چودہ اگست جشن آزادی مبارک
(Muhammad Abdullah, Lahore)
|
آج چودہ اگست ہے پورے پاکستان میں تقریبات،
جلوس، ریلیاں اور پروگرامز منعقد کیے جارہے ہیں. ہر طرف لہراتے پاکستانی
پرچم اور پورے ملک کی فضاؤں میں گونجتے ملی نغمے بہت ہی خوش کن احساس دلوں
میں پیدا کررہے ہیں. نوجوانوں کے قافلوں کے قافلے آزادی کی خوشیوں کو مناتے
ہوئے موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سیٹیاں بجاتے اور پاکستانی پرچم
لہراتے شہروں میں گھوم رہے ہیں. ہر طرف ایک دلفریب خوشی اور جوش و خروش کا
عالم ہے. ان ہی ہنگاموں میں مست شاید بہت تھوڑے لوگ ہوں گے جو جانتے ہوں کہ
یہ آزادی کیا تھی اور چودہ اگست انیس سو سینتالیس برصغیر پاک و ہند کے ان
مسلمانوں کے لیے خوشیوں کے کتنے در وا کرگیا تھا جو سالہا سال سے انگریزوں
اور ہندؤوں کے پنجہ استبداد میں جکڑے ہوئے تھے. اٹھارہ سو ستاون کی جنگ
آزادی کے بعد سے تو مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی گئی تھی. ان پر
تعلیم اور ملازمتوں کے دروازے مکمل طور پر بند کر دیے گئے تھے. انگریز کی
ماتحتی میں ہر طرف ہندوؤں کی اجارہ داری تھی. ایسے میں وقتا" فوقتا" فسادات
کو بڑھکا کر مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا جاتا تھا. برصغیر کے مسلمانوں پر
وہ دن بہت ہی کڑے تھے. ہر طرف خوف اور سراسیمگی چھائی تھی اور مسلمان بے
چارے اپنے مستقبل کے بارے میں سخت مایوس تھے. ان حالات میں قدرت کو
مسلمانوں کی اس حالت زار پر رحم آیا اور ان کو ایسی بیدار مغز قیادت میسر
آئی جس نے بکھری مسلمان قوم کو ایک لڑی میں پرو کر ان کو قعر مذلت سے نکال
کر اوج ثریا پر فائز کرانے میں بڑا کردار ادا کیا. ان میں سرفہرست سرسید
احمد خان کی علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آشنا کر کے فہم
و فراست اور شعور عطا کیا، مولانا محمد علی جوہر کی تحریک خلافت نے ان کو
سیاسی طور پر منظم کیا. جنگ عظیم اول میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کے تحفظ
کی خاطر اٹھنے والی اس تحریک نے پورے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں
پرو دیا اور آئندہ کھڑی ہونے والی سبھی تحاریک کا پیش خیمہ ثابت ہوئی. اسی
طرح مولانا فضل الہی وزیر آبادی کی تحریک جماعت المجاہدین نے برصغیر کے
مسلمانوں کے دلوں میں جزبہ حریت اور اپنے مقاصد کی تکمیل کی خاطر جزبہ جہاد
سے سرشار کردیا. انہی واقعات کے دوران جب مسلمانوں نے دیکھا کہ برصغیر میں
سیاسی مقاصد کے لیے قائم جماعت کانگرس تو صرف ہندوؤں کے مفادات کا تحفظ
کرتی ہے اور وہ مسلمانوں کے مفادات سے صرف نظر کرتی ہے تو مسلمانوں نے اپنی
ایک علیحدہ جماعت مسلم لیگ کے نام سے قائم کی اور یہ نعرہ دیا کہ مسلم ہے
تو مسلم لیگ میں آ. سات سال کے بعد برصغیر کے سرکردہ لیڈر محمد علی جناح
ہندوؤں کے تعصب اور کانگرس کے دہرے معیار کی وجہ سے کانگرس کو چھوڑ کر مسلم
لیگ میں شامل ہوگئے تو اس سے تحریک آزادی کو ایک نئی جہت ملی. مسلم لیگ نے
دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کا بیڑہ اٹھایا.
پورے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے جھنڈے تلے مجتمع کرکے بھرپور تحریک چلائی
جو بالآخر انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی کے نعرے اور مطالبے پر منتج ہوئی.
اس میں بہت بڑا کردار شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا بھی تھا جنہوں نے اپنی
شاعری سے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگا کر ان کے دلوں
کو اک ولولہ تازہ دیا. انیس سو تیس میں الہ آباد کے جلسے میں علامہ اقبال
نے اپنے صدارتی خطبے میں مسلمانوں کے لیے برصغیر کے اندر ایک علیحدہ وطن کا
تصور دیا. انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ برصغیر میں جہاں جہاں مسلمان
اکثریت کے ساتھ آباد ان علاقوں کو ملا کر ایک علیحدہ ملک بنا دیا جائے. اس
تصور کا ملنا تھا کہ مسلمانوں کو ان کی منزل نظر آنے لگی اور انہوں نے اس
منزل کو حاصل کرنے کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگادی. انیس سو پینتیس میں
چودھری رحمت علی نے اس تصور کو پاکستان کا نام دے دیا. پھر تو ہر بچے، ہر
برے بوڑھے اور ہر مرد و زن کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا. بٹ کر رہے گا
ہندوستان لے کر رہیں گے پاکستان. یہ تحریک آزادی پاکستان کے عروج کا وقت
تھا. سارے برصغیر کے مسلمانوں کی زبان پر صرف پاکستان کا نعرہ اور مطالبہ
تھا. اس پر مستزاد یہ کہ تئیس مارچ انیس سو چالیس کا وہ دن آن پہنچا کہ جس
دن لاہور کی فضائیں جوشیلے نعروں سے گونج رہیں تھیں. اور لاہور کے منٹو
پارک میں تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں تھی. لاکھوں فرزندان توحید اپنے قائد کی
پکار پر لبیک کہتے ہوئے لاہور میں جمع ہوئے تھے سب کی زبانوں پر اصغر
سودائی کا دیا ہوا نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ. تلواروں
کے پہرے میں محمد علی جناح کو سٹیج پر لایا گیا. علامہ اقبال کے خواب کو
عملی جامہ پہناتے ہوئے شیر بنگال مولوی فضل الحق نے قرارداد پیش کی اور لا
الہ الا اللہ کی بنیاد پر ایک علیحدہ وطن پاکستان کا مطالبہ کیا. ہندو پریس
نے طنزیہ طور پر اس قرارداد لاہور کو قرار داد پاکستان کا نام دیا. مگر بعد
کے حالات نے یہ بات ثابت کر دی کہ واقعی یہ قرارداد پاکستان ہی تھی اور یہی
پاکستان کے قیام کا پیش خیمہ ثابت ہوئی. اس قرارداد کا منظور ہونا تھا کہ
ہندوؤں میں صف ماتم بچھ گئی ان کو اپنے خواب اکھنڈ بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے نظر
آنے لگے. کیونکہ وہ تو آس لگائے بیٹھے تھے کہ جب انگریز یہاں سے چلے جائیں
گے تو ہم بلا شرکت غیرے برصغیر کے مالک ہوں گے. اس لیے انہوں مسلمانوں کو
پاکستان سے باز رکھنے کے لیے پہلے تو لالچ دیے مگر پھر دھمکیوں پر اتر آئے
اور ان دھمکیوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے برصغیر کے مختلف شہروں میں فسادات
کی آگ بڑھکا کر ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیا گیا.مگر یہ مظالم مسلمانوں
کو ان کے رستے سے ہٹا نہ سکے وہ مسلسل آزدی کی تحریک کو آگے بڑھاتے چلے گئے.
انیس سو اکتالیس کا واقعہ ہے کہ محمد علی جناح مدراس میں جلسہ کرکے واپس
آرہے تھے کہ ایک گاؤں میں لوگ ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور نعرے لگا
رہے تھے. ان میں ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا جو بڑی معصومیت سے پاکستان کا
مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے نعرے لگا رہا تھا. محمد علی جناح نے جب اس بچے
کو دیکھا تو اس کو اپنے پاس بلایا اور اس کو پوچھا بیٹا پاکستان کا مطلب
جانتے ہو تو وہ کہنے لگا کہ پاکستان کا مطلب تو آپ لوگ جانتے ہوں گے مجھے
تو اتنا پتا ہے کہ جہاں پر مسلمان آباد ہیں وہ پاکستان ہوگا. محمد علی جناح
نے اس کا جواب سن کر اپنے ساتھ موجود پریس والوں کو کہا کہ جاؤ گاندھی اور
نہرو کو جا کر بتا دو کہ تم پاکستان کا مطلب نہیں سمجھتے مگر مسلمانوں کا
بچہ بچہ پاکستان کا مطلب سمجھتا ہے. محمد علی جناح سے اکثر پوچھا جاتا کہ
آپ کیوں اس ملک کو تقسیم کرکے ایک علیحدہ ملک لینا چاہتے ہو تو وہ جواب
دیتے کہ "ہم کوئی زمین کا ٹکڑا نہیں چاہتے بلکہ ہم تو ایک ایسی تجربہ گاہ
چاہتے ہیں جہاں پر ہم اسلام پر آزادی سے عمل پیرا ہوسکیں. وہ اکثر فرمایا
کرتے تھے کہ قومیت کی جو بھی تعریف کی جائے اس کی رو سے مسلمان ایک علیحدہ
قوم ہے اور ہندو ایک عیحدہ قوم ہے اور یہ کبھی بھی اکٹھے نہیں رہ سکتے. اور
دو قومی نظریہ تو اس دن سے معرض وجود میں آگیا تھا جب برصغیر میں پہلا
ہندو مسلمان ہوا تھا. یوں مسلمانوں کی عظیم جدوجہد اور قربانیوں کے سامنے
انگریزوں ہندوؤں کی سازشیں دم توڑ گئیں اور اللہ تعالی نے مسلمانوں پر اپنا
انعام کیا اور چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا
تو ساری مسلمان قوم سجدہ ریز ہوگئی مگر قدرت کو ابھی اس کے مزید امتحان
لینے باقی تھے. جیسے ہی پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تھا ہندوؤں نے دوسری
قوموں کو ساتھ ملا کر اپنے علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا جس
پر پچاس لاکھ مسلمان اپنا گھربار، کاروبار جائداد اور سب کچھ چھوڑ کر بے
سروسامانی کی کیفیت میں نکل کر پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی. یہ
تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی. مگر ہندو بلوائی اس پر بھی خوش نہ ہوئے بلکہ
انہوں نے ہجرت پر نکلنے والے مسلمانوں کا بھی قتل عام شروع کردیا. مسلمان
بہو بیٹیوں کی عزتوں کو ان کے گھر والوں کے سامنے تارتار کیا جاتا. کتنے
باپوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی جواں سال بیٹیوں کے گلے گھونٹ کر یہ کہا
کہ ہم تمہں مرتے ہوئے تو دیکھ سکتے ہیں مگر کسی ہندو کے ہاتھوں سر بازار
تیری عزت کی دھجیاں اڑتی نہیں دیکھ سکتے. مسلمانوں عورتوں سے ان کے شیر
خوار بچوں کو چھین کر فضاء میں اچھالا جاتا نیچے کرپان کردیتے اور جب بچہ
اس پر گرتا تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے تو وہ ٹکڑے اس کی ماں کی طرف پھینک
کر کہتے لو پاکستان جا رہی ہو تو پاکستان کے لیے تحفہ لیتی جاؤ. مسلمانوں
کے گاؤں کے گاؤں نذر آتش کردیے گئے. مہاجرین کو لے کر آنے والی ٹرینوں کو
روک کر ان پر حملہ کیا جاتا تو پوری پوری ٹرین کے مسلمان مسافروں کو قتل
کردیا جاتا. الغرض پندرہ لاکھ مسلمان اس پاک دھرتی کے نام پر قربان ہوگئے.
جب کوئی بچتا ہوا اپنا خاندان تک قربان کرکے پاک سرمین تک پہنچ جاتا تو پاک
مٹی پر وہیں سجدہ ریز ہو جاتا اور اپنے سارے دکھوں اور مصیبتوں کو بھول
جاتا. لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بننے والا دیس ہمیں کوئی پلیٹ میں رکھ
کر نہیں ملا بلکہ قربانیوں کی ایک عظیم داستان ہے. شہداء نے اپنے مقدس لہو
سے اس وطن کی بنیادوں کی آبیاری کی.
اے شہیدو تمہارا یہ احسان ہے کہ آج ہم سر اٹھانے کے قابل ہوئے
دو ہزار سولہ میں ہندوؤں کے کلچر میں ڈوبے آزادی کے جشن منانے والو ان
لاکھوں شہداء کے لہو اور قربانیوں کو بھی یاد رکھو اور اس مقصد کو بھی یاد
رکھو کہ جس کی خاطر یہ یہ پاک وطن قائم ہوا تھا. جس طرح سے لاکھوں قربانیاں
دے کر یہ وطن قائم ہوا تھا آج اس وطن کے استحکام کی خاطر پھر سے اسی طرح لا
الہ الا اللہ اور نظریہ پاکستان پر جمع ہوکر انتشار و افتراق کو ختم کر کے
کہ ایک ہوجائیں اور یہ اعلان کریں آج پھر سے ہر سو لہراتے اس سبز ہلالی
پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں. |
|