تمام انسانوں کی خدمت کا جذبہ اورہمدردی پیدا کریں، فروعی اختلافات کو بنیاد بنا کر آپس میں جھگڑوں سے اجتناب کریں، علمی اختلافات کو عوامی سطح پہ بیان کرنے کی بجائے علمی حلقوں میں ان کو زیر بحث لایا جائے۔یقیناًمعاشرے کومایوسی سے نکالنے والے افراد یا جماعت ہی اجتماعی تبدیلی کے لئے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 151367 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More