حکومت دعو ؤں کے باوجود ابھی تک چائلڈلیبر پرکنٹرول نہیں کر سکی۔۔۔

بچے جو کسی ملک کا مستقبل سرمایا اور اثاثہ ہوتے ہیں،جب حالات سے مجبور ہو کر کھیلنے کے دنوں میں کام کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔ دنیا کے بیشتر مسائل کی جڑ غربت ہے جس کا ایک نشانہ بچے بھی ہیں۔ غربت اور بھوک نے اِن سے ہر خوشی چھین لی ہے۔ وہ گھرکے تحفظ کے لیے اچھے کھانوں، کپڑوں، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر ایک سماجی ضرورت بن چکی ہے ، امیر کے امیر تر اور غریب کے غریب تر ہونے پر قابو نہ پائے جانے کی وجہ سے اب لوگ اس کے سوا اور کوئی راہ نہیں پاتے کہ وہ بچوں کو ابتدا سے ہی کام پر لگا دیں تاکہ ان کے گھر کا چولہا جلتا رہے اور ضروریات زندگی پوری ہوتی رہیں۔

ہم اپنی روز مرہ زندگی میں ایسے بے شمار بچے دیکھتے ہیں جو جوتے پالش کرتے ہیں، اینٹوں کے بھٹوں پر تپتی ہوئی اینٹیں اُٹھاتے ہیں،ہوٹلوں اور ڈھابوں پر کام کرتے ہیں،بس اڈوں، ورکشاپوں اور دیگر متعدد جگہوں پر ملازمت کرنے کے علاوہ مزدوری کرنے پر بھی مجبور ہیں۔

دنیا بھر میں مزدور بچوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ دیکھنے نظر آ رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں پانچ سے چودہ سال کی عمر تک کے 25 کڑوربچے غربت کی وجہ سے مزدوری کرنے پر مجبورہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان بچوں کی زندگیوں کو روز اوّل سے ہی خطرات کا سامنہ ہے۔ وطن عزیز جو کہ ایک ترقی پزیر ملک ہے ،وسائل کی کمی، مہنگائی کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح اور غربت نے والدین کہ اِس قدر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے معصوم بچوں سے بھی محنت کروانے سے گریز نہیں کرتے۔ اِس وقت تیرہ کڑوڑ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں،شرح غربت60 فیصد یا اِس سے زائد ہو چکی ہے۔ملک میں مختلف مقامات پرلوگ غربت،تنگ دستی اور بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کڑوڑوں بچوں کی زندگی جہنم بنی ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں مزدور بچوں کی زندگی کی تعداد ایک کڑور پچاس لاکھ ہے۔

صوبہ پنجاب میں بھی مزدور بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پانچ سے سترہ سال کے بچے ورک شاپوں، ہوٹلوں، کارخانوں اور گھروں میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ کچھ بچے جوتے پالش کرکے، گاڑیوں کے شیشے صاف کر کے اور انڈے بیچ کر پیسے کماتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بچوں کی مشقت کے خاتمے کیلئے تعلیم موثر ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے مگر مہنگائی اور غربت نے تعلیم والدین اور بچوں کی پہنچ سے دُور کر دی ہے۔ کیا اُن بچوں کیلئے تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔

جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق کوئی بچہ کسی فیکٹری،کان میں کام یا کوئی اور خطرناک ملازمت نہیں کر سکتا، مگر ہماری حکومت دعوؤں کے باوجود ابھی تک مہنگائی اور چائلڈ لیبر پر ابھی تک کنٹرول نہیں کر سکی۔ انکے خاتمے کیلئے بہت سے قوانین بھی منظرِعام پر آئے مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
Rukhsar Fatima
About the Author: Rukhsar Fatima Read More Articles by Rukhsar Fatima: 3 Articles with 2054 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.