ضابطہ اخلاق

ضابطہ اخلاق کی پیروی کی اس قوم کو اشد ضرورت ہے اور جس کے فقدان سے ہمارے ملک میں بیچینی اور انتشار پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کی ہر ریاست اپنی ضروریات کے مطابق ضابطے اور قوانین بناتی ہے لوگوں کے حقوق شخصی آزادی انصاف ریاستی محکموں کے فرائض اور زمہ داری۔ اختیارات اور انکا استعمال ریاست کے تحفظ کے ادارے، بنیادی سہولیات عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے، اسمبلیاں غرض ہر سطح پر قانون موجود ہوتا ہے جس کی پابندی ہر ایک پر لازم ہوتی ہے۔ ہر مہذب معاشرہ ان قوانین اور فرائض کی پابندی کرتا ہے جس سے نظام میں خرابی کے امکانات بہت حد تک کم ہوتے ہیں۔ اور اگر کوئی تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے تو عدلیہ اس کی تشریح کر کے مسئلے کا حل پیش کرتی ہے۔ اگر تنازعہ کے حل میں رکاوٹیں کھڑی ہوں تو اسمبلی میں قانون سازی کر کے تنازعہ حل کر لیا جاتا ہے۔ اسمبلیوں کا کام ہی قانون سازی ہے جو وقتاً فوقتاً قانون سازی کرتی رہتی ہے۔ اس طرح لوگوں کے مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں اور بیچینی پروان نہیں چڑھتی، لوگوں کو حقوق ملتے ہیں ان کو انصاف ملتا ہے۔ اس کے باعث ایک کامیاب ریاست کا تصور ابھرتا ہے۔ اسے ضابطہ اخلاق کی پابند اقوام میں شمار کیا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں ضابطے اور قوانین تو موجود ہیں لیکن اس کی پابندی کا فقدان نظر آتا ہے ایسا ملک ایک انتشار کی لپیٹ میں آجاتا ہے قانون انصاف اور ذمہ داری گڈ مڈ ہو جاتے ہیں اور ریاست ایک جنگل کے قانون کا نقشہ پیش کرتی ہے جس کا شکار آجکل ہمارا ملک ہے۔ ملک کا کوئی بھی ادارہ لے لیں کیا لوگ ضابطہ اخلاق کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ یہ خرابی آج کی نہیں ہے اس کی ابتدا تو غلام محمد سے شروع ہوئی اور جب سے ہی مستقل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اختیارات کا ناجائز استعمال عدلیہ کا گھناؤنا کردار اس ملک کو ابتدائی دور ہی سے ضابطہ اخلاق کی پامالی کی طرف لے گئے بعد میں اسی کو بنیاد بنا کر حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے لئے تمام ضوابط اور قوانین توڑ کر اپنی مرضی کے مطابق اقدامات اٹھائے اور عدلیہ نے اسکی توثیق بھی کر دی۔

جہاں عدلیہ کا کردار ایسا ہو جو نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کرنے کو ترجیح دیں تو ریاست کا یہی حال ہوتا ہے جو اس وقت ہمارا ہے۔

ضابطہ اخلاق کی پامالی کرتے ہوئے ہم نے چار جنرلوں کو اپنے اوپر سوار کرایا اپنا آدھا ملک کھو دیا لیکن پھر بھی غالب اکثریت کسی ضابطہ اخلاق کی پابندی کو تیار نہیں ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی روش بھی یہی ہے انکے حقوق اختیارات اور مراعات تو دیکھیں۔ اس ملک کے مقدس اسمبلی کے ایوانوں میں جعلی ڈگریوں کی بھرمار اور ہٹ دھرمی دیکھیں۔ پوری مراعات اور فوائد کشید کرنے میں مشغول ہیں انہیں کوئی ڈر یا خوف نہیں ہے۔ کوئی تعمیری کام پچھلے ڈھائی سال میں نہ ہو سکا۔ صوبائی وزرا کا یہ عالم ہے کہ چھے چھے گاڑیاں اپنے استعمال میں رکھتے ہیں۔ مراعات کا یہ عالم ہے کوئی اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں ہے گورنمنٹ قرضوں کے حصول کے لئے بھیک مانگتی پھر رہی ہے۔ اداروں میں تنخواہ دینے کو پیسے نہیں ہیں لیکن حکمرانوں کی شاہ خرچیاں کم نہیں ہوتیں۔

جب حکمران خود کسی ضابطہ کی پابند نہیں سمجھتے اور اپنے ساتھ اسمبلی ممبران کو بھی نوازتے ہیں۔ اسمبلی ممبران گھروں کے کرائے کی مد میں لاکھوں روپے بھی وصول کر لیتے ہیں بوکس بل جمع کروا کر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیے بغیر ان دنوں کے پیسے بھی وصول کر لیتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ انہیں ضابطہ اخلاق کا پابند کون کرے گا جنہیں خود خبر نہیں کہ انکے اختیارات اور حدود کیا کیا ہیں۔ حکمران جماعت کے وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک میں اتنی زیادہ گڑبڑ ہو رہی ہے کہ سیاست دانوں بیوروکریٹس اور میڈیا کو ٹریننگ کی ضرورت ہے۔

دراصل اس ملک کی خرابی کے ذمہ دار یہ حکمران ہیں جو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے قومی اداروں میں نااہل اور کرپٹ افراد کو بغیر کسی ضابطے کے نوکریاں دلوا دیتے ہیں اور یہ سفارشی کسی ضابطے اور قانون کو خاطر میں نہیں لاتے اور نظام کی خرابی کا باعث ہوتے ہیں اور حقدار دھکے کھاتے رہ جاتے ہیں۔ یہ حکمرانوں کا اپنے لوگوں کو نوازنے کا انداز ہے اسی طرح ہر ادارہ برباد کر دیا گیا اس بربادی کے ذمہ دار سیاسی یا فوجی حکمران سیاست دان بیوروکریٹس اور عدلیہ سب برابر ہیں۔ حقوق ِ مراعات اور اختیارات کا صحیح استعمال ہی ضابطہ اخلاق کی پیروی ہے جو قوموں کی ترقی کا باعث ہوتی ہے۔

آئیے ہم سب مل کر اس ملک کے قانون کا احترام کریں اور جو جو جس جس جگہ اور جہاں جہاں بھی ہے اپنے ادارے ریاست علاقے کے قوانین ذمہ داری اور دیانت داری نبھائیں جو اس ریاست کا ہم پر قرض ہے اور یہی بہترین ضابطہ اخلاق ہے۔ ہم مزید بےضابطگیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے اب وقت آ چکا ہے کہ حکومت اپنے تمام اداروں کے سربراہان کو اس بات کا ذمہ دار بنائے کہ وہ اپنے اپنے اداروں میں ضابطہ اخلاق اور اسکی پابندی کے بارے میں آگاہی دے کر اسکا اجرا کرے اور خلاف ورزی کی صورت میں سختی کرے۔ لوگوں میں یہ احساس بھی پیدا کرنا ضروری ہے کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں چاہے وہ کتنا ہی بااثر ہی کیوں نہ ہو۔ حقوق ِ مراعات اور اختیارات کا صحیح استعمال ہی ضابطہ اخلاق کی پیروی ہے جو قوموں کی ترقی کا باعث ہوتی ہے۔

بالکل اسی طرح حکمرانوں٬ سیاستدانوں اور میڈیا کی ٹریننگ کے ادارے بنائیں جس کی سند لے کر ہی اس میدان میں آ سکیں۔ ویسے بھی ہم بہت نقصان اٹھا چکے مزید کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ملک کی تعمیر کرنے اور ضابطہ اخلاق کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75560 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More