14اگست کا دن شان و شوکت سے منایا گیا
یقینا آج جب ہم ہندوستان، برما، کشمیر و دیگر ایسے ممالک جہاں مسلمان اقلیت
میں ہیں، میں مسلمانوں کی حالت زار دیکھتے ہیں تو ہمیں آزادی اور ایک آزاد
ملک کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔ اﷲ تعالی کی ذات نے ہمیں لاکھوں مسلمانوں
کی قربانیوں کے بعد ایک ایسا خطہ دیا جہاں ہم آزادانہ طورپر اﷲ کے احکامات
او رنبی کریم ﷺ کے طریقوں کے مطابق زندگی گزارسکتے ہیں۔ جہاں پر مسلمانوں
کے علاوہ اقلیتوں کو بھی ہر قسم کی شخصی اور مذہبی آزادی حاصل ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ اقلیتوں کی جو عبادت گاہیں استعمال میں ہیں وہ برسہا برس سے جوں کی
توں چلی آرہی ہیں۔ وہاں پر انہیں اپنی عبادات اور مذہبی رسوم ادا کرنے کی
پوری پوری آزادی حاصل ہے۔ ہمارا مذہب ہمیں رواداری، بھائی چارہ، اخوت، عفو
و درگذر ، اخلاق حسنہ ، رحم دلی کا درس دیتاہے ہم نے انہی زریں اصولوں پر
چلنے او رپاکستان کو صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بنانے کیلئے ملک حاصل
کیا لیکن بدقسمتی سے آج ہم سر سے پاؤں تک اتنی خرابیوں، گناہوں میں مبتلا
ہوکر اپنی سمت اور مقصد سے ہٹ چکے ہیں۔ ہم جس راستے پر چل رہے ہیں وہ راستہ
ہمیں کبھی بھی منزل مقصود تک نہیں پہنچائے گا بلکہ ہم یونہی یہود و نصاری
اور سودی مالیاتی اداروں کے دروں پر دھکے کھاتے رہیں گے۔ ہمارا ملک جن بڑی
خرابیوں اور گناہوں میں مبتلا ہے ان میں سے میں کچھ کا ذکر ان سطور میں
کروں گا جنکے خاتمے کے بغیر ہمارا ترقی و خوشحالی، اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے
کا خواب کبھی پور انہ ہوسکے گا۔ پاکستان بنانے کی جدوجہد میں پنجابی، پٹھان،
بلوچی، سندھی، سرائیکی، مہاجرین غرض ہر رنگ و نسل ، فرقے مذہب کے لوگوں نے
بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تمام کی مشترکہ جدوجہد کے باعث یہ ملک دنیا کے نقشے پر
ابھرا لیکن ہم عرصہ 68سالوں میں قومی یکجہتی، اتحاد و اتفاق، یگانگت، محبت،
اخوت کو بھلا بیٹھے اور رنگ و نسل ، زبان، قوم، علاقایت، تعصبیت، فرقے
کانام پر تقسیم ہوگئے۔ ہماری سیاسی جماعتیں، حکومتیں، کھیل، تعلیمی ادارے،
صوبے ، عوام لسانیت میں پڑکر تقسیم ہوگئے۔ عوام نے قومیت کی بنیاد پر اپنی
اپنی تنظیمیں بنا ڈالیں اور اسی بناء پر وہ اپنی قوم کی جائز و ناجائز
حمایت میں جت گئے۔ حالانکہ نبی کریم ﷺ کی حدیث کے مفہوم کے مطابق جس کسی نے
لسانیت کی بنیاد پر اپنے کسی قوم کے فرد کی ناجائز حمایت کی وہ جنت میں
نہیں جائیگا۔ اس گروہ بندی کے باعث ہم ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوگئے۔
ایک دوسرے کو حقیر گردانتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی ہم نے اتنی
تحقیر کی کہ آخر اسکے نتیجے کے طورپر پاکستان دولخت ہوگیا۔ حالانکہ ہمارے
مذہب میں کسی گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر اور کسی عربی کو عجمی پر
اور عجمی کو عربی پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ فوقیت صرف اعمال کی بنیاد پر ہے
لیکن آج اس زہر نے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیاہے۔ علامہ اقبال نے
اس موقع کیلئے کیا خوب کہا کہ یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ کہ مسلمانوں بھی ہو؟
ہم سندھی، بلوچی، مہاجر، پٹھان، پنجابی، سرائیکی تو بن گئے لیکن ایک قوم
ایک جسم نہ بن سکے۔ ہمارے مذہب میں مسلمان کی مثال ایک جسم کی مانند ہے جسم
کے کسی حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پور اجسم اسکی شدت کو محسوس کرتاہے لیکن
آج ہم بے حسی اور بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی سیاست
بجائے ملکی ہونے کے صوبوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ہم اس حد تک گرگئے ہیں
کہ اب اجتماعی ترقیاتی منصوبوں (کالاباغ ڈیم) میں بھی صوبائیت گھس گئی ۔
گذشتہ زرداری دور میں لوڈشیڈنگ کا پنجاب شکار تھا اب نواز شریف دو رمیں
KPKخصوصی ٹارگٹ ہے 20کروڑ عوام صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی، بجلی، گیس
جیسی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں لیکن ہمارے حکمران کھربوں روپوں کو
غیر ضروری ترقیاتی منصوبوں پر لگارہے ہیں۔
انصاف کا حصول اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے ملک میں ناپید ہوتا
جارہاہے لاکھوں کی تعداد میں مقدمات عدالتوں میں برس ہا برس سے معرض التواء
میں ہیں ججوں کی تعیناتی میں بھی سفارش اور سیاست کا عمل دخل ہے۔ غریب
کیلئے انصاف کا حصول ناممکن ہوگیا ہے۔ ملکی خزانے کو لوٹ کر کھاجانے والے
حکمران کو استثناء حاصل ہے لیکن غریب کی جائیداد کی قرقی ہوجاتی ہے۔ غریب
بیت المال ، زکوۃ و عشر سے محروم ہے لیکن حکمرانوں کے کھربوں کے قرضے معاف
ہوجاتے ہیں۔ سر عام قتل کرنے والے عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں لیکن معمولی
جرائم کے سزا یافتہ برسوں جیلو ں میں پڑے رہتے ہیں۔ کسی معاملے کو لمبا اور
طول دینے کیلئے آج ہماری سوسائٹی میں رواج بن چکاہے کہ ملزم دھمکی دیتاہے
کہ عدالت میں گئے تو برسوں لٹکائے رکھوں گا وکیل، جج حضرات موروثی، خاندانی،
کرایہ مکان و دوکان جیسے معمولی مقدمات میں جنکا فیصلہ چند سماعتوں میں
ہوسکتاہے اپنی فیسوں کی خاطر کئی کئی سال مقدمات کو لٹکائے رکھتے ہیں۔
ہمارے عدالتی نظام میں کرپشن عام ہے یہی حال ہماری محافظ پولیس کے نظام میں
ہے۔ جن کی کرپشن کے باعث جرائم بجائے کم ہونے کے بڑھ رہے ہیں۔ آج ہندوستان
میں 30کروڑ کے قریب مسلمان رہ رہے ہیں جہاں پر ہندوؤں کے متعصبانہ رویے کا
انکو سامناہے لیکن ہم تو ایک آزاد ملک کے شہری ہیں ہم نے اپنے اندر ایسے
رویوں اور معاشرتی برائیوں کو کیوں جڑ پکڑنے دیا۔ ہم ایک قوم کیوں نہ بن
سکے ۔ آج ہمارے ملک میں دھماکے، خودکش حملے، مساجد ومدارس، جنازوں،
مارکیٹوں، پلازوں، جلسوں، تہواروں، امام بارگاہوں، خانقاہوں اور ہماری
سیکورٹی فورسز، تعلیمی اداروں پر حملہ کرنے والے کون ہیں؟ آخر ملک میں اتنی
دہشت گردی ، افراتفری، بے حیائی، بے روزگاری، اقرباپروری، ناانصافی، رشت
ستانی کیو ں ہے؟ ہم کو اپنے گریبوں میں جھانکنا ہوگا۔ ہم آزا دہوتے ہوئے
بھی آج یہود و نصاری کے اشاروں پر غریب عوام پر ٹیکس پہ ٹیکس لگارہے ہیں۔
پھر بھی کہتے ہیں ہم ٹیکس نہیں دیتے، آکر ہم اپنی پالیسیوں میں آزاد کیوں
ہیں؟ ہم کب تک اپنی عیاشیوں کیلئے اسلام اور ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار بنے
رہیں گے۔ ہم ایسی ایٹمی طاقت کا کیا کریں جو ہمارے 10کروڑ عوام کو دو وقت
کی روٹی نہ دے سکے۔ جو ہمیں انصاف ، روزگار اور بنیادی ضروریات زندگی سے
محروم رکھے۔ ہم 14اگست کا دن خوب منائیں لیکن ہمیں اپنی سمت درست کرنی ہوگی
ہم اور ہمارے حکمران جس سمت میں چل رہے ہیں وہ ہمارے مقصد تخلیق پاکستان او
رنظریہ پاکستان کے سراسر منافی ہے۔ ہم زندہ قوم کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن
ہمارے دل مردہ ہوچکے ہیں جو صرف اعمال حسنہ سے زندہ ہوں گے۔ہمارے دل زندہ
ہوں گے اﷲ کی یاد اور اسوۃ حسنہ پر عمل پیرا ہونے سے، جب دل زندہ ہوں گے تو
پھر کوئی کام ہم خلاف شریعت کرنے سے باز رہیں گے۔
اﷲ کی مدد و نصرت بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے
جو اسے ساتھ لے کر زندگی بسر کرتے ہیں
یوم آزادی کے موقع پر ناچ گانے اور مخلوط محفلوں ، طرز زندگی ، طرز تعلیم
سے ہم جدوجہد آزادی پاکستان کی روح کو نقصان پہنچارہے ہیں اﷲ کی ذات ہم سب
کو عقل سلیم اور دین کی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین
|